محمد حنیف خان
ہم اس دور میں جی رہے ہیں،جس میں مجرموں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے،بہرائچ فسادات میں یہی کچھ ہوا ہے۔پولیس نے ان دولوگوں کو گرفتار کرلیا ہے جنہوں نے یہ قبول کیا ہے کہ وہ لوٹ مار اور گھروں کو جلانے میں شامل تھے،اگر مہلوک رام گوپال مشرا آج زندہ ہوتا تو سلاخوں کے پیچھے ہوتا کیونکہ وہ ایک شخص کے گھر میں زبردستی گھس کراس کی چھت پر چڑھا،اس کی ریلنگ گرائی،جھنڈا اتارا، اس کی بے حرمتی کی اور بھگوا جھنڈا لہرایا۔اگر ایسے شخص کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تو یقینا اسے سزا ملے گی اور جو شخص بھی اس کی حمایت کرے گا وہ بھی قابل سزاگردانا جائے گا مگر آج میڈیا نے اسی شخص کو متاثربنادیا ہے،اس کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے کسی نے اس کو اس کے گھر سے گھسیٹ کر قتل کردیا ہے۔قتل یقینا جرم ہے لیکن جس شخص کے ایک عمل سے پورا علاقہ خاک و خون میں لت پت ہوگیا اسے کیا کہیں گے؟مگر زبانیں خاموش ہیں۔
سرحدی ضلع بہرائچ کے مہسی مہراج گنج میں گزشتہ دنوں ہوئے فسادکے سلسلے میں سرکاری رپورٹ خواہ کچھ بھی ہو لیکن جس طرح سے اس سے متعلق اسٹنگ آپریشن کے ویڈیو سوشل میڈیا پر آ رہے ہیں،انہوں نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ یہ فساد منظم تھا۔ایک بڑے میڈیا گروپ نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا ہے جس میں دو لوگ یہ کہتے ہوئے دیکھے اور سنے جاسکتے ہیں کہ پولیس والوں نے دو گھنٹے کا وقت دیا تھا،اگر غداری نہ ہوئی ہوتی تو پورا مہراج گنج جلا دیا ہوتا۔اس اسٹنگ آپریشن کی ویڈیو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کس طرح مہرے کی طرح استعمال ہوجاتے ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا اور کیوں کر رہے ہیں۔
ان دونوں کی گفتگو یہ بتا رہی ہے کہ یہاں جو بھی فسادات ہوئے ہیں، وہ پہلے سے منظم تھے۔خود حکمراں پارٹی کے ممبر اسمبلی سریشور سنگھ نے جو ایف آئی آر درج کرائی ہے، وہ بھی اسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ فساد ہوئے نہیں بلکہ کرائے گئے ہیں۔سریشور سنگھ ضلع بہرائچ کے ایک ایسے سیاسی لیڈر ہیں جو سیاست دائیں بازو کی ضرور کرتے ہیں مگر ریڑھ کی ہڈی بھی رکھتے ہیں۔ان کے تعلقات وہاں کے ہندو-مسلم دونوں طبقات سے ہیں اور خود وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں جہاں یہ فساد ہوا۔انہوں نے اپنی ہی پارٹی کی ذیلی تنظیم سے وابستہ افراد کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج کرائی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ان کے الزامات کی تصدیق سی سی ٹی کی فوٹیج سے کی جاسکتی ہے کہ کس طرح سے فساد یوں کو اکسایا گیا بلکہ فسادکرایا گیا۔چونکہ ایف آئی آر ہوئی ہے، اس لیے دیر سویر کوئی نہ کوئی کارروائی تو پولیس کو کرنی ہی ہوگی لیکن اس کے برخلاف میڈیا میں جو بیانیہ ابھی تک چل رہا ہے وہ یہی ہے کہ ایک شخص کو بے رحمی سے قتل کیا گیا،جس کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ نے ملاقات کی اور کارروائی کی یقین دہانی کے ساتھ ہی سرکاری مراعات کا بھی اعلان کیا۔دوسری طرف پولیس اور انتظامیہ نے فسادات پر قابو پاتے ہی کارروائی بھی شروع کردی۔یہ کارروائی دو طرفہ ہے۔ ایک طرف انتظامیہ نے ان پولیس اہلکاروں کی ذمہ داریوں کو طے کرنے کا آغاز کیا جن کی وجہ سے یہاں فسادات ہوئے، اس سلسلے میں اے ایس پی دیہی کا تبادلہ کردیا گیا۔ دوسرے یہ کہ فساد کے الزام میں اندھا دھند مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ان گرفتاریوں کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کے متعدد ویڈیو سوشل میڈیا پر گشت کر رہے ہیں جو اپنے دکھ درد کا اظہارکر رہے ہیں اور بتا رہے کہ کس طرح پہلے ان کے گھروں کو جلایا گیا اور اب ان کے لڑکوں کو پولیس نے اٹھا لیا ہے۔
پہلے دن سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی سماجی تنظیمیں اور سول سوسائٹیاں یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ حکومت اترپردیش مہسی مہراج گنج میں یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے جس کی زندہ مثال 23افراد کی دکانوں اور مکانوں کے انہدام کا نوٹس ہے۔پوری ریاست میں بلڈوزر کارروائی سے لوگ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ نوٹس کی تعمیل میں خود سے ہی ایسی عمارتوں کو منہدم کرنے لگے جو قانونی اعتبار سے نہیں بنائی گئی تھیں۔
ریاستوں سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا کیونکہ ان کے پاس جو طاقت ہے اس کا مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔اب یہی دیکھئے کہ اتر پردیش میں بلڈوزر کارروائی اس قدر عام ہوئی اور اس دہشت و ہیبت کے ساتھ یہ کارروائی کی گئی کہ بلڈوزر کو ہی ’’بلڈوزر بابایا باباکا بلڈوزر ‘‘ کہا جانے لگا۔کہیں کوئی واقعہ رونما ہوا اور فوراً بلڈوزر کارروائی شروع ہوگئی لیکن یہی معاملہ جب عدالت میں پہنچتا ہے توحکومتیں بغلیں جھانکنے لگتی ہیں۔ رونما ہوئے واقعات اور بلڈوزر کی کارروائی میںکسی بھی طرح کے ربط سے انکار کرتے ہوئے دلیل دیتی ہیں کہ چونکہ یہ عمارت غیر قانونی طور پر بنائی گئی تھی، اس لیے متعلقہ محکمے نے اپنی کارروائی کی ہے۔جب کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ کارروائی کیوں کی جارہی ہے۔ایسانہیں کہ عدالت میں بیٹھے ہوئے فاضل جج بھی اس سے واقف نہ ہوں مگر چونکہ عدالتیں دلائل و شواہد سے چلتی ہیں،اس لیے عدالتیں بھی اس طرح کی کارروائی اس کے تناظر میں نہیں دیکھتی ہیں،البتہ جب یہ بات بالکل عام ہوگئی تو اس طرح کی کارروائیوں پر روک لگا دی گئی۔بہرائچ فساد کے معاملے میں ہی عدالت نے فوراً حکم موقوفی جاری کردیا اور بلڈوزر کارروائی کو روکتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا کہ پہلے وہ یہ بتائے کہ کس سڑک پر کتنے مکان بنے ہیں اور کن اصول و ضوابط پر عمل ہو رہا ہے؟حکومت کا متعلقہ محکمہ تعمیرات عامہ عدالت میں اپنا جواب نہیں داخل کرسکا جس پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سرزنش بھی کی اور کہا کہ ریاستی حکومت نے عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا، اس نے میرٹ پر سوال کیا ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت ان نکات پر جواب دیتی جن پر عدلیہ نے سوالیہ نشان لگایا تھا۔کیونکہ جن لوگوں کی جانب سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ محکمہ تعمیرات عامہ نے انہدام کی کارروائی کے نوٹس کے اجرا میں اصول و ضوابط پر عمل نہیں کیا ہے۔جو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلااف ورزی ہے۔
در اصل محکمہ تعمیرات عامہ نے یہ خلاف ورزی اس لیے کی کیونکہ اسے فوری طور پر بلڈوزر کی کارروائی دکھانا تھا اور ریاست کی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس نوٹس کا تعلق ان تعمیرات کے غیر قانونی ہونے سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق ان فسادات سے ہے تاکہ عوام میں ایک پیغام دیا جاسکے۔اس طرح کی کارروائی کے بجائے حکومت کو ایسے واقعات کی گہرائی سے جانچ پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ ان کمیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرنا تھا جن کی وجہ سے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
فسادات کا زور ٹوٹنے اور انتظامیہ کی جانب سے نرمی برتنے کے بعد ان علاقوں میں راحت رسانی کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ابتدا میں حکومت کی جانب سے اشیائے خورد ونوش مہیا کرائی گئی تھیں مگر اب سماجی و سیاسی تنظیمیں بھی اس عمل میں مصروف ہوگئی ہیں۔اس سلسلے میں راشٹریہ علماء کونسل کے ضلع صدر اور ضلع پریشد کے ممبرمولانا محمد سرور قاسمی نے متاثرین سے ملاقات کرکے دامے درمے تعاون کیا،اس کے ساتھ ہی انہوں نے گورنر کو سٹی مجسٹریٹ کے توسط سے ایک میمورنڈم بھی ارسال کیا ہے جس میں اس فساد کی سی بی سی آئی ڈی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس فساد کی غیر جانبدارانہ جانچ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اسٹنگ آپریشن اور بی جے پی ممبر اسمبلی کی ایف آئی آر اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ان فسادات کے پیچھے گہری سازش تھی۔
فسادات کی سازش دو طرح سے کی گئی ہوگی، اول مورتی وسرجن سے قبل یا پھر رام گوپال مشرا کے قتل کے بعد سازش کی گئی ہوگی۔ان دونوں صورتوں کی جانچ ضروری ہے۔ کیونکہ جس طرح سے مسجد کے سامنے قابل اعتراض گانے بجائے گئے،گھر پر چڑھ کر سبز جھنڈا اتارا گیا اور بے حرمتی کرکے بھگوا جھنڈا لہرایا گیا اور بھیڑ جے بجرنگ بلی اور جے شری رام کے نعرے لگا رہی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے منصوبہ بند تھا،ورنہ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ کسی کے گھر میں گھس کر یہ عمل انجام دے۔ایسے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق جان و مال کی حفاظت کے لیے گولی چلائی گئی جس میں رام گوپال مشرا کی موت ہوگئی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوااس نے بہرائچ کے ساتھ ہی پورے ملک کے عوام کو خوف زدہ کردیا ہے۔فساد کی بنیاد وہ فحش اور قابل اعتراض گانے ہوتے ہیں جو ڈی جے پر ایسے جلوس میں بجائے جاتے ہیں۔حکومت کو اس پورے معاملے کی جانچ کرانی چاہیے اور یکطرفہ کارروائی کے بجائے مجرمین کی نشان دہی کی جائے کیونکہ جن لوگوں کے گھر جلائے گئے، جن کے مکان لوٹ لیے گئے، جن کی دکانیں خاکستر کر دی گئیں،وہ بھی اسی ملک کے باشندے ہیں۔جس کا قصور تھا کہ وہ دوسرے کے گھر میں گھسا،چھت پر چڑھا،دوسرے مذہب کے جھنڈے کی توہین کی، حکومت کے ساتھ میڈیا اور ملک کا اکثریتی طبقہ نہ صرف اس کے ساتھ ہے بلکہ اس کی حمایت کی جا رہی ہے،لیکن دوسری طرف وہ بے گناہ لوگ ہیں جو فساد کی آگ میں جلے ہیں،آج ان کے سروں پر چھت نہیں ہے،دانے دانے کو محتاج ہیں مگر ان کی کوئی سدھ لینے والا نہیںہے۔