شاہد زبیری
2جولائی کو ہاتھرس کے درد ناک حادثہ کے بارے میںمیڈیا میں بہت کچھ آچکا ہے، اس میں ایک بات قدرِ مشترک ہے کہ حادثہ کی بڑی وجہ گنجائش سے زیادہ بھیڑ اور لوگوں کی ضعیف الاعتقادی اور خلافِ عقل باتوں پر یقین کرنا ہے جس کے سبب 121انسانی جا نوں کا اتلاف ہوا،سیکڑوں زخمی ہو ئے، الزام ہے کہ بابا کے سیواداروں نے آشرم سے حادثہ کے ثبوت مٹا دئے ہیں ، سیواداروں نے لوگوںکے فون چھین لئے تھے تا کہ کہیں ویڈیو کے ذریعہ حقیقت سامنے نہ آجا ئے اسی لئے اتنے بڑے اور ہولناک حادثہ کی تادمِ تحریر کوئی ویڈیو وائرل نہیںہو ئی۔ حادثہ کولے کر کئی سوال ہیں جو اپنا جواب چاہتے ہیں ۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ جس نام نہاد بابا کے آشرم میں یہ حادثہ رونما ہوا پولیس ایف آئی آر میں اس بابا کا نام کیوں نہیں ،بابا نے سیواداروں کے نام پر مرد وعورتوں کی جو فوج کھڑی کررکھی تھی اس کا کیا جواز تھا ،بابا کے آشرم جو آشرم کم عالیشان محل زیادہ دکھا ئی دیتے ہیں میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ آشرم مین پوری،کانپور ،نوئیڈا ،راجستھان وغیرہ میں ہیں۔بابا کی 100 کروڑ کی منقولہ اور غیر منقولہ املاک بتا ئی جا تی ہے، اتنی دولت کہاں سے آئی ۔بابا محیّرالعقل دعویٰ کرتا تھا ،جیسے مُردوں کو زندہ کرنا ،بھوت پریتوں اور ارواح سے با تیں کرنا، پانی میں آگ لگا دینا وغیرہ وغیرہ ۔ حادثہ کے بعد سے بابا فرار بتایا جاتا ہے۔ بابا اگر اس حادثہ کا ذمّہ دار نہیں تو فرار کیوں ہے ؟ بابا کا ایک بیان سامنے آیا ہے نہیں معلوم کہ بابا نے یہ بیان خود دیا ہے یا بابا سے دلوایا گیا ہے ۔اپنے بیان میں بابا نے خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔حادثہ کی تحقیقا ت آگرہ کی ایس آئی ٹی اور جسٹس شریواستو کی قیادت میں ایک سہ رکنی کمیشن کررہا ہے ۔کمیشن ان پہلوئوں پر بھی غور کرے گا کہ نہیں،کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
یہ درد ناک حادثہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے ایسے حادثے یو پی اور ملک کے دوسرے حصوں میں ہوتے رہے ہیں ۔ زیادہ پرانی بات نہیںہے،بلکہ 2010میں پرتاپ گڑھ کے من گڑھ مندر میںبھگدڑ مچنے سے 13لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں اور 2013کے مہا کمبھ کے دوران الٰہ آباد ( پریاگ راج) کے ریلوے اسٹیشن پر گنجائش سے زیادہ بھیڑ اکھٹا ہونے کی وجہ سے بھگڈر مچ گئی تھی جس میں 39لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھولیا تھا ۔انٹر نیشنل جنرل آف ڈزاسٹر رسک اڈکشن کی ایک اسٹڈی کے مطابق ہندوستان میں اس طرح کی بھگدڑ کے حادثات میں 79فیصدحادثات مذہبی پروگراموں اور تیرتھ یاترائوں کے دوران ہوتے ہیں لیکن لوگ کسی بھی پہلے حادثہ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے اور پھر کوئی حادثہ رونما ہو جا تا ہے اور انسانی جانوں کا اتلاف ہو جا تا ہے ۔2جولا ئی کے اس تازہ حادثہ کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی یہ ضعیف الا عتقادی تھی کہ با با کے پائوں کی دھول سے تمام پریشانیاں دور ہو جا تی ہیں اور تمام مصیبتوں سے نجات حاصل ہو جا تی ہے، چشم دید لوگوں کی مانیں تو یہ حادثہ بھی اسی کی دین ہے ۔بابا کی کاروں کا قافلہ جب آشرم سے نکلا تو نام نہاد با با جس کار میں سوار تھا اس کار کے پہیوں کے نیچے کی دھول حاصل کرنے کیلئے بھیڑ جب دوڑی تو بھگدڑ مچ گئی جس میں لوگ ایک دوسرے پر گرتے چلے گئے جن میں خواتین کی تعداد زیادہ بتا ئی جا تی ہے ۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہیے کہ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر لے جانے کیلئے ایمبولینس گاڑیاں نہیں تھیں ٹرک، نجی گاڑیوں اور بائک و اسکوٹروں پر ہاتھرس کے ضلع اسپتال پہنچایا گیا، لیکن وہاںبھی ڈاکٹرناکافی تھے۔ علاج اور دواکا کوئی معقول بندو بست نہیں تھا، جس سے زخمیوں کو بروقت میڈیکل ایڈ نہیں مل سکی، جس سے ہیلتھ کے معاملہ میں یوگی سرکار کے دعوؤں پر سوال کھڑا ہوتاہے ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ یوپی میں کسی بھی حادثہ سے نمٹنے کیلئے اور جانوں کو بچا نے اور زخمیوں کے علاج کیلئے ہیلتھ کا جو انفرا اسٹرکچر چا ہئے وہ ہے نہیں اور ایمرجنسی حالات سے نمٹنے کیلئے یو پی کے ہیلتھ محکمہ کے پاس کوئی تیاری نہیں ہے ۔
جس بابا کی ہم بات کررہے ہیں اس بابا کا جو ریکارڈ سامنے آیا ہے اس کے مطابق بابا کا نام سورج پال سنگھ عرف ساکار ہری بابا عرف بھولے بابا ہے۔یہ بابا اتنا بھولا ہے کہ یہ بھگوا دھاری نہیں نہ اس کی جٹائیں اور داڑھی ہے یہ نئے زمانہ کا ماڈرن بابا ہے جو مہنگی سفید پینٹ ،شرٹ اورمہنگا چشمہ پہنتا اور ٹائی لگاتا ہے اور سوٹ بوٹ میںرہتا ہے ۔بابا جب کہیں آتا جا تا ہے تو 10-12کاروں اور موٹر سائیکلوں کے قافلوں کے ساتھ اور اپنے گارڈوں کی فوج کے ساتھ آتا جاتا ہے۔ یہ بابا پہلے پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھا اور لوکل انٹیلی جینس میں تعینات تھا ۔ سرکاری ملازمت چھوڑ کر بابا بن گیا، اس سے پہلے وہ ایک لڑکی کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملہ میںمبینہ طورپر ایک سال کے لئے جیل جا چکا ہے ۔جیل سے اس نے یہی سبق سیکھا کہ بابا بن کر غریب اور محروم طبقات کو بے وقوف بنا یا جا ئے، جب ان طبقات میں مقبولیت بڑھے گی تو خوشحال لوگ بھی جھا نسے میں آئیں گے ۔ بابا نے لوگوں پر اپنی کرامات کا رعب ڈالنے کیلئے ایسے ایجنٹ رکھے ہوئے تھے جولوگوں میں جا تے اور بابا کے محیّر العقل کرامات کا ذکر ایسے کرتے جیسے انہوں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔نتیجہ سیدھے سادھے لوگوں اور نادار اور مفلسوں میں بابا کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ صرف یو پی ہی نہیں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی اس کے لاکھوں لوگ معتقدبن گئے ۔ اس نے اپنے آبائی گائوں بہادر نگر میں ایک عالیشان آشرم بنا رکھاہے، جہاں ہر ماہ کے پہلے منگل کو ست سنگ کرتا تھا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہماری یوپی کی یوگی سرکار اور اس کی انٹیلی جینس کو نہیں معلوم تھا کہ سرکاری ملازم رہ چکا اور جیل جاچکا ایک شخص کیسے بابا بن کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ عالیشان آشرموں میں رہتا ہے، کاروں کے قافلے اور سیواداروں کی نجی فوج کے ساتھ سڑکوں پر نکلتا ہے ،آخر وہ کون ہے، کیوں لاکھوں لوگ اس کے معتقد ہیں، اس کے پاس دولت کہاں سے آتی ہے ،اپنی سیواداروں کی فوج اور آشرموں کا خرچ کہاں سے پورا کرتا ہے ،وہ اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب و کتاب آڈٹ کراتا ہے کہ نہیں، سالانہ ریٹرن بھر تا ہے کہ نہیں ۔ بابا کے آشرموں میں آنے والے لوگ کون ہیں، کیا بابا کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کی سرپرستی میں کام کرتا ہے، اگر ایسا ہے تو سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کون سی ہے۔ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ اس حادثہ پر سیاست تیز ہو گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ یادو کا الزام ہے کہ یوگی سرکار معمولی گرفتاریاں دکھا کر اپنی ناکامی چھپارہی ہے اور اتر پردیش انتظامیہ سیکڑوں لوگوں کی موت کی ذمّہ داری سے بھا گنا چاہتی ہے، جبکہ وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سماجوادی پر نشانہ سادھتے ہوئے نام لئے بغیر کہا کہ یہ ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ اس سجن ( بابا) کے ساتھ کون ہے، اس کے سیاسی تعلقات کس کے ساتھ تھے ۔ راہل گاندھی نے ہاتھرس کے دورہ کے وقت بیان تو کوئی نہیں دیا لیکن معاوضہ کی رقم کو نا کافی بتا یا ،مایا وتی نے عوام کو مشورہ دیا کہ بابائوں کے پاکھنڈ میں نہ پھنسیں،اپنی تقدیر خود بدلیں ۔انہوں نے کہا کہ اپنی غریبی سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہاتھرس کے بھولے باباجیسے بابائوں کی توہم پرستی اور جھانسے میں نہ آئیں ،اپنے دکھ درد میں اضافہ نہ کریں ۔انہوں نے بابا بھولے سمیت جو بھی قصور وار ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔مایاوتی نے حکومت سے بھی کہا کہ اپنے سیاسی مفادات کے تحت اس معاملہ میں لا پروائی نہیں کرنی چاہئے ۔قومی اقلیتی کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے بابابھولے کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ آزاد ادھیکار پارٹی کے قومی صدر و ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے ہاتھرس کا دورہ کر نے کے بعد صاف طور پر الزام لگا یا کہ یوگی سرکار بابا کو بچا رہی ہے ۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جن بابائوں کے معتقدین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ،بڑے ووٹ بینک کے پیشِ نظر ان بابائوں کو سیاسی پارٹیوں اور سرکاروں کی سرپرستی حاصل ہو تی ہے ۔ بابا رام رحیم کو لے کر ہریانہ کی بی جے پی سرکار پر یہ الزام لگتا رہا ہے۔ہاتھرس والے بابا کو کس کی سرپرستی حاصل ہے اور حادثہ کا ذمّہ دار کون ہے، یہ تو کمیشن پتہ لگا ئے گا ۔ بہر کیف ہاتھرس حادثہ پر ہماری سیاسی پارٹیوں اور سرکاروں کو سیاست کر نے کی بجائے سبق سیکھنا چا ہئے ۔lmq
[email protected]