حسینہ مستعفی، بنگلہ دیش سے فرار

0

تاریخ خود کو دوہراتی نہیں ہے لیکن تاریخ سکھاتی ضرور ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے سری لنکا کے حالات سے نہیں سیکھا اور انہیں بھی عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ حسینہ نے بنگلہ دیش چھوڑنے میں تاخیر کر دی ہوتی تو نہ جانے کیا ہوگیا ہوتا۔ اصل میں طلبا کے احتجاج کو ان کی حکومت نے ہلکے میں لے لیا، خود ان کی طرف سے بھی مظاہرے اور مظاہرین کے بارے میں جو بیانات آئے، ان سے یہی لگتا تھا کہ وہ خود کو ناقابل شکست سمجھنے لگی ہیں، وہ مطمئن ہیں کہ مظاہروں سے انہیںکوئی متزلزل نہیں کر پائے گا، اقتدار کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھ میں رہے گی۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکیں کہ احتجاج کے لیے طلبا سڑکوں پر اترتے ہیں تو دیر بدیر ان کے اہل خانہ کو بھی سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ذی ہوش لیڈروں کی طرف سے طلبا کو سمجھانے، انہیں منانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں طاقت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
مظاہرہ کرنے والے طلبا اقلیتوں اور معذوروں کو ریزرویشن دینے کے خلاف نہیں تھے مگر اس بات کے خلاف تھے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے رشتہ داروں کے لیے ایک بڑا کوٹہ مختص رہے۔ حسینہ نے اس ایشو پر دلجمعی سے ان کی بات سننے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ ریزرویشن بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے بچوں کو نہیں توکیا ’رضاکاروں‘ کے بچوں کو ملے گا۔ بنگلہ دیشی ’رضاکار‘ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بنگلہ دیش کی آزادی کے خلاف تھے اور پاکستان کے ساتھ تھے، اس کے معاون و مددگار تھے یعنی بنگلہ دیش میں ’رضاکار ‘ کا مطلب ایک طرح سے ملک کا ’غدار‘ ہوتا ہے۔ حسینہ کی طرف سے اپنے لیے ’رضاکار‘ کا استعمال کرنے پر مظاہرین کا مشتعل ہونا فطری تھا اور وہ مشتعل ہوئے۔ اس پر حسینہ نے معافی تلافی کے بجائے طاقت کے زور پر انہیں دبانے کی کوشش کی، اس سے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ یہ سب اسی بنگلہ دیش میں ہو رہا تھا جہاں حسینہ پر اپوزیشن کو دبانے،میڈیا اور سرکاری اداروں کا استعمال اپنے حق میں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے تھے۔ ایسی صورت میں یہ اندیشہ تھا کہ اپوزیشن جماعتیں حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ سپریم کورٹ نے ریزرویشن پر فیصلہ سناکر اور مظاہرین کی من چاہی مراد پوری کرکے حسینہ کو یہ موقع دے دیا تھا کہ وہ حالات کو سنبھال لیں، غلطیوں کے ازالے کے لیے فوری اقدامات کریں، زیر حراست طلبا پر سے الزمات واپس لیں، انہیں رہا کرائیں لیکن یہ سب کرنے کے بجائے حسینہ نے اپنے تیور اور سخت کر لیے اور اشتعال انگیز بیان دینے سے گریز نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مظاہرین ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے اور آخر اس طرح کے حالات بن گئے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑا اور بنگلہ دیش چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ وقار الزماں نے عبوری حکومت قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں تو آتی ہے کہ بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ حالات سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے، وہ اقتدارپر قابض ہونا نہیں چاہتے لیکن فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ بنگلہ دیش میں پائیدار امن قائم ہو جائے گا، کیونکہ بنگلہ دیش میں شیح حسینہ اور ان کے اہل خانہ کے چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ وہ اگرسڑکوں پرنکل آئے تو پھر بنگلہ دیشی فوج کے لیے صورتحال سنگین ہو جائے گی، اس لیے بنگلہ دیش کی صورتحال کے بارے میں فی الوقت کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔
بنگلہ دیش کی یہ صورتحال وطن عزیز ہندوستان کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ شیخ حسینہ نے ہندوستان سے ہمیشہ دوستی نبھائی ہے اور ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندوستان سے مستحکم سے مستحکم تعلقات رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش – چین تعلقات کا اثرکبھی ہند – بنگلہ دیش تعلقات پر پڑنے نہیں دیا جبکہ بیگم خالدہ ضیا کے وزیراعظم رہتے ہوئے بنگلہ دیش ایک الگ سمت میں چل پڑا تھا۔ اسی لیے اچھا یہی ہے کہ بنگلہ دیش میں حالات جلد از جلد بہتر ہوں، جمہوری نظام وہاں برقرار رہے اور شیخ حسینہ کی وہاں کی سیاست میں وہ اہمیت برقرار رہے جو اب تک تھی۔ امید کی جاتی ہے کہ حکومت ہند کی نظراس بات پر ضرور ہوگی کہ چین حالات سے فائدہ نہ اٹھائے۔ بنگلہ دیش ہمارے ملک کے لیے بے حد اہم ملک ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS