قطب اللہ
آزادی ٔ فلسطین کی جنگ اب لبنان میں بھڑک اٹھی ہے۔ جہاں صیہونی غاصبوں نے دو بڑے بزدلانہ حملے کئے پہلا پیجر اورواکی ٹاکی حملہ تھا تودوسرا 27ستمبر 2024کو راجدھانی بیروت کے تین علاقوں میں آتش نمرود کی بارش کردی۔ حزب اللہ جیسی دنیا کی ایک جاندار تحریک کے کمانڈر سید حسن نصراللہ کو شہید کردیاگیا۔ اسی قسم کا بزدلانہ حملہ کرکے اس نے گزشتہ جولائی میں عظیم مزاحمتی تحریک کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو بھی شہید کیاتھا۔
غلامی اورظلم کے خلاف جہاد کرنے والے دونوں لیڈروں کی موت پر عالم انسانیت دوست اورآزادی وجمہوریت کا حامی ہرفرد ماتم کناں ہے ،لیکن زندہ قوموں کیلئے فرد کی حیثیت نظریہ اورمشن سے بڑی نہیں ہوتی ہے۔ اِسی لئے شہید حسن نصراللہ کی جگہ بھی ایک اور مجاہد صفی الدین ہاشم نے چارج سنبھال لیاہے جوگزشتہ چھ برسوں سے اس عہدے کیلئے تیارکئے گئے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے زبردست تربیت حاصل کی تھی اوراس عہدے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے جیسے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد السنوار کو حماس کی ذمہ داری دی گئی تھی اسی طرح ان کو بھی ذمہ داری دی گئی۔ واضح ہو کہ دونوں شہید لیڈر حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ روز اول سے ہی شہادت کی خواہش لئے بیٹھے تھے اورخالق کائنات نے دونوں کی یہ خواہش پوری کردی۔
شہید حسن نصراللہ تنظیم حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرمیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ انتہائی اہم میٹنگ کررہے تھے کہ اسی وقت بیروت کے داہیہ علاقے میں واقع چھ فلک بوس عمارتوں کو ٹھیک گیارہ بجے شب میں نشانہ بنایاگیا اور2000پاؤنڈ بم برسادئے گئے۔ جس عمارت میں حزب اللہ کا ہیڈکوارٹرتھا اس میں ساٹھ فٹ زیرزمین بہت سے دفاتر تھے۔ اس لئے وہاں تک رسائی کیلئے اسرائیل نے خطرناک قسم کے بم استعمال کئے۔ ظاہر بات ہے یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاتھا جب اس کی مکمل طور پر پختہ مخبری ہو۔
حزب اللہ ہی نہیں بلکہ فلسطین کا درد رکھنے والاہرشخص افسردہ ہے ، مگر اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی فلسطینی ، حوثی ، جہاد اسلامی تنظیم عراق اوراخوان المسلمین کے حوصلے کہیں سے بھی متزلزل نظرنہیں آرہے ہیں۔ جبکہ اس دوران حماس نے جنوبی لبنان اورمقبوضہ علاقے وغرب اردن کے شہر جنین میں زبردست حملہ کرکے 51صیہونی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور وہاں سے اسرائیل غاصب فوج آئی او ایف کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ آئی ڈی ایف کے بجائے دنیا کے ذرائع ابلاغ جو فلسطین کی آزادی وخودمختاری کے حامی ہیں انہوں نے آئی او ایف یعنی اسرائیلی قابض فورس لکھنا شروع کردیاہے۔ یہ ڈیفنس فورس تو ہرگز نہیں ہے۔ اس لئے قابض فوج لکھنا ہی مناسب ہے۔
بحراحمرمیں حوثی مجاہدین نے 28ستمبر کو تین امریکی جنگی طیاروں کو گراکر تباہ کردیاہے۔ نیز ایک بحری جہاز کو بھی نذرآتش کیا، یہ خبریں امریکی ذرائع ابلاغ ہرگز نہیں دیتا لیکن حوثی نے ان کا ویڈیو بناکر دنیا کو دکھادیاہے۔ امریکہ اوراسرائیل کی چالیں یکساں ہیں بلکہ اسرائیل کیا اس کی جنگ تو امریکا ہی لڑرہاہے۔ ابھی حال میں امریکا نے اپنی کالونی اسرائیل کے لئے پھر ایک نئی امداد ی رقم جاری کی ہے۔ ایک طرف امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلنکن جو وزیر سفر کا رول کرکے مغربی ایشیاء کے مختلف ممالک کا دورہ کررہاہے اورجنگ بندی کا ناٹک کرکے دنیا کو دکھارہاہے کہ وہ جنگ بندی کا حامی ہے تودوسری طرف اپنے یہودی بھائیوں کو حملہ کرنے کے لئے اکسابھی رہاہے۔ ایک بار تل ابیب میں بلنکن نے یہ بیان دیاتھاکہ میں یہاں امریکی وزیرخارجہ کی حیثیت سے نہیں آیاہوں بلکہ میں ایک یہودی ہوں اوراُسی حیثیت سے اپنے گھر آیاہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کے اس بیان کو دنیا نے سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا ۔یہ خبر امریکی اوریہودی اخبارات کے دوسرے ذرائع ابلاغ نے بڑے فخر کے ساتھ نمایاں کیاتھا۔ عربی اخبارات میں الشرق الاوسط ،عرب نیوز ،کویت کا الوطن اور قطر کے الجزیرہ چینل نے دنیا کو اس جانب متوجہ کیاتھا۔
حسن نصراللہ کے بعد حزب اللہ شمالی اسرائیل پر بھوکے شیر کی طرح اب ٹوٹ پڑاہے۔ اوراس نے ایک بارپھر حیفہ کو نشانہ بناکر صیہونی فوجی اڈوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیاہے تو دوسری جانب اسرائیلی افواج کی شمالی علاقے میں نقل وحرکت بھی بند دیکھی گئی ہے۔ اسرائیل اس وقت تک کوئی نئی چال چلنے سے قاصر ہے جب تک کہ اسے امریکہ سے ہری جھنڈی نہ مل جائے ۔ بیروت پر حملے سے قبل نیتن یاہو امریکا جانے میں آنا کانی کررہاتھا۔ اس کے بعد امریکا کے اشارے پر وہ اقوام متحدہ کی جرنل اسمبلی میں شریک ہوگیا۔ وہاںجاتے ہی بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرپر حملہ ہوگیا۔ ذرائع کی مابین تو ٹیلی فون پر اس کی اجازت نیتن یاہو نے امریکہ پہنچ کر اپنے فضائیہ کو حملے کرنے کی ہدایت وہیں سے دی تھی جس میں امریکہ اپنے سیٹ لائٹ کے ذریعہ اس کی پوری مدد کررہاتھا اور امریکہ کی مدد سے اسرائیل جہاں جہاں حزب اللہ کے لیڈران موجود تھے وہاں ایک ایک کرکے خطرناک بم گراگیا۔
یواین او میں جس وقت نیتن یاہو تقریر کرنے کے لیے کھڑاہوا تو اجلاس سے بیشتر ممالک کے حامی واک آؤٹ کرگئے۔ اس سے قبل جس وقت متحدہ اقوام کی عمارت میں نیتن یاہو داخل ہورہاتھا تو وہاں بہت بڑا گروپ کھڑا اس کو نہ صرف واپس جاؤ کے نعرے لگارہاتھا بلکہ اسے غزہ کا قاتل بھی قرار دے رہاتھا۔ اس اجلاس میں صرف چند افراد شامل تھے جس میں امریکہ اوراس کے حواری ممالک کانام لیاجاسکتاہے۔ ایسے میں سفاک نیتن یاہو امن کی بات کرنے کے بجائے اپنی پوری تقریر میں حماس اورحزب اللہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرتار ہا۔ اپنی تقریر کے دوران اس نے سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کا نام لیا اورکہاکہ یہ دونوں ممالک میرے معتبر دوست ہیں امریکا کی طرح ۔ دنیا حیرت زدہ تھی کہ وہ امن کے اسٹیج سے کس طرح خون خرابے کی بات کرسکتاہے ۔ اس نے وہاں دعوے کے ساتھ کہا کہ ہم جنگ بندی ہرگز نہیں کریں گے جب تک حماس اورحزب اللہ کا خاتمہ نہ کردیں۔ اس موقع پر وہاں صیہونی وزیراعظم نے اسرائیل کا ایک نیا نقشہ بھی دکھایا جس میں فلسطین کا کہیں وجود نہیں تھا غزہ اورمغربی کنارہ سب اسرائیل میں ضم کردئے گئے تھے۔ صیہونیوں کی اس دیدہ دلیری کو دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی ۔ اجلاس کے اختتام پر جب اقوام متحدہ سے ایک قرار داد پاس ہوئی تو اس میں فلسطین کی مکمل آزادی دوقومی نظریہ کے تحت دواسٹیٹ پالیسی کی حمایت کی گئی تھی۔ اسرائیلی درندگی کی مذمت کے علاوہ فوری جنگ بندی کے بعد امن کی گفتگو شروع کرنے پر زور دیاگیاتھا۔ اس کی حمایت میں 124ووٹ پڑے 12نے مخالفت کی جس میں امریکا پیش پیش ہے جبکہ 50 ممالک نے خود کو اجلاس سے الگ کرلیا۔ اس قرارداد کی حمایت میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے مندوبین نے فلسطین کی حمایت میں نہ صرف ووٹ دیے بلکہ انتہائی زورشور سے اسرائیلی بربریت کی مذمت بھی کی، لیکن متحدہ عرب امارات نے تل ابیب سے سفارتی تعلقات توڑنے اوراس سے کاروباری رشتے ختم کرنے کے سلسلے میں کوئی اشارہ نہیں دیا۔
اسی اثنا لبنان سے جو خبریں آرہی ہیں اس کے مطابق ایران کے روحانی پیشواں آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت میں ایک بڑا اہم جلسہ ہواہے جس میں آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیاگیا اس میں ایرانی صدر بھی شریک تھے۔ جلسہ میں فیصلہ ہواکہ ایران اپنی افواج لبنان میں بھیجے گا، اس سلسلے میں ایرانی وزیرخارجہ محمدحسن اختری نے کہاکہ ہم نے 1981ء میں یہی قدم اٹھاکر لبنان کو اسرائیلی قبضہ سے بچایاتھا، شام میں گولان کی پہاڑیوں پر بھی صیہونیوں کی پیش قدمی کو ہم نے بریک لگائی تھی۔ ایران نے ایک بار پھر اسماعیل ہنیہ کا انتقام لینے کا اعادہ کیاہے کہاکہ ہم اپنے مقصد سے غافل نہیں ہیں۔
بیروت حملے میں 200افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ شہداء میں حسن نصراللہ کی بیٹی زینب اوران کے ایک قریبی ساتھی عباس نفروسان بھی شامل ہیں۔ اس حملے اورتباہی کی پشت پر لبنان میں بیٹھے موساد کے وہ ایجنٹ ہیں جو عرصہ سے اسرائیل کے اشارے پر کام کررہے ہیں اورانہوں نے ہی اس حملے میں خاص خاص عمارتوں کی نشاندہی کی تھی۔ ان ایجنٹوں کی شناخت ہوچکی ہے جن میں سے کئی ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔
لبنان کو فرانس نے گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں آزاد کرتے وقت اس ملک کو کمزور رکھنے کے لئے فرقہ وارانہ طریقے پر تقسیم کیاتھا۔ عیسائیت ، سنی مسلم ، شیعہ مسلم اوردروز میں بانٹ کر مارونی عیسائیوں کی اکثریت ثابت کرکے اس ملک کا اقتدار ان ہی کو سونپ دیاتھا۔ کرسی صدارت پر مارونی عیسائی بیٹھتاتھا تووزیراعظم کی کرسی سنی مسلم کو دی گئی تھی اورپارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ مسلم کو بنایاگیاتھا۔ اسی بنیاد پر تینوں فرقوں میں زبردست لڑائیاں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن یہ خانہ جنگی اس وقت جاکر ختم ہوئی جب ایرانی انقلاب کے بعد حزب اللہ وجود میں آیا تو سارے فرقوں کو ایک بھائی چارہ کے رشتے میں باندھ دیا گیا۔ ان کے ساتھ دروز اوردوسرے فرقہ جو اسلام کے قریب تھے وہ بھی اتحادمیں آگئے ،اس طرح اب لبنان میں ان کی تعداد 67 فیصد ہوگئی جومارونی عیسائیوں کے مقابلے میں اکثریت میں ہیں۔ اس لئے لبنان میں ایک نئے آئین کی تیاری کے مطالبات زورشور سے اٹھ رہے تھے ۔
موساد کی دخل اندازی لبنان کو گھُن لگارہی ہے کیونکہ اس کے ایجنٹ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اسرائیل کی یہی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے ایک بڑے طبقے کو اپنا ہمنوابنالیاہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاکر اس نے حزب اللہ کے ہرٹھکانے کا پتہ لگالیاہے اورحزب اللہ کے ہرمنصوبہ تک اس کی رسائی ہوجاتی ہے۔ پیجر حملہ یا حالیہ فضائی حملہ ہو ان سب میں یہی سازش کارفرما نظرآرہی ہے۔ اس حملے کے بعد بیروت کے عوام غمزدہ ضرور ہیں لیکن اس کا اثر یہ ہواہے کہ 67فیصد حزب اللہ حامیوں کے ساتھ اب مارونی عیسائی بھی آگئے ہیںا وران میں بھی اسرائیل کے خلاف شدید غم وغصہ ہے جس کے اثرات نیتن یاہو کو جلد دیکھنے کو مل جائیں گے۔
[email protected]
جائے گا کبھی تو بھی اُسی راہ گزر سے: قطب اللہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS