تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابلِ فراموش: پروفیسر نجمہ اختر

0

نئی دہلی:(یوا ین آئی) ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابلِ فراموش ہے اور اردو شعرا نے وطن کی محبت میں نہ جانے کتنے ترانے گائے، انقلاب زندہ باد اور آزادی پائندہ باد جیسے نعرے لگائے۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام منعقد ہ مشاعرہ جشنِ آزادی کے صدارتی خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کیا۔
انہوں نے تمام اہلِ و طن کو ہندوستان کے پچھترویں یومِ آزادی کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آزادیِ وطن کی اہمیت اس لیے بھی اور زیادہ ہوجاتی ہے کہ اس کے حصول میں جیالوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم سچے دل سے انھیں یاد کرتے ہوئے خراجِ عقیدت پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ آزادی کا جذبہ ہر جان دار کے دل میں ہوتا ہے۔ آج جو اساتذہ اپنے معلمانہ فرائض دیانت کے ساتھ انجام دے رہے ہیں وہ بھی دراصل ملک کی آزادی کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
مہمانِ خصوصی سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے کہا کہ جامعہ کی ایک علمی و ادبی روایت ہے۔ مشاعرے کی روایت خالص مشرقی ہے، مغرب میں اس کا وجود نہیں ہے اور اس روایت کا سراغ سب سے پہلے نویں، دسویں صدی عیسوی میں ممتاز سنسکرت شاعر راج شیکھر کی کتاب ”کاویہ میمانسا“میں ملتا ہے، جس میں انھوں نے اپنے زمانے کی شعری محفلوں کا ذکر کیا ہے۔ دلی میں مشاعرے محمد شاہ رنگیلے کے زمانے سے ہونے لگے۔ باقاعدہ ماہانہ مشاعرے کی داغ بیل خواجہ میر درد سے پڑتی ہے۔ تہذیبی ادارے اور مظہر کے طور پر مشاعروں کا مفصل ذکر غالب کے اردو اور فارسی خطوط میں بھی موجود ہے۔ دلی میں اب بھی کامنا پرشاد جیسی شخصیات نے مشاعروں کی اس تاب ناک روایت کو زندہ رکھا ہے۔
مہمانِ اعزازی وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی پروفیسر سید عین الحسن نے یومِ آزادی کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اپنے پرانے رشتوں کو یاد کیا۔ انھوں نے وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کی متاثرکن شخصیت کے حوالے سے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ایک نہایت اہل قیادت میسر آئی ہے۔
مشاعرے کے کنوینر ممتاز شاعر پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ سید شاہد مہدی کو علم و ادب سے غیرمعمولی شغف ہے، ان کا مطالعہ نہایت بسیط ہے اور انھوں نے ہی اپنے دور میں جامعہ کلچرل کمیٹی کی بنیاد ڈالی۔ پروفیسر شہپر رسول نے پروفیسر سید عین الحسن کو مانو کے وائس چانسلر مقرر ہونے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو کے بہترین شاعر بھی ہیں۔ کنوینر مشاعرہ نے خیرمقدمی خطاب میں کہا کہ پروفیسر نجمہ اختر کو زبانوں سے بے پناہ دل چسپی ہے، ان کی سرپرستی میں تمام شعبے ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔
وائس چانسلر جامعہ اسلامیہ پروفیسر نجمہ اختر نے شمع روشن کرکے مشاعرے کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض منفرد لب و لہجے کے شاعر اور عالمی شہرت یافتہ ناظمِ مشاعرہ معین شاداب نے انجام دیے۔مشاعرے کا آغاز ڈاکٹر خالد مبشر کی تلاوت اور اختتام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار ڈاکٹر ناظم حسین الجعفری کی جانب سے پروفیسر احمد محفوظ کے اظہارِ تشکرپر ہوا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام منعقد کیے گئے اس باوقار مشاعرہئ جشنِ آزادی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہJmi Online Events نامی یوٹیوب چینل پر ہزاروں شائقین اس لائیو مشاعرے سے محظوظ ہوئے۔ اس مشاعرے میں پروفیسر سید عین الحسن، اظہر عنایتی، پروفیسر شہپر رسول، راجیش ریڈی، پاپولر میرٹھی، اقبال اشہر، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر اے۔ نصیب خان، معین شاداب، ڈاکٹر رحمان مصور، ڈاکٹر خالد مبشر، احمد علوی، علینا عترت اور عارفہ شبنم نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہاں اس یادگار مشاعرے کے منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں:
بھلا یہ کس نے سوچا حال پیشانی کا کیا ہوگا
بس اک ضد تھی کہ پتھر سے لہو ایجاد ہوجائے
سید عین الحسن
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
اظہر عنایتی
سکوتِ وحشتِ یاراں کو انجمن تو کرو
خموش بیٹھے ہو کب سے کوئی سخن تو کرو
شہپر رسول
شام کو جس وقت خالی ہاتھ گھر جاتا ہوں میں
مسکرا دیتے ہیں بچے اور مر جاتا ہوں میں
راجیش ریڈی
سبھی ایک صف میں نظر آرہے ہیں
گویے، سخنور وغیرہ وغیرہ
پاپولر میرٹھی
میں اٹھ گیا ہوں مصلے سے کچھ بھی مانگے بغیر
مجھے لگا کہ یہ آنسو دعا سے بہتر ہے
اقبال اشہر
کیا مفت ہے یہ سودا، جو چاہے اس گلی میں
جاں نذر لے کے جائے دیدار کرکے لوٹے
احمد محفوظ
قطرہئ شبنم کے بھی احسان یاد آنے لگے
ہونٹ سوکھے جارہے ہیں جب سے میں پانی میں ہوں
کوثر مظہری
مینا ہے یہ پنجرے کی
آہنی فصیلوں پر
چونچ اور ناخن سے
حملہ بول ہی دے گی
(نظم”چاندنی ہے عصمت کی“ سے ایک ٹکڑا)
اے۔ نصیب خان
میں اس لیے بھی ذرا اس سے کم ہی ملتا ہوں
بہت ملو تو محبت سی ہونے لگتی ہے
معین شاداب
میرے کمرے میں صرف کاغذ ہے
میں چراغوں سے خوف کھاتا ہوں
رحمان مصور
شوق ہے، آرزو ہے، طوفاں ہے
یعنی سرتاپا جامعہ ہے عشق
خالد مبشر
بحروں میں کہنے والے پہنچے نہ اوکھلا تک
بے بحر کہنے والے بحرین جارہے ہیں
احمد علوی
زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے
علینا عترت
نیند آتی نہیں رات بھر، ہائے مجھ کو یہ کیا ہوگیا
ان سے نزدیکیاں کیا بڑھیں یہ زمانہ خفا ہوگیا
عارفہ شبنم

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS