ڈاکٹر سیّد احمد قادری
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی وزارت تعلیم کے اشارے پر معصوم بچوں کے ذہن کو منافرت اور تعصب کے زہر سے آلودہ کرنے کی قومی کونسل برائے تعلیم و تحقیق و تربیت (NCERT ) گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس سال بھی مذموم حرکت کی مرتکب ہوئی ہے ۔ اس ادارہ نے نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے تحت 2025-26 کیلئے آٹھویں کلاس کے بچوں کیلئے نصاب کی ’سوشل سائنس‘ پارٹ:1کی کتاب ’’Exploring Society India and Beond ‘‘ میں مغلیہ دور حکومت کے چیپٹر بعنوان “Reshaping Indias politial Map “میں ہمالیائی جھوٹ کو بھی شرمندہ کرنے والی تاریخ بیان کرتے ہوئے دہلی سلطنت کے ساتھ ساتھ مغلیہ دور کے بادشاہوں بابر ، اکبر اور اورنگ زیب کو ظالم ، جابر ، بے رحم ، سفّاک اور قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی آبادی کا دشمن بتا کر نہ صرف تاریخی حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے بلکہ معصوم بچوں کے ذہن کو پراگندہ کرنے کی جو مذموم کوشش کی گئی ہے۔
وہ ملک کی شاندار تاریخ، رواداری اور یکجہتی کی روایت کے منافی ہے۔ اس لئے کہ ایسی متعصب اوراق سے بھری کتابوں کے مطالعہ سے ایک خاص مذہبی طبقہ خصوصاََ ملک کے مسلمانوں کے خلاف منافرت اور تعصب کاہی فروغ نہیں ہوگا بلکہ ملک کی یکجہتی، اتحادو اتفاق ، ہم آہنگی کی شاندار پرانی روایت اثر انداز ہوگی ۔ ملک کی ہرتاریخ کو مسخ کرنے کی ایسی کوششوں کے جواب میں نامور تاریخ داں پروفیسر سید عرفان حبیب نے کہا ہے کہ ’ تاریخی حقائق کو مسخ کرکے تصوراتی تاریخ لکھنے کی کوشش سے وہ کچھ اور ہو سکتی ہے تاریخ نہیں ہو سکتی ہے َ‘۔ سید عرفان حبیب نے یہ کہہ کر حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ ایسے تصوراتی واقعات سے فکشن کی تخلیق کی جا سکتی ہے تاریخ نویسی نہیں ہوسکتی ہے ۔ ایسی تصوراتی اور جھوٹی تاریخ پڑھ کر بچے بڑے ہوکر اصل تاریخ کا جب مطالعہ کریں گے اور انھیں حقائق کا علم ہوگا تب انھیں اندازہ ہوگا کہ ان کے ملک کی وزارت تعلیم نے انھیں کتنا جھوٹ اور مسخ شدہ تاریخ پڑھائی ہے ۔ ذرا تصور کیجئے کہ جن مغل بادشاہوں نے اس ملک میں ہندو مسلم مساوات کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہر مذہب کی عزت و احترام کیا ۔
ان مغل بادشاہوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ مغل بادشاہ دوسرے مذاہب کے خلاف تھے ۔ بادشاہ اکبر کے متعلق اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ راجستھا ن کے چتوڑ گڑھ کے راجپوت قلعے پر اکبر بادشاہ نے حملہ کیا تھا اس وقت اس کی عمر محض 25 سال تھی اور اس عمر میں اس نے ظلم و بربریت اور سفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 30,000 ہزار لوگوں کو قتل کیا تھا اور اپنی فتح پر اپنی حکمرانی قائم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہم نے کافروں کے قلعوں اور قصبوں کو فتح کر لیا ہے اور ہم نے خون کی پیاسی تلواروں کی مدد سے کافروں کے دلوں سے کفر کے نشانات تک کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ اکبر اعظم ہی کی طرح مغل بادشاہ اورنگ زیب کے بارے میں بھی اسی طرح کے ظلم و ستم کا فسانہ بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس نے ملک کے مندروں اور اسکولوں کے انہدام کے ساتھ ہی بنارس ، متھرا ، سومناتھ کی مندروں نیز جین مندر وں اور سکھوں کے گرودواروں کو ختم کرنے نیز پارسیوں کی عبادت گاہوں اور صوفیوں کے مزارات کوبھی نہیں بخشا۔
اس کتاب میں ایسے جھوٹ کے پٹارہ پر جب دانشوروں اور تاریخ دانوں کے اعتراضات ہونے لگے تب NCERT کے ڈائریکٹر پروفیسر دینیش پرساد سقلانی نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا ہے کہ ’ جدید نسل کو ملک کے تاریک دور کی جانکاری سے واقف کرانا ضروری ہے اور اس کیلئے ’ معتبر‘ ذرائع سے موصول ہونے والے تاریخی حقائق کی بنیاد پر متوازن تاریخ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔افسوناک پہلو یہ ہے کہ 13 ویں صدی سے لے کر 17 ویں صدی کی تاریخ بیان (مسخ) کرتے ہوئے اس پورے عہد کو تاریک عہد بتایا گیاہے ۔افسوسناک پہلو اس معاملے میں یہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک بھارت کا جو موجودہ تعلیمی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے ، وہ نہ صرف حیران کن ، پریشان کن اور تشویشناک بھی ہے۔ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو ایک خاص نظریہ کا پابند بنانے کیلئے ہمارے ملک کی برسہا برس کی گنگا جمنی تہذیبی ر وایات اور سماجی اقدار کو پامال کرنے کی منظم اور منصوبہ بند کوشش کرتے ہوئے آپسی محبت، بھائی چارگی، اخوت، پیار، یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کو ختم کرکے منافرت، عداوت، تعصب اور فرقہ واریت کے زہر سے نظام تعلیم اور نصاب کو آلودہ کیا جا رہا ہے ۔
اس کیلئے ایک جانب سرسوتی ششو مندر، ، ودیا بھارتی اور وانی ششو مندر وغیرہ جیسے لاکھوں اسکولوں میںمعصوم بچوں کے ذہن کو بعض مذاہب، خاص طور پر اسلام مذہب کے خلاف پراگندہ اور زہر آلود کیا جا رہا ہے،اب آپ خود سوچیں کہ یہ بچے جب سن بلوغت کو پہنچیںگے ، تو یہ دیکھیں گے کہ ہمارے اسلاف، ہماری تہذیب اور ہمارے مذہبی عبادت گاہوں پر مسلمانوں نے کیسے کیسے مظالم ڈھائے ہیں۔ اس کے لئے ملک کے طول و عرض میں چھوٹے اور معصوم بچوں کو باضابطہ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے کے تحت تعلیم وتربیت دی جا رہی ہے ۔اس کیلئے ان اسکولوں کے نصاب میں دینا ناتھ بترا، اتل راوت اور جے ایس راجپوت وغیرہ کے منافرت سے بھرے مضامین کی شمولیت کے ساتھ ساتھ شیاما پرساد مکھرجی، گوالکر، ساورکر اور گوڈسے جیسے فرقہ پرستوں کی فرضی داستانوں کو نصاب میںشامل کر کے نیا نصاب تیار کیا جا رہا ہے ۔
اس سلسلے میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے ۔ راشٹریہ سیوم سنگھ نے اپنے ’’ہندوتوا‘‘ ایجنڈے کو نافذ کرنے کیلئے تعلیمی نظام کو پوری طرح بھگوا کرن کیلئے باضابطہ ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ اس کیلئے سنگھ کی ایک ذیلی تنظیم ’شکشا سنسکرتی‘نے بھارتی شکشا نیتی آیوگ قائم کی ہے، جس کا سربراہ دینا ناتھ بترا کو بنایا گیا تھا جو کہ سنگھ کے اسکول ودیا بھارتی کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے سنگھ کے ایجنڈے کے مطابق اپنی خدمات انجام دے چکا تھا ۔ اس شخص کی رہنمائی میں نئی اور فرضی تاریخ لکھ کر نصاب میں شامل کر کے معصوم اور کچے ذہن کے بچوں کو یہ بتانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک پر مسلم حکمرانوں نے ظلم و ستم ڈھا کر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور یہ مسلم حکمراں دراصل حملہ آور اور لٹیرے تھے اور ہندو قوم کااستحصال کیا کرتے تھے ۔
اس ضمن میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا یہ بیان فرقہ پرستوں کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ’تاریخ کا بھگوا کرن ضروری ہے‘۔ اس کیلئے ہر سطح پر کوششیں جاری ہیں ۔ نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی نئی کتابیں بھی لکھی جا رہی ہیں ۔ انٹرنِٹ پر جو تاریخی حقائق ہیں ، انھیں بہت چالاکی سے تبدیل کیا جا رہا ہے ، تاکہ برسہا برس کے بعد آنے والی نسلیں ان ہی فرضی اور جھوٹی تاریخ کو حقائق پر مبنی تاریخ سمجھیں ۔ انتہا تو یہ ہے کہ میڈیکل سائنس کے نصاب میں بھی اب رامائن اور مہا بھارت کو شامل کیا گیا ہے ۔
آر ایس ایس نے چند سال قبل اسکولوں کے بعد ملک کے کالجوں اور یونیورسیٹیوں کی جانب بھی رخ کیاتھا اور دہلی میں ہزاروں ماہرین تعلیم کے ساتھ ساتھ پچاسوں یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلروں کو مدعو کر کے دو روزہ تعلیمی ورکشاپ کا انعقاد کر کے نئے تعلیمی نظام اور نئے نصاب کی جانب واضح اشارہ دیا تھا ۔
حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ ورک شاپ حکومت کی ایما پر نہیں بلکہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی مرضی پر انعقاد کیا گیا تھا ۔ اس ورکشاپ کو مخاطب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے بہت واضح طور پر یہ کہا تھاکہ ملک کے تعلیمی نظام اور نصاب میں ہندوستانیت کے نقطئہ نظر کی کمی ہے ، جنھیں اجاگر کرنے کا اب مناسب وقت آ گیا ہے۔ موہن بھاگوت نے یہ بھی اشارہ دیا تھاکہ ہندوستان میں تعلیمی نظام، ماہرین تعلیم کے ہاتھوں میں ہے ، اس لئے کسی سرکار کو درمیان میں لائے بغیر اس کام میں سرعت لائی جائے ۔ اس موقع پر اس ورک شاپ کے کنوینر پروفیسر پرکاش سنگھ نے بھی اپنی تقریر میں بہت صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ہم پہلے پروفیسروں اور دیگر اساتذہ کا ذہن بدلنا چاہتے ہیں ، پھر ہماری کوشش ہوگی کہ طالب علموں کی ذہنی تربیت کی جائے ۔ اس ورک شاپ میں کئے جانے فیصلوں پر سرکاری مہر لگاتے ہوئے (سابق) مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے پارلیامنٹ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسکولی تعلیم کی بہتری کے لئے ضروری تبدیلی کی جائے گی۔اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سنگھ کا نظریہ واضح طور پر ہندو راشٹر کا ہے ۔
جس کی حصولیابی کے لئے سنگھ ، حکومت کے تعاون سے یہ کام سرانجام دیتے ہوئے اپنے نصب العین کو مزید فروغ دینے کے لئے سنگھ کے ایک اہم مرکز ’’انڈیا پالیسی فاؤنڈیشن ‘‘ نے مرکزی حکومت کو ’’انڈین انسٹی چیوٹ آف کلاسیکل اسٹڈیز ‘‘ کی تشکیل دینے کا بھی مشورہ دیا ہے ، تاکہ بیرون ممالک میں بھی اپنی نئی تاریخ، ہندو تہذیب و ثقافت کو دور دور تک پھیلا سکیں۔ ملک کے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں میں عالمی شہرت یافتہ قطب مینار اور تاج محل وغیرہ جیسی تاریخی عمارتوں کی تواریخ بدلنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ٹیپو سلطان ،اشفاق اللہ خاں ، عظیم ا للہ خاں، بدرالدین طیب جی، حکیم اجمل خاں، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، مختار احمد انصاری،سیف الدین کچلو،آصف علی،محمد برکت اللہ،یوسف مہر علی،مولانا آزاد، مظہر الحق،رفیع احمد قدائی وغیرہ کو بھی تاریخ کے اوراق سے حذف کر ہی دیا گیا ہے ۔ اب بابائے قوم مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کو بھی فراموش کیا جا رہا ہے ۔ مہاتما گاندھی کو کس نے قتل کیا تھا ، یہ تاریخی حقیقت اب غائب کر کے ان کے قاتل گوڈسے کو ہی قومی ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ راجستھان میں آٹھویں کلاس کی سوشل اسٹڈیز کے نصاب سے مجاہد ہند اور ملک کے پہلے وزیراعظم پندت نہرو کو سرے سے ہٹا دیا گیا ہے ۔
