عبدالماجد نظامی
پارلیمنٹ میں یوم دستور منانے کی مناسبت سے بحثوں کا جو سلسلہ جاری تھا، اس مناسبت سے تقریر کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ کہہ دیا کہ ملک میں امبیڈکر کا نام لینا ایک فیشن بن گیا ہے۔ امت شاہ نے جس انداز میں امبیڈکر، امبیڈکر کہا تھا، اس لہجہ سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ ان میں ایک قسم کی جھنجھلاہٹ پائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اس بیان کو بنیاد بناکر ملک گیر سطح پر احتجاج اور مظاہرے کیے اور اس بات کا مطالبہ کیا کہ امت شاہ یا تو معافی مانگیں یا انہیں فوری طور پر ان کے منصب سے برطرف کیا جائے۔ اپوزیشن کی جانب سے کیے گئے ان احتجاجوں کا اتنا اثر تو ضرور ہوا کہ خود امت شاہ کو کانفرنس منعقد کرکے یہ صفائی دینی پڑی کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وقت جو صورت حال بنی ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تقریباً اب ٹھنڈا پڑ رہا ہے اور مرور ایام کے ساتھ معافی یا برطرفی کا مطالبہ بھی سرد پڑ جائے گا اور پھر دھیرے دھیرے ختم ہوجائے گا۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا امت شاہ کے اندر اس بات کو لے کر صحیح معنی میں جھنجھلاہٹ اس لیے پائی جا رہی ہے کیونکہ امبیڈکر کا نام لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی کی دکھتی رگ کو دبایا جاتا ہے؟ آخر کار سنگھ پریوار کا موقف دستور کے تئیں اچھا نہیں رہا ہے۔ ان کے نظریہ سازوں کا دستورِ ہند کے بارے میں یہ بیان بھی موجود ہے کہ بھارت کے دستور میں کچھ بھی بھارتی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سنگھ کے لٹریچر میں دستور کے بدلنے کی باتیں خوب ہوتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں جب اپوزیشن پارٹیوں نے دستورِ ہند کی تبدیلی کے خدشات کو ایک اہم ایشو بناکر عوام کے سامنے پیش کیا تو لوگوں کو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آگئی کہ دستور کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس کا منفی اثر بھارتیہ جنتا پارٹی پر یہ پڑا کہ اپنی پوری قوت جھونک دینے کے باوجود اسے اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ دستور کی تبدیلی کے خطرات کا ایشو کوئی بیجا اور معمولی معاملہ نہیں ہے۔ دستورِ ہند میں ملک کے کمزور طبقوں اور اقلیتوں کے جن حقوق کو تحفظ عطا کیا گیا ہے، ان کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ ان سے ہی ملک میں جمہوری قدروں کی پاسبانی کا انتظام ہوتا ہے۔ لسانی و مذہبی تعدد والے اس ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھنے کے لیے دستور ساز ادارہ نے جن حساس پہلوؤں کو ملحوظ رکھ کر موجودہ آئین کو تشکیل دیا تھا، وہ آج پہلے کے مقابلہ کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں ملک کے جمہوری اداروں کے ساتھ جس ڈھنگ سے برتاؤ کیا گیا ہے، اس سے عام شہریوں میں یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ ملک کے آئین کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی روح کو پامال کرنے کی کوشش ارباب اقتدار مسلسل کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر چونکہ دستور سازی کے پورے عمل میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت ہیں اور دستور کے تحفظ کے معاملہ میں ان کا نام ایک رمز اور علامت بن چکا ہے، لہٰذا یہ بالکل معقول بات ہے کہ جب بھی کبھی شہری حقوق کے حوالہ سے بات ہوگی یا ملک کی جہت میں تبدیلی کا کوئی اشارہ ارباب اقتدار کے عمل سے ملے گا تو اس کو دستور میں موجود پیمانہ پر رکھ کر دیکھا جائے گا کہ ملک کو اسی سمت میں لے جایا جا رہا ہے جس کے رہنما اصول آئین میں طے کیے گئے ہیں یا ان سے ہٹا کر کسی ایسی نئی راہ پر ڈالنے کی سعی ہو رہی ہے جس میں ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا یا اس کی تکثیری حقیقت کو نظرانداز کرکے ایک خاص نظریہ کے تحت اس کو ڈھالا جائے گا جس میں تعدد اور تکثیریت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے موجودہ برسراقتدار پارٹی کے رویہ سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ دستور کو بدلنے کی لگاتار کوشش ہو رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی بار بار یہ صفائی پیش کی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ محض پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور اصل میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا بھارتیہ جنتا پارٹی اس حقیقت سے انکار کر پائے گی کہ ملک کے جتنے بھی دستوری ادارے ہیں خواہ وہ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ یا پولیس اور تحقیق و تفتیش کے ادارے، ان سب پر جانبدار ہونے کا سنگین الزام عائد ہوچکا ہے اور وجہ یہ ہے کہ ان اداروں سے ایسے اعمال سرزد ہو رہے ہیں جن کو دیکھ کر ملک کا عام شہری بھی یہ سمجھ پانے میں کامیاب ہو رہا ہے کہ یہ ادارے اپنی دستوری ذمہ داریوں کو مطلوبہ ڈھنگ سے ادا نہیں کر رہے ہیں۔
اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ دستور کی تبدیلی کی باتیں محض اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہیں اور کچھ نہیں تو سوال یہ ہے کہ دستوری ادارے آزاد کیوں نہیں ہیں؟ یا بھارتیہ جنتا پارٹی نے عملی طور پر کچھ ایسا کیوں نہیں کیا جس سے عام شہریوں میں یہ پیغام واضح الفاظ میں جائے کہ دستور کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک کامیاب جمہوریت کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اس میں آئینی ادارے پوری آزادی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کریں۔ اگر بی جے پی یہ دعویٰ بھی کرے کہ تمام ادارے آئین کے مطابق چل رہے ہیں تب بھی عوام کی نظر میں یہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ ایک دہائی میں اس پارٹی کی تشدد پسند قومیت نے اس کی جو امیج تیار کی ہے، وہ اس کے دعویٰ کے بالکل برعکس ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ امبیڈکر کا نام لینے والوں کے خلاف اپنی جھنجھلاہٹ ظاہر کرنے کے بجائے واضح ثبوت پیش کیے جائیں کہ ملک کا دستور محفوظ ہے اور اس کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، ورنہ بھارتیہ جنتا پارٹی پر یہ الزام لگتا رہے گا کہ یہ تبدیلیٔ دستور کے درپے ہے اور صرف پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اس بار دستور کو بدلا نہیں جا سکا، ورنہ بدل دیا جاتا جیسا کہ پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا تھا۔ امبیڈکر اس ملک کے کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کی ایک عظیم علامت ہیں اور ان کا نام ہر بار لیا جائے گا اور یہ یاد دلایا جاتا رہے گا کہ دستور کے ساتھ کسی قسم کا کھلواڑ قابل قبول نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہوگا کہ جھلاہٹ کے اظہار کے بجائے تحفظ دستور کے عملی ثبوت پیش کیے جائیں۔
ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہماری قابلِ احترام شخصیتوں پر تبصرہ کرتے وقت ہمارے سیاسی لیڈران اپنے زبان و بیان پر دھیان دیں کہ کہیں وہ بے شمار ہندوستانیوں کے جذبات کو ٹھیس تو نہیں پہنچا رہے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس ملک میں امبیڈکر کا نام فیشن کے لیے نہیں بلکہ شہری حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]