نفسیاتی دبائو سے بچنے کیلئے اسمارٹ فون کا صحت مند استعمال: ماریہ امم

0

ماریہ امم
سا ئیکلوجسٹ

ہم جس دور میں جی رہے ہیں، یہ روایات اور جدیدیت کا حسین سنگم ہے۔ نئی نسل کی تربیت کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہے۔روایتی ثقافتوں کے ساتھ جدیدیت کو مربوط کرکے ایک بہترین فریم ورک تیار کیا جا سکتا ہے جو ان میں ذہنی دبائوکا مقابلہ کرنے کی قوت و صلاحیت کو مہمیز کرے۔ لہٰذا والدین، مربین اور مذہبی رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ نئی نسل میں زمانے کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے الٰہیاتی تصورات کو آسان بنا کر پیش کریں اور بتائیں کہ مذہب میں ہر مسئلے کا آسان حل موجود ہے۔ نفسیاتی دبائو ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس کا شکار ہے، ہمیں اس کا کثیرجہتی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اسمارٹ فون کی کثرتِ استعمال اور اس کی رنگینیوں میں کھوئے رہنے کی عادت نے نوجوانوں کی معتدبہ تعداد کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ہمیں ان کی تربیت میں لچک، مذہبی رواداری اور قدیم روایات کے ساتھ جدید دنیا کی اختراعات کے مابین ہم آہنگی پیداکرنی ہوگی۔ مذہب کی پابندی کو جبری کرنے کے بجائے اس طرح پیش کرنا ہوگا کہ مذہب، ان کے دماغ، جسم اور روح کے لیے پُرکشش بن جائے۔ ہمارے اس طرز عمل سے انہیں ذہنی الجھنوں سے نجات اور روحانی تسکین ملے گی۔

سائنس کی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی اختراعات نے انسان کو خیالی دنیا کا ایسا شیدائی بنا دیا ہے کہ وہ اپنی ہر بے چینی کا حل اسمارٹ فون و دیگر اسکرین پر تلاش کرتا ہے۔ اس عادت نے ان کی قوت ارادی کو متزلزل، نصب العین کو دھندلااور دماغ کو ڈپریشن و اضطرابی کیفیت کا شکار بنا دیا ہے۔حالانکہ اس کیفیت سے بچانے کیلئے کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں، پوسٹر اور پمفلٹوں کا بھی سہارا لیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلوں پر مباحث بھی ہوتے ہیں ،مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، کیونکہ ان مباحث میں بنیادی عوامل وحل پربات نہیں ہوتی۔اگر ان نوجوانوںکی ذہن سازی مذہبی اورعقائدی بنیاد پر کی جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ وہ اسمارٹ فون کا استعمال مذہبی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے کریں تو یقینا اس کا فائدہ ہوگا، ان میں بدلائو آئے گا اور وہ نفسیاتی دبائو کے شکار ہونے سے بھی محفوط رہیں گے۔ ابھی حال ہی میں ’’دی اٹلانٹک‘‘ میں ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کا عنوان تھا: ’’فون پرمبنی بچپن کا خاتمہ‘‘، اس میں ایک سماجی ماہر نفسیات ’جوناتھن ہیڈٹ‘ نے لکھا ہے کہ 2012 کے دوران اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے عروج نے امریکہ میں نوجوانوں میں متعدد ذہنی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ 2010 اور2019 کے درمیان نوجوان لڑکیوں میں خود کشی کی شرح میں 131 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اگر تمام عمر کے افراد کو اس سروے میں شامل کیا جائے تو خود کشی کی شرح میں مجموعی طورپر48 فیصد کااضافہ ہوا ہے۔اگربات افسردگی اور اضطراب میں رہنے والے نوجوانوں کی جائے تو 50 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا نے نوجوانوں میں مایوسیوں اور نفسیاتی بیماریوں کا زہر گھول دیا ہے جس نے انہیں تنہائی پسند بنا کربالآخر ڈپریشن، خود کشی اور الگ تھلگ رہنے کا عادی بنا دیا ہے۔

