مطیع الرحمٰن عوف ندوی
حالیہ دنوں ملک میں نفرت آمیز بیانات کا سلسلہ چل پڑا ہے، جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کبھی مسلمانوں کے بائیکاٹ، لو جہاد، ’ملے کاٹے جائیں گے‘، ہندو خطرے میں ہے، ہندو جاگ گیا ہے، گئو ہتیا، دھرم پریورتن وغیرہ کے نام پر ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے، تو کبھی دھرم سنسد کے اسٹیج سے ہیٹ اسپیچ کے ذریعے ملک میں نفرت و عداوت کا بازار گرم کیا جاتا ہے، تو کہیں سوشل میڈیا کے ذریعہ دو کمیونٹی کے درمیان آگ لگانے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی مذہبی جلوس نکال کر دوسرے طبقے کے جذبات بھڑکانے کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ منافرت اس سے آگے بڑھ کر توہین رسالت و توہین مذہب تک پہنچ جاتی ہے۔
یہ ملک ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے، یہاں مختلف رنگ و نسل اور تہذیب و تمدن کو اپنانے والے، مختلف زبانوں کے بولنے والے، صدیوں سے ایک ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ میں یہاں کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور عداوت کے واقعات نہیں تھے، حتیٰ کہ مغل دور حکومت میںایسی مثالیں ملتی ہیں کہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے کسی غیر مسلم حکمراں کے خلاف خود انہیں کے طبقے کے افراد مقابلہ کرتے تھے لیکن رعایا کی سطح پر عصبیت کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا اور حکمرانوں کی اپنے ملک کی رعایا کے ساتھ رواداری کے واقعات تاریخی کتابوں کی زینت ہیں۔
برطانوی دورحکومت میں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ملک میں زہر کے بیج بوئے گئے، جس کا نتیجہ دو قومی نظریے کے فروغ سے ہوا۔ بالآخر ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ابدالآباد تک عداوت کا موضوع دونوں ملکوں کے ارباب سیاست کو حاصل ہو گیا۔ تاریخی طور پر اس نفرت کی شہادت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے ملتی ہے، جو 1927 میں سامنے آیا۔ یہ فیصلہ 1924 میں لکھی گئی ایک اسلام مخالف کتاب کے مقدمے میں ججوں کے ایک پینل نے سنایا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ قومی سطح پر نظر آنے لگا۔ آج جب ہندوستان میں مذہبی منافرت کی علمبردار سیاسی پارٹی برسراقتدار ہے تو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے حوصلے بہت فزوں ہوگئے ہیں اور خاص مہم کے تحت ملک میں نفرت کا ماحول گرم کیا جاتا ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پارٹی کی سطح پر جس قدر نقصان پہنچانے والے اقدامات کیے جاتے ہیں، اکثریتی طبقے کے ووٹ کے حصول میں اسی قدر تحریک پیدا ہوتی ہے۔
نفرت کی یہ سیاست ملک کو اگرچہ کھوکھلا کررہی ہے لیکن ایسے معاملات میں حکومت خاموش تماشائی بن جاتی ہے اور اکثریتی طبقے سے وابستہ اپنے مفاد کے مدنظر اس سے پہلو تہی کرتی ہے۔ یہ نفرت ارباب سیاست کے اسٹیج کے علاوہ دھرم سنسدوں، سادھو سنتوں کے بیانات، سوشل میڈیا پر زرخرید چینلوں کے ایک طبقے کے جذبات کو مجروح کرنے والے اقدامات سے لے کر انفرادی پلیٹ فارم سے پھیلائی جاتی ہے۔ دستور ہند میں بالواسطہ طور پر نفرت آمیز بیانات یا ہیٹ اسپیچ کے خلاف تو کوئی دفعہ نہیں ہے، تاہم سیکشن 19 اور 25 کے تحت بعض دفعات ملک سے ان خطرناک معاملات کے سدباب کے لیے معاون ہیں، مثلاً 153A – 295A دفعہ 296، دفعہ 297، دفعہ 298، دفعہ 505 اور دفعہ 66A، تعزیرات ہند کی یہ دفعات مذہبی جذبات مجروح کرنے، زبان، رنگ و نسل، ذات برادری وغیرہ کے خلاف منافرت کے خاتمے کے لیے وضع کی گئی ہیں، جن میں بعض میں پانچ سال قید اور جرمانہ اور بعض میں تین سال یا دو سال قید اور جرمانہ شامل ہے۔ ملک کے دستور میں منافرت کے خلاف دی گئی دفعات کا استعمال ہمارا بنیادی حق ہے، منافرت کے اس ماحول کے خاتمے کے لیے خاص طور سے اقلیتی فرقے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ملی جماعتوں اور تنظیموں کو بھی حکمت عملی کے ساتھ قانونی اقدامات کی جانب پیش رفت کرنا لازمی ہے تاکہ ملک کسی ایک طبقے کے خلاف نفرت کے اس ماحول کو ختم کیا جاسکے، جو اس طبقے میں مایوسی پیدا کرنے اور احساس کمتری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ اسے بڑے جانی اور مالی نقصانات سے بھی دوچار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ائمہ کرام بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور وہ عوام کو اس کے تدارک اور اس سے دفاع کے اقدامات اور دفعات سے آگاہ کرسکتے ہیں۔
ملک میں برپا کیے جانے والے اس منافرتی ماحول نے بین الاقوامی سطح پر بھی وطن کی ساکھ کو کمزور کیا ہے۔ دنیا میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ایک امریکی ادارے ریاستہائے متحدہ کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے، جسے مختصراً یو ایس سی آئی آر ایف کہا جاتا ہے، امریکی انتظامیہ سے سفارش کی ہے کہ وہ حقوق انسانی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر ہندوستان کو ’گہری تشویش‘ والے ممالک کے زمرے میں رکھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکمراں بی جے پی اور اس کی اتحادی، ہندو تنظیمیں اکثریتی ہندو راشٹر کے قیام کے لیے فرقہ واریت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس صورت حال سے مذہبی اقلیتوں کو شدید خطرہ لاحق ہے، رپورٹ میں ہندوستان کے خلاف ’ٹارگیٹیڈ سیکشن ‘(پابندی عائد کرنے) کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
اس سے قبل او آئی سی یعنی تنظیم تعاون اسلامی نے بھی ہندوستان میں رام نومی کے جلوسوں کے ذریعے مسلمانوں کی جان و مال اور تشدد کے واقعات کی شدید مذمت کی تھی۔ او آئی سی کے جنرل سکریٹری نے کہا تھا کہ ’ان کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقے سے تشدد کا ہدف بنانا ہے۔‘ الغرض ملک میں انارکی، بدامنی اور تشدد کے واقعات پر خاموش رہ کر کیونکر ملک کو وشو گرو بنایا جا سکتا ہے؟ صرف یہی نہیں بلکہ ملکی ایجنسیاں اس سلسلے میں دوہرا معیار اپناتی ہیں اور حقوق کی بات کرنے والے یا حقائق کو پیش کرنے والے صحافیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے غیر ضمانتی دفعات لگاکر قید کردیا جاتا ہے اور توہین رسالت اور ایک طبقے کے جذبات مجروح کرنے والے افراد آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں، عجب طرفہ تماشا ہے۔
ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے نفرت کے اس ماحول کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر یہ سلسلہ دراز ہوگا تو ملک کی بربادی کے خدشات کو تقویت ملے گی، اس لیے ملک کے ہر باشندے اور ہر محب و طن کے لیے لازم ہے کہ وہ محبت و پیار اور امن و آشتی کے لیے فکر کرے اور نفرت پھیلانے والی طاقتوں کا مقابلہ کرے اور ان کو پنپنے نہ دے، کیونکہ جب نفرت کی آگ لگے گی تو محفوظ کوئی نہ رہے گا۔n
[email protected]