ان کے ساتھ ساتھ سروجنی نائڈو، مدن موہن مالویہ بھی نصاب سے معدوم کر دئے گئے ہیں ۔ ان کی جگہ مجاہد آزادی کے نام پر ہیمو کالانی کو شامل کیا گیا ہے ۔آزادی ٔ ہند میں بہت اہم کردار ادا کرنے والے ان تاریخ ساز شخصیات کو اس طرح منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت نظر انداز کئے جانے پر راجستھان کے سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے احتجاج درج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ تاریخ پر پردہ ڈالنے کی یہ کوشش اس کڑوی سچائی کو چھپا نہیں سکتی کہ قوم پرستی کا دم بھرنے والے آر ایس ایس نے جنگ آزادی سے نہ صرف اپنے کو دور رکھا تھا ، بلکہ سول نافرمانی سے لے کر انگریزو ہندوستان چھوڑو تحریک کی مخالفت بھی کی تھی‘۔ راجستھان کے بعد اس معاملے میں ریاست ہریانہ میںبھی سبقت لے جاتے ہوئے بچوں کے چھٹے کلاس سے بارہویں درجات تک کے نصابی کتابوں میںپرانے مجاہد آزادی اور سرکردہ قومی شخصیات کو ہٹا کر جن سنگھ اور راشٹریہ سیوم سنگھ کے بہت سارے متنازعہ لوگوں کو جگہ دی گئی ہے ۔ جس ہٹ دھرمی سے اور ببانگ دہل ملک کی شاندار تواریخ کو بدلنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں ، انھیں دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ بات یاد آتی ہے کہ جن ممالک میں تانا شاہی کادور دورہ ہوتا تھا ، وہاں ان ممالک کے تاناشاہوں نے اپنے من مطابق تاریخ لکھوائی اور اپنے نا پسندیدہ تاریخ ساز شخصیات کے ذکر کو بھی نا پسند کیا ۔ سوویت سنگھ اور کئی دوسرے ایسے ممالک میں ایسے تاریخی ستم خوب روا رکھے گئے ہیں ۔
لیکن کسی جمہوری ملک کیلئے یہ کس قدر افسوسناک بلکہ تشویشناک صورتحال ہے ، اس کا اندازہ ابھی تو نہیں ، لیکن کچھ عرصہ بعدہوگا جب ایک نسل جوان ہو کر سامنے آئیگی اور وہ ان سوالات کے جواب حقائق کے تناظر میں مانگے گی ۔ ویسے ملک کی تاریخ پر آر ایس ایس کا اعتراض کوئی نیا نہیں ہے ۔ مرارجی دیسائی کی حکومت میں بھی ، مئی 1977 میں جن سنگھ کے کارندوں نے ایک میمورنڈم اس بات کیلئے دیا تھا کہ رومیلا تھاپڑ، بپن چندرا، اے ترپاٹھی،برون ڈے وغیرہ کی مختلف عنوانات کے تحت تاریخ پر لکھی ان کتابوں کو اس بنیاد پر واپس لیا جائے کہ ان کتابوں میں مسلم حکمرانوں کی زیادتیوں کو نشان زد نہیں کیا گیا ہے ۔ 23 جولائی 1978 کے ’آرگنائزر‘ کے مطابق ان تاریخ دانوں کی کتابوں کو نصاب سے ہٹانے کے لئے تحریک چلانے کی بھی دھمکی دی گئی تھی۔ لیکن جنتا پارٹی کی حکومت نے ایسے میمورنڈم اور مطالبوں کو کو ئی اہمیت نہ دیتے ہوئے ردّ کر دیا تھا ۔ لیکن جب مرکز میں اٹل بہاری باجپئی کی حکومت برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت کے وزیر تعلیم مرلی منوہر جوشی نے بھی نصاب میں شامل کرنے کیلئے کئی تاریخ دانوں سے نئی اور ان کی مرضی کے مطابق تاریخ لکھنے کیلئے آمادہ کیا تھا ۔اُس وقت NCERT کی کتابوں میں بہت ساری تبدیلیاں بھی ہوئی تھیں ، لیکن کافی احتجاج کے بعد ان تبدیلیوں کو واپس لے لیا گیا تھا ۔ ان دنوں تواریخ کی تبدیلی پر بہت سنجیدگی سے کام کیا جارہا ہے ۔ دیکھا جائے کہ تاریخ کی نئی نئی کتابیں اپ ڈیٹ ہونے کے بعد کس کس شکل میں سامنے آتی ہیں ۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]