آج ہندوستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کی جمہوری اور سیکولر شناخت پر گہرے سوالات اٹھ رہے ہیں۔تین مختلف خونچکاں داستان سنارہیں ملک کے مختلف کونوں سے ابھرنے والی حالیہ تین خبریں منظم نظریے کے تحت پھیلائی جانے والی فرقہ وارانہ منافرت کی عکاس ہیں، جو سماجی تانے بانے کو تار تار کر رہی ہیں۔ مغربی بنگال سے لے کر کرناٹک تک، اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو جس منظم تذلیل، تشدد اور نفسیاتی اذیت کا سامنا ہے،وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نفرت کی یہ آگ اب صرف سیاسی نعروں تک محدود نہیں رہی،بلکہ گلیوں،گھروں اور یہاں تک کہ معصوم بچوں کے اسکولوں تک پہنچ چکی ہے۔
مغربی بنگال کے درگاپور کا واقعہ اس زہرناکی کی ایک شرمناک مثال ہے۔ چار مسلمان مویشی تاجر،جو بانکوڑہ کی منڈی سے قانونی طور پر 20 گائیں خرید کر لا رہے تھے اور ان کے پاس تمام ضروری دستاویزات بھی موجود تھیں،محض شک کی بنیاد پر ایک جنونی ہجوم کا نشانہ بن گئے۔ بی جے پی کے ارکان کی قیادت میں اس ہجوم نے نہ صرف انہیں بے دردی سے مارا پیٹا،بلکہ ان کے ہاتھ باندھ کر سرعام پریڈ کروائی اور انہیں بنگلہ دیشی کہہ کر ان کی حب الوطنی کی تذلیل کی۔ یہ سب کچھ مقامی پولیس اسٹیشن سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر ہوا،جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی یا ملی بھگت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مقامی بی جے پی رہنما پریجات گنگولی کا یہ دعویٰ کہ اس نے حملہ نہیں کیا بلکہ مقامی لوگ مویشیوں کی اسمگلنگ پر ناراض تھے، اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتیں ہجوم کو تشدد پر اکسا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ پولیس کی جانب سے صرف دو افراد کی گرفتاری اس وسیع جرم کے مقابلے میں ایک ناکافی قدم ہے۔
اسی طرح پونے میں کارگل جنگ کے ایک ریٹائرڈ فوجی، 58 سالہ حکیم الدین شیخ اور ان کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس بات کی قلعی کھول دیتا ہے کہ اس ملک میں وفاداری کا پیمانہ اب مذہب بن چکا ہے۔ جس سپاہی نے 16 سال تک اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی،اسے 30 سے زائد افراد کے ہجوم کے سامنے اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ پولیس کی موجودگی میں رات کے اندھیرے میں ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر وہ اپنی قومیت ثابت نہ کرسکے تو انہیں روہنگیا یابنگلہ دیشی قرار دے دیا جائے گا۔ حکیم الدین شیخ کا یہ درد بھرا سوال کہ انہوں نے کارگل کی جنگ لڑی،وہ کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں، ان سے اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے کیوں کہا جا رہا ہے؟ ہر اس ہندوستانی مسلمان کا سوال ہے جس کی وفاداری پر شک کا خنجر چلایا جاتا ہے۔ یہ واقعہ محض ہراسانی نہیں،بلکہ ان لاکھوں لوگوں کی توہین ہے جنہوں نے اس ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں۔
نفرت کی یہ انتہا کرناٹک میں اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب بیلگاوی ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں صرف اس لیے پانی کی ٹنکی میں زہر ملا دیا گیا کیونکہ اس کا ہیڈ ماسٹر ایک مسلمان، سلیمان گوری نائیک تھا۔ سری رام سینی جیسی دائیں بازو کی تنظیم کے تعلقہ صدر ساگر پاٹل نے اعتراف کیا کہ وہ ایک مسلمان کو اسکول کے سربراہ کے طور پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس گھنائونی سازش کا مقصد 12 معصوم بچوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہیڈ ماسٹر کو خوفزدہ کرنا اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فرقہ وارانہ جنون اب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ معصوم بچوں کی زندگیوں کو بھی اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھانے سے گریز نہیں کرتا۔ وزیراعلیٰ سدارمیا نے بجا طور پر اسے مذہبی نفرت اور بنیاد پرستی سے چلنے والا گھنائونا فعل قرار دیا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض مذمت کافی ہے؟
یہ تینوں واقعات الگ الگ ریاستوں میں پیش آئے لیکن ان کا مرکزی خیال ایک ہی ہے کہ مسلمانوںکو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر دوسرے درجے کا شہری بنانا،انہیں خوفزدہ کرنا،ان کی تذلیل کرنا اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا۔ ایک جگہ قانونی کاروبار کرنے والے تاجروں کو اسمگلر اوربنگلہ دیشی کہا جاتا ہے،دوسری جگہ ملک کیلئے لڑنے والے فوجی کو اپنی شہریت ثابت کرنی پڑتی ہے اور تیسری جگہ ایک قابل استاد کو صرف اس کے مذہب کی وجہ سے عہدے سے ہٹانے کیلئے بچوں کو مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ واقعات اس گہری بیماری کی علامات ہیں جس نے آئین کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ جب تک اس نفرت انگیز نظریے کی سرپرستی کرنے والی طاقتوں کو لگام نہیں ڈالا جاتا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے،تب تک ہندوستان کی جمہوریت اور اس کا مستقبل تاریک سایوں میں گھرا رہے گا۔
edit2sahara@gmail.com