صبیح احمد
ایسا لگتا ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں زد و کوب (ماب لنچنگ) اور قتل بر صغیر میں اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ ماب لنچنگ کا جن وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی بہانے باہر آجاتا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا یہ رجحان بہت پرانا نہیں ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھی کم وقت سے یہ وبا تیزی سے پھیلنے لگی ہے۔ یہ صرف ہمارے وطن عزیر کا مسئلہ نہیں ہے۔ پڑوسی ملک بھی اس سلسلہ میں پیچھے نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سیالکوٹ شہر کی ایک فیکٹری میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک سری لنکائی منیجر پریا نتھا کو پہلے زد و کوب کیے جانے اور پھر نذر آتش کیے جانے کے دلخراش واقعہ نے ایک بار پھر انسانیت کو شرمندہ کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی مشال خان اور آسیہ بی بی جیسے کئی معاملے سامنے آ چکے ہیں جن کی عالمی سطح پر پرزور مذمت کی گئی۔ مسئلہ صرف کسی ایک ملک یا قوم کا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود کو اشرف، پہلے کے مقابلے نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ آخر اس قدر انسانیت سوز حرکت پر آمادہ کیسے ہوجاتے ہیں؟ کیا یہ کسی عمل کے اچانک رد عمل کا نتیجہ ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی سازش کارفرما ہوتی ہے؟ دراصل فوری وجہ اچانک ردعمل ہی ہوتی ہے لیکن یہ انتہائی قدم کوئی بھی ذی ہوش اور باشعور آدمی یا لوگوں کا گروپ(ہجوم) اچانک انجام نہیں دے سکتا ۔ ’ماب جسٹس‘ یا پرتشدد ہجوم کے واقعات ایک دن میں نہیں ہوتے بلکہ ایسے واقعات کے لیے پہلے باقاعدہ برسوں تک ذہن سازی کی جاتی ہے۔ لوگوں کو ذہن میں یہ بات ڈال کر تیار کیا جاتا ہے کہ اگر مخصوص واقعات وقوع پذیر ہوں تو اس پر کس طرح سے ردعمل ظاہر کیا جائے۔ آج کل خاص طور پر سوشل میڈیا پر افواہوں اور جعلی خبروں کے ذریعہ یہ کام اور آسان ہو گیا ہے۔ اکثر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ جس وجہ سے ہجوم مشتعل ہو کر یہ مذموم حرکت کرتا ہے، بعد میں تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں، یہ محض افواہ تھی۔ اگر اس طرح کے واقعات میں مذہب کا تڑکا لگ جائے تو پھر جذبات قابو میں کہاں رہتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں کسی نہ کسی طرح مذہب کی آڑ میں ہی یہ گھنائونا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
بہرحال سیالکوٹ معاملے پر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے ردعمل میں اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن‘ قرار دیا۔ صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام طبقوں اور اعلیٰ عہدیداروں نے بھی ایک زبان ہو کر اس واقعہ کی سخت مذمت کی۔ وزیراعظم تحقیقات کی نگرانی خود کر رہے ہیں اور انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں گی۔ پولیس کی طرف سے مرکزی ملزم کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ اس واقعہ پر سماجی، سیاسی اور عسکری حلقوں کی طرف سے بھی سخت ردعمل سامنے آ یا ہے۔ عمران خان کے اقدام کی سری لنکا کے وفاقی وزیر برائے کھیل و امور نوجوان نامال راجپکسا نے بھی ستائش کی ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ماورائے عدالت اقدام قطعاً ناقابل قبول ہیں۔ آرمی چیف نے اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سول ایڈمنسٹریشن کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے بہت اندوہناک واقعہ قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف نے سیالکوٹ میں ہونے والے ’دل خراش واقعہ‘ کو ’دل چیر کر رکھ دینے والا‘بتایا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے سیالکوٹ میں پیش آنے والے سانحہ کو شرمناک، انتہائی قابل مذمت اور اسلام و شرف انسانیت کی توہین قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان کی بدنامی کا باعث بتایا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے یہ اعلان بھی کیا کہ سیالکوٹ کی کاروباری کمیونٹی نے مقتول کے اہل خانہ کے لیے ایک لاکھ ڈالر جمع کیے ہیں جبکہ جس کارخانہ میں وہ (مقتول) ملازم تھے وہ (کارخانہ دار) ہمیشہ کے لیے ان کی تنخواہ ان کے لواحقین کو دیتا رہے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آرمی پبلک اسکول میں طالبان شدت پسندوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی اور اب یہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے جس کے بعد پاکستانیوں نے متحد ہو کر فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوگا۔ اس سے قبل پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما 10 دسمبر کو سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کے خلاف یوم مذمت کے طور پر منانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ علما کے وفد نے سری لنکا کے ہائی کمیشن کا دورہ کر کے ہائی کمشنر وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) موہن وجے وکرما سے اس واقعہ پر اظہار تعزیت بھی کیا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر اشرفی نے پاکستان کے چیف جسٹس سے اس واقعہ کی ’اسپیڈی ٹرائل‘ کی گزارش کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے بھی کہا ہے کہ ’ایک معصوم انسان کو قتل کیا گیا ہے اور بغیر ثبوت کے توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک غیرشرعی حرکت کی گئی ہے۔ یہ واقعہ پیغام پاکستان کے قومی دستاویز سے بھی سراسر انحراف ہے۔‘
المیہ یہ ہے کہ جب مذہب کی بنیاد پر انجام دیے جانے والے ایسے واقعات میں کسی کو سزا ہوتی ہے تو معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسے ہیرو کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور پھر ادارے بھی اس دباؤ کو محسوس کرتے ہیں اور آخر میں ایسے سنگین واقعات میں ملوث ملزمان کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔ اگر نفرت پر مبنی بیانیہ کو بدلنا ہے تو پھر ایسے بیانیہ کو میڈیا، عدالتوں، عبادت گاہوں اور درس گاہوں کے ذریعہ بدلنا ہو گا۔ اس طرح کے واقعات کی بلا تفریق مذہب و ملت اور قوم و برادری عالمی سطح پر پر زور مذمت کی جانی چاہیے اور اس مسئلہ کے حل پرسنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر شدت پسند قوتوں کو اس طرح کی آزادانہ کارروائی کرنے کی اجازت دی جاتی رہی تو ایسا واقعہ کہیں بھی اور کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔
[email protected]