اگر ہم اپنے ملک ہندوستان کی بات کریں تو یہاں بھی اسمارٹ فون استعمال کرنے کے رجحان میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2023 کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 9-17 سال تک کی عمر کے بچوں میں61 فیصد بچے روزانہ تین یا اس سے زیادہ گھنٹے اسمارٹ فونز یا کسی اور ذریعے سے آن لائن اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان کے اس رویے سے ان میں طرح طرح کے جسمانی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کے مزاج میں جارحیت، بے صبری، تنائو اور یادداشت کے مسائل اجاگر ہوئے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انٹر نیٹ کے اپنے کچھ فائدے ہیں مگر نوجوانوں میں اس کے منفی اثرات زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔ وہ سماجی بندھن اور خاندانی روایت سے کٹتے جا رہے ہیں جس کے اثرات ان کی عائلی زندگی پر بھی پڑرہے ہیں جو بسا اوقات گھریلو جھگڑے اور طلاق کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ تاہم اگر ہم ان کی دلچسپی کو صحیح سمت میں موڑ دیں اور اسمارٹ فونز کو مذہبی تعلیمات کا ایک ذریعہ بنا دیں تو انہیں ذہنی الجھنوں، ڈپریشن اور مایوسیوں کے دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی مذہب اور روحانیت انسانی معاشرے میں طمانیت و سکون کا باعث رہی ہے اور مذہب نے ہمیشہ ہی نوع انسان کو مصیبت کی گھڑی میں حالات کا سامنا کرنے کا ہنر سکھایا ہے۔ اسمارٹ فونز پر اپنا وقت گزارنے والے نوجوانوں کی عادت کو مذہب کی طرف موڑ دیا جائے تو ذہنی دباو کو کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

’’جرنل آف پولٹیکل اکنامی‘‘ میں 2019 کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مذہب انسان میں خود اعتمادی کو بڑھانے میں بڑا اہم رول ادا کرتا ہے۔ مذہب کو ماننے والے لوگوں میں دوسروں کی بہ نسبت دفاعی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ناموافق حالات کا مقابلہ بخیر و خوبی کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مطالعے میںیہ انکشاف کیا گیا ہے کورونا وبا کے دوران اس مہلک بیماری کا اثر ان لوگوں پر بہت کم ہوا جو مذہبی عقیدہ رکھتے تھے۔ دراصل مذہبی عقیدہ ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔ مذہبی شعور، انسان کو منفرد ذہنی و دماغی آسودگی عطا کرتا ہے۔ مذہب سے انسان کو جو آسودگی میسر ہوتی ہے، وہ آسودگی نہ تو طب سے مل سکتی ہے اور نہ ہی زندگی کے کسی اور شعبے سے۔ مذہبی تعلیمات انسان کو وسیع النظر، وسیع الظرف اور جدوجہد میں مقصد و معنی تلاش کرنے اور بوقت ضرورت رویے میں لچک لانے کی ترغیب دیتی ہیں جس کی وجہ سے انسان میں چیلنج کا مقابلہ کرنے اور مخالف ماحول میں جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ تنہائی میں بھی ذکرو تسبیح اور نماز و مراقبے کا اہتمام کرکے خوشیاں تلاش کر لیتا ہے۔ مذہب اپنے پیروکاروں کو اخلاقیات، دینی رہنمائی، ہمدردی، شکرگزاری کا درس دیتا ہے اور ان کے قلوب کو عفو و درگزر کرنے کی تعلیمات سے منور کرتا ہے۔ یاد رکھیں، اس دارفانی میں جو بھی چیلنجز ہیں، ان سے نمٹنے کا راستہ بھی اسی چیلنج میں موجود ہوتا ہے، یہاں جب بھی کوئی بیماری جنم لیتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا علاج بھی موجود ہوتا ہے، بس ضرورت ہے اس کو تلاش کرنے کی۔ ذہنی دبائو کا حل طب میں نہیں، ایمان کی لازوال طاقتوں میں تلاش کیجیے۔ چیلنج چاہے جتنا بڑا ہو، اپنی روایات و اقدار سے جڑ کر اس کا مضبوط مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے نوجوان اگر اسمارٹ فون یا دیگر سائنسی ایجادات کا استعمال تفریح طبع کیلئے کرتے ہیں اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں تو ان کی اس عادت کو مثبت رخ پر موڑنے کی حکیمانہ کوشش کیجیے تو جو اسمارٹ فون ان کے نفسیاتی دبائو کا موجب بنا ہوا ہے، وہی ان کے لیے ہدف کو طے کرنے، منزل کو پانے اور صحیح سمت میں چلنے کا محرک بنے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS