اختر جمال عثمانی
مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر یا ہیٹ اپیچ کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ معاملہ مغربی دہلی سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما کے بیان کا ہے جن کے انتہائی نازیبا اور نفرت انگیز بیان جس میں مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ کی مانگ کی گئی تھی اور ان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ بیان’’ وراٹ ہندو مہا سبھا‘‘ کے نام سے ہونے والے پروگرام میں دیا گیا تھا۔ اسی پروگرام میں ایک مقرر نے لوگوں کو مسلمانوں کے قتل کے لیے بھی اکسایا۔ پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ وی ایچ پی کے خلاف کارروائی ہوئی بھی تو بغیر اجازت کے پروگرام کرنے کو لے کر ۔ گزشتہ برس دہلی، ہری دوار اور دیگر مقامات پر دھرم سنسدوں کے نام پر ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلایا گیا۔ ہری دوار میں تو باقاعدہ مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا گیا۔ حسب روایت کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، احتجاج ہونے پر کارروائی ہوئی بھی تو معمولی نوعیت کی۔ ملزم یتی نرسنگھا نند چند روز میں ہی جیل سے باہر آ گیا اور مزید اشتعال انگیزی شروع کر دی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہیٹ اسپیچ کے سلسلے کو حکمراں جماعت کی تائید حاصل ہے کیوں کہ پارٹی کے بڑے لیڈروں کی جانب سے اس طر ح کے بیانات پر خاموشی رہتی ہے۔ مسلمانوں، دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ اور ان پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے لیکن حکومت کی کارروائی قصور واروں کے بجائے احتجاج کرنے والے مظلوموں کے خلاف ہوتی ہے۔ توہین رسالتؐ کی ملزمہ نوپور شرما کے معاملے میں دنیا بھر میں ملک کی بدنامی اور درجنوں ممالک کے احتجاج کے بعد بھی اسے صرف رسمی طور پر پارٹی سے نکالا گیا، گرفتاری تک نہیں ہوئی۔ جب کہ احتجاج کرنے والوں پر سخت ترین دفعات میں مقدمات درج کیے گئے۔دہلی میں کی گئی نفرت انگیز تقریر کے سلسلے میں بھی پارٹی صدر نے اپنے ایم پی کو صرف خط لکھنے پر اکتفا کیا ۔حالانکہ آئین اس بات کا ضامن ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ کوئی بھی عقیدہ رکھنے، کوئی بھی مذہب اختیار کرنے، عبادت کا کوئی بھی طریقہ اپنانے اور اپنے خیالات کے اظہار کرنے میں ہر فرد آزاد ہے۔ اقلیتوں کو دیے گئے تعلیمی اور ثقافتی حقوق کے لیے دفعہ 29اور30 میں وضاحت کی گئی ہے، ان کی زبان، تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے، اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن آج کے حکمرانوں کی نظر میں آئین کی کیا وقعت ا ورکیا احترام ہے، یہ نوشتہ دیوار ہے۔ایک جمہوری اور سیکولر دستور ہوتے ہوئے ملک لگاتار فرقہ پرستی کے دلدل میں گرتا جا رہا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ تعصب اور جانب داری میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔بنیادی اصولوں کی پاسداری سے حکومتیں قاصر ہیںہر قدم پر دستور کی پامالی نظر آرہی ہے۔ جمہوریت، سیکولرزم اور قانون کی حکمرانی (Rule of Law) خواب کے مانند ہوتے جا رہے ہیں۔آزاد اداروں میں حکومتوں کا دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ کسی ادارے کا آزادی کے ساتھ کام کرنے کا تصور ہی محال ہے۔ اداروں کے عہدیداران کبھی دبائو میں اور کبھی سبکدوشی کے بعد حاصل ہونے والی مراعات کے لالچ میں آئین کے تقاضوں پر حکومت کی مرضی کو فوقیت دیتے ہیں۔ اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق نشانے پر ہیں، معاملہ قوانین پر عمل درآمد کا ہے۔ جس میں اکثر جانب داری آڑے آتی ہے۔ اب تو مذہب کے نام پر سیاست کا بول بالا ہے، لگاتار نفرت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ جہاں تک سیاستدانوں کا سوال ہے، آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کا حلف لینے کے باوجود مذہب اور ذات پات کو لے کر نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں،پالیسیاں بناتے ہوئے جمہوری قدروں کے بجائے ووٹ بینک پر نظر ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہیٹ اسپیچ کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ عرصہ میں اس معاملے میں جس طرح سپریم کورٹ نے احکامات جاری کیے ہیں، اس سے کچھ امید بندھی ہے کہ شاید نفرت کے سوداگروں پر کچھ اثر ہو۔ اپریل میں سپریم کورٹ نے ہماچل پردیش میں ہونے والی دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقاریر پر سخت رویہ اپنایا تھا اور حکومت کی جانب سے کی گئی کارروائی کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ حکم دیا تھا کہ ان نفرت انگیز تقاریر کو روکنا یقینی بنایا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ حکم جسٹس اے ایم کھانولکر کی قیادت والی بینچ نے دیا تھا جس میں جسٹس ابھے اور جسٹس سی ٹی روی کمار شامل تھے ۔ اس کے بعد گزشتہ ستمبر کو بھی سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی رکنیت والی بینچ نے مرکزی حکومت کو سخت فہمائش کی تھی، انہوں نے ہیٹ اسپیچ کے سلسلے میں دو سوال پوچھے تھے، پہلا یہ کہ اس کی وجہ سے ملک کدھر جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ مرکزی حکومت اس کو روکنے کی کوشش کرنے کے بجائے خاموش کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ لاء کمیشن 2017 کی اس ہدایت پر جس میں ہیٹ اسپیچ کی تعریف متعین کرنے کے لیے کہا گیا تھا، ابھی تک عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ عدالت نے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کی تھی۔اسی ماہ 10؍ اکتوبر کو چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بینچ نے ایک عرضی کی سماعت کے دوران کہا تھاکہ نفرت انگیز تقاریر کو فوری طور پر روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ اسی دوران ایک اور معاملے میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ اور دہلی میں گزشتہ سال منعقدہ نام نہاد دھرم سنسدوں میں نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف پولیس کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کے بارے میں جواب طلب کیا۔ بینچ کا کہنا تھا کہ نفرت انگیز تقاریر کی وجہ سے ماحول خراب ہو رہا ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔
ہیٹ اسپیچ کے معاملات میں سپریم کورٹ کے سلسلے وار احکامات میں گزشتہ جمعہ کو جاری کیا گیا حکم سب سے سخت ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی ڈویژن بینچ نفرت انگیز تقاریر سے متعلق شاہین عبداللہ کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے اور نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کی درخواست دی گئی تھی۔ عدالت نے ہیٹ اسپیچ کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’’نفرت کا ماحول ملک پر حاوی ہو گیا ہے، مذہب کی پروا کیے بغیر فوراً کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہیٹ اسپیچ میں دیے جانے والے بیانات پریشان کن ہیں جو برداشت نہیں کیے جا سکتے۔ مذہب کے نام پر ہم کہاں پہنچ گئے ہیں، ہم نے ایشور کو کتنا چھوٹا بنا دیا ہے۔ بینچ نے دہلی، اترا کھنڈ اور اترپردیش کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کے جرائم پر کی گئی کارروائی کے بارے میں عدالت کو مطلع کریں۔ پولیس شکایت درج کرائے جانے کا انتظار کیے بغیر از خود قانون کے مطابق فوری کارروائی کرے۔ عدالت نے واضح ہدایت دی کہ کارروائی میں تساہلی توہین عدالت مانی جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’’ہندوستان کا آئین ہندوستان کو ایک سیکولر ملک کے طور پر دیکھتا ہے، فرد کے وقار کو یقینی بناتا ہے۔ ملک کا اتحاد اور سالمیت وہ رہنما اصول ہیں جو تمہید میں درج ہیں،اس وقت تک کوئی بھائی چارہ نہیں ہو سکتا جب تک مختلف مذہب اور ذاتوں کے افراد آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ زندگی نہ گزار سکیں۔ہم محسوس کرتے ہیں کہ عدالت کا فرض ہے کہ وہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور آئینی اقدار، خاص طور پر قانون کی حکمرانی اور قوم کے سیکولر جمہوری کردار کی حفاظت کرے‘‘۔ اگر سپریم کورٹ کا سخت رویہ برقرار رہا اور اس کے احکامات کی تعمیل ہوئی تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہیٹ اسپیچ یا نفرت انگیز تقاریر پر لگام لگے گی۔
[email protected]