کیا ٹرمپ حقیقتاً امن کے سفیر بن کر آئے ہیں؟: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

کیا ڈونالڈٹرمپ فلسطین کا مسئلہ حل کرا سکتے ہیں؟ کیا وہ حماس اور اسرائیل کو صدق دلی سے امن کی راہ اختیار کرنے اور مستقبل میں بھائی بھائی کی طرح رہنے کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں؟ کیا وہ یوکرین-روس جنگ کو رکوا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے حلیفوںکو ضرورت سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ کرنے سے روک سکتے ہیں یا امریکہ اور روس کے مابین cold war کوhot war میں بدلنے جیسی صورت حال میں مثبت رول ادا کرکے اس پر قدغن لگا سکتے ہیں؟ کیا وہ حقیقتاً امن کے سفیر بن کر آئے ہیں؟اگر ان سے یہ سوالات پوچھے جائیں تو یقینا ان کا جواب اپنے پیش رو صدور کی طرح ہاں میں ہوگا۔اب سوال نیک نیتی کا ہے۔

صدر جارج بش نے جب عہدہ سنبھالا تھا تو انہوں نے بڑے اچھے الفاظ میں یہ بات کہی تھی کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور کچھ عرصے بعد یہ بات بھی کہی تھی کہ دہشت گردی کو کسی مذہب کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے، ان کے ان بیانات کے بعد بہت سے دانشوروں، صحافیوں اور مصنفوں نے یہ بات کہی یا لکھی تھی کہ وہ صدر بش کے اس قول کو سچ مانتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ کوئی معروضی لائحۂ عمل تیار کر کے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے اور مشرق وسطیٰ میں پائیدا رامن قائم کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ اس کے بعد صدر اوباما نے بھی ایسے ہی وعدے کیے اور ’آئے بہار بن کے لبھا کر چلے گئے اور ان کا بھی ہر وعدہ وعدۂ فردا ہی ثابت ہوا اور اس خطہ میں صورت حال جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔
جب صدر بش کی مدت عہدہ ختم ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا تو ہم نے اپنے ایک مضمون میںانہیں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وقت سبک رفتاری سے گزرتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی وقت کی ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اگر آپ حقیقتاً دہشت پسندی کا ازالہ،ناانصافی کا خاتمہ یا بین المذاہب نفاق کا خاتمہ چاہتے ہیں تو جاتے جاتے مسئلہ فلسطین حل کرا جائیے،عراق اور افغانستان میں امن و سلامتی کی راہ ہموار کر جائیے اور میڈیا و دیگر ذرائع ابلاغ کو یہ باور کرا جائیے کہ آپ نہ صرف امن و آشتی کے علمبردار ہیں، بلکہ آپ کسی ایسی سرگرمی کو پسند نہیں کرتے جس سے مختلف فرقوں اور ممالک کے درمیان کوئی خلیج پیدا ہو۔آپ کی مثبت و معروضی کارروائی سے آپ کے مداحوں کا سر اونچا ہو جائے گا اور ناقدین خاموشی اختیار کرلیں گے۔ ہم نے انہیں اس حقیقت سے، جس سے وہ پہلے سے ہی روشناس تھے،روشناس کرایا کہ تمام مسلم ممالک کے لوگوں نے آپ کے ملک میں رہ کربے خوف و خطر بہترین تعلیم حاصل کی، اپنے دینی فرائض انجا م دیے اورآپ کے شانہ بشانہ چلے،تو آپ جاتے جاتے کوئی ایسا کام کر جائیے جس سے نہ صرف مسلمانان عالم بلکہ دنیا کے تمام ممالک کے لوگ بشمول امریکہ یہ کہہ سکیں واہ بش!اگر آپ کے دماغ میں یہ بات ہے کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک، قوم یا مذہب کے خلاف ہیں تو آپ یہ بات اپنے ذہن سے نکال دیجیے۔ مسلمان تو ظلم، غربت اور ناانصافی سے لڑ رہے ہیں۔یہاں اسلامی یا مسیحی تفاخر جیسی کوئی بات نہیں ہے۔اس کے بعد بائیڈن صاحب، جنہیں ایک تجربہ کار، سنجیدہ سفارت کار اور ایڈمنسٹریٹر سمجھا جاتا ہے ، دست و گریباں فریقین کو میز امن پر لانے کے بجائے ربروئے پردہ امن کی بات کی اور پس پردہ اپنے حلیفوں کودفاع کے نام پر مسلسل ہتھیار دیتے رہے اور ان علاقوں کے لوگوں کو آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا، جس کا نتیجہ خود بھی بھگتا۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم،ویتنام اور مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہوا،اس سے کسی نے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

بڑے اور طاقتور ممالک نے چھوٹے ا ورکمزور ممالک کو مغلوب کرنا اپنی خارجہ پالیسی کا کلیدی نکتہ بنا لیا ہے اور جو ملک ان کے کہنے پر نہیں چلتا یا سفارتی امور میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا، اسے ہر طرح سے پریشان کرنا انہوں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ ان بڑی طاقتوں نے عالمی فورموں میں بہ بانگ دہل ہمیشہ عالمی امن، انسانی حقوق کے تحفظ،عالمی اخوت اور مساوات کی بات کی لیکن ’الف‘ اور ’ب ‘ یعنی حلیف اور حریف کے معاملے میں دوہرے پیمانے اپنائے۔ ایک ملک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا اور اقتصادی پابندیاں لگائیں تو دوسرے ملک کو بے لگام آزادی دی۔اپنے حلیف کی بڑی سے بڑی قابل مذمت حرکت پر خاموش رہے، مشرق وسطیٰ کے واحد سیکولر رہنما صدام حسین کو یہ بے بنیاد الزام لگا کر کہ عراق کے پاس جوہری ہتھیاروں کا خزانہ ہے، تختۂ دار پر چڑھوا دیا تو دوسری جانب اپنے مفادات کی خاطر یا بغض معاویہ کی شکل میں ان ممالک کی یا تو مذمت نہیں کی اور اگر کی بھی تو صرف علامتی نوعیت کی، جنہوں نے فلسطین، یوکرین، میانماراور دنیا کے دیگر کئی ممالک میںجمہوری اقدار کو بالائے طاق رکھ کے مجبور اور کمزور انسانوں پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے۔ یہی وہ ممالک ہیں جنہوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے منشور اور انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کی حمایت و وکالت کی لیکن پس پردہ ایک ملک کو دوسرے ملک سے کبھی خفیہ طور پر اور کبھی کھلم کھلا لڑانے کی کوشش کی۔در اصل یہ لڑائی صرف انا کی لڑائی ہے۔ ایک ملک کو دوسرے ملک کو زیر کرنے کی لڑائی ہے۔ لڑنے وا لوں اور لڑانے والوں کی نیت صاف نہیں،ہر ایک کا اپنا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے۔

اقوام متحدہ کا قیام آنے والی نسلوں کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ تیسری جنگ سے بچا جاسکے، طاقتور ممالک چھوٹے وکمزور ممالک کو مغلوب کرنے کی کوشش نہ کریں،تمام اقوام کو خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی برابر کا درجہ حاصل ہو،انسانی عظمت کا تحفظ ہواور تمام بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کیا جائے، تمام ممالک کو اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کا موقع ملے اور کوئی ملک بلا ضرورت طاقت کا استعمال نہ کر ے۔مغربی طاقتوں اور دیگر ممالک و NATOسے وابستہ ممالک کو چاہیے تھا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صرف بات کرنے کے بجا ئے متعلقہ فریقین کو ایک میز پر لا کر مسائل کا حل نکالتے مگر انہوں نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔رہی بات عالمی جنگ کی تو یہ بعید از قیاس ہے اور اس قسم کا فیصلہ کوئی خبط الحواس حکمراںہی کرسکتا ہے۔

کوئی بھی ملک،کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو اور وہاں کے لوگ کتنے ہی بہادر اور جانباز کیوں نہ ہوں، دوسروں کی امداد کے سہارے اپنے سے زیادہ طاقتور اور جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک سے کب تک لوہا لے سکتا ہے۔ اب دیکھئے ٹرمپ صاحب کیا کرتے ہیں؟ وہ جذباتی ضرور ہیں لیکن مجنوں بھی پیر رکھتا تھا خار مغیلاں دیکھ کر۔یوکرین، اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے حکمراں اس بات کو سمجھیں اور جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں گے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS