گناہ کے بعد توبہ میں جلدی

0

آصف تنویر تیمی
گناہ اور غلطی کا صدور انسانی خاصہ ہے۔ سوائے انبیاء ورسل کے کوئی غلطی سے پاک نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں پر بڑا کرم فرمایا کہ توبہ کا راستہ کھلا رکھا۔ اور یہ دروازہ قیامت کے قریب تک کھلا رہے گا۔ اس لئے اس نعمت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جیسے ہم سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوجائے تو فورا اللہ کے حضور توبہ کرنی چاہئے۔ گناہ پر اصرار اور مداومت نہیں پائی جانی چاہئے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سارے مسلمانان غلطی پر غلطی اور گناہ درگناہ کرتے جاتے ہیں مگر توبہ واستغفار نہیں کرتے حالانکہ بسااوقات انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ واقعی اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ انہیں بلا دیر کئے اپنے کئے پر اللہ سے معافی مانگنی چاہئے۔ معلوم نہیں کب ان کی سانس رک جائے اور حساب وکتاب کے لئے اللہ کے حضور پہنچ جائیں۔
توبہ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم سے گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تمہاری جگہ ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے گی اور اللہ سے معافی طلب کرے گی، اور اللہ انہیں معاف بھی فرمائے گا‘‘۔( مسلم، حدیث نمبر: ۲۷۴۹) قرآن کریم میں جگہ بہ جگہ مسلمانوں کو توبہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پاؤ‘‘۔(النور: ۳۱) دوسرے مقام پر فرمایا:’’ اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔(التحریم:۹)
توبہ کا حقیقی مفہوم کیا ہے اس تعلق سے مشہور اسلامی اسکالر علامہ ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گنہگار اپنے گناہ پر نادم ہو، گناہ سے کنارہ کشی اختیار کرلے، اور مستقبل میں دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے‘‘۔ (مدارج السالکین ۱؍۱۹۹)
ایک مسلمان کا قدم جیسے راہ راست سے پھسلتا ہے۔ معصیت اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے بلا تاخیر وہ اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اور ہر طرح سے اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔توبہ کی طرف سرعت ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی بلکہ وہی شخص اس نیک عمل کی طرف پیش قدمی کرتا ہے جس کا دل زندہ اور ایمان سے معمور ہوتا ہے۔ مردہ دل لوگوں سے توبہ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالی نے فرمایا:’’جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کربیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے‘‘۔ (آل عمران:۱۳۵)دوسری جگہ فرمایا:’’ اور جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا،مہربانی کرنے والا پائے گا‘‘۔( النساء: ۱۱۰)
اللہ کے نیک بندے کبھی کسی گناہ کو معمولی نہیں سمجھتے۔ بلکہ چھوٹا گناہ بھی ان کی گناہ میں بڑا ہوتا ہے۔ اور بلا پس وپیش کے توبہ کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عائشہ معمولی سمجھے جانے والے گناہوں سے بچنا، اللہ کے ہاں ان کا بھی مواخذہ ہوگا‘‘۔( سنن نسائی ،حدیث نمبر:۴۲۴۳)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ عام لوگوں کی نظر میں معمولی ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ بڑے ہوتے ہیں۔ مثلا گالی گلوچ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا۔
گناہ چھوٹا ہو یا بڑا ہمارے اسلاف ہر قسم کے گناہ سے بچتے تھے۔ کسی کو کمتر نہیں جانتے تھے۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :’’ تم لوگ کچھ ایسے اعمال کرتے ہوجو تمہارے گناہوں میں بالوں کی طرح معمولی ہوتے ہیں، مگر انہیں اعمال کو ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مہلک سمجھتے تھے‘‘۔ (بخاری،حدیث نمبر: ۶۴۹۲) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گناہ کی ہلاکت اور سنجیدگی کے بارے میں کہتے ہیں:’’ مومن اپنے گناہ کو ایسا سمجھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو معلوم نہیں کب وہ پہاڑ اس کے اوپر گرپڑے۔ اس کے برعکس فاجر شخص گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے جیسے کہ اس کی ناک پر بیٹھی ہو، اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بھگادیا‘‘۔( بخاری،حدیث نمبر: ۶۳۰۸) دونوں میں اتنا فرق اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ مومن کا سینہ اسلام وایمان سے منور ہوتا ہے جبکہ فاجر وفاسق کادل گناہ ومعصیت سے اٹا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے بچائے اور سچی توبہ کی توفیق بخشے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS