پنکج چترویدی
جس ریاست کی 81 فیصد زمین کھیتی کے لائق ہو، جہاں کی دو تہائی آبادی کھیتی پر منحصر ہو، جہاں 65 فیصد لوگ گاؤں میں رہتے ہوں، وہاں کی زرعی شرح نمو سال بہ سال کم ہوتی جائے تو یہ نہ صرف بڑے بحران بلکہ سماجی تنزلی کی طرف بھی اشارہ ہے۔ حال ہی میں ختم ہوئی زرعی قوانین مخالف تحریک کا اثر ہریانہ کے گاوؤں میں شدت سے محسوس کیا گیا، اس کی سیاسی وجوہات بھلے ہی دیگر کئی ہوں لیکن زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں زرعی آمدنی کے معاملے میں تیسرے مقام پر رہنے کے باوجود یہاں کسان سال بھر میں اوسطاً ایک چپراسی کی تنخواہ سے بھی کم منافع نکال پاتا ہے۔ ایک تو مختلف ترقیاتی کاموں میں زمین کی تحویل اور پھر بڑھتی فیملی کے ساتھ زراعتی زمین کا رقبہ بہت کم ہونا، کھیتی میں لاگت بڑھنے، قرض کے چسکے میں پھنسا کسان اور غیرروایتی فصلوں کے ذریعے جلدی پیسہ کمانے کی چاہت نے ہریانہ میں کھیتی کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ کھیتی کسانی کے تئیں اب اگر سنجیدہ نہیں ہوئے تو نہ صرف زمین ہاتھ سے نکل جائے گی بلکہ پانی بھی پرایا ہوگا اور کھیت میں کام کرنے والا کسان بھی۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کی تازہ سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ہریانہ کے کسان کی ماہانہ آمدنی اوسطاً 22,841 روپے ہے۔ یہ اس وقت ہے جب اس آمدنی میں فیملی کے ذریعے کھیتی کے لیے کی گئی مزدوری کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کمائی ایک سب سے نچلے پائیدان کے سرکاری ملازمین کی کمائی سے بھی بہت کم ہے۔ ہریانہ میں کوئی 24.8 لاکھ کسان ہیں اور 15.28 لاکھ زرعی مزدور۔ 49.32فیصد کسانوں کے پاس زراعتی زمین ایک ہیکٹیئر سے بھی کم ہے جبکہ ایک سے دو ہیکٹیئر زمین رکھنے والے کسان 19.29 فیصد ہیں۔ 17.79 فیصد کسانوں کے پاس چار سے دس ہیکٹیئر زمین کا مالکانہ حق ہے اور محض 2.52 فیصد کسان ہی 10 ہیکٹیئر سے زیادہ زمین کے مالک ہیں۔ شاید تبھی ریاست میں کھیتی چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں 1983 میں ریاست میں 71 فیصد کسان تھے، آج یہ کم ہوکر 35 فیصد رہ گئے ہیں۔ اس مدت میں خاتون کسانوں کی تعداد 90 فیصد سے کم ہوکر 61 فیصد رہ گئی۔ یہ دلچسپ ہے کہ ہریانہ ریاست کے قیام کے وقت یکم نومبر 1966 کو 35.2 لاکھ ہیکٹیئر میں گیہوں، دھان اور 45.99 لاکھ ہیکٹیئر میں گنا، کپاس کی پیداوار ہوتی تھیں۔ 2019-20 میں اناج کا رقبہ بڑھ کر 47.03 لاکھ ہیکٹیئر ہوگیا لیکن زرعی شرح نمو کم ہوتی جا رہی ہے۔2017-18 میں ہریانہ کی زرعی شرح نمو 6.1 فیصد تھی، اگلے سال 2018-19 میں یہ 5.3 فیصد ہوگئی۔ 2019-20 میں یہ 4.5 فیصدپر آگئی اور 2020-21میں 4.3 فیصدرہ گئی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسان کو اس کی لاگت اور محنت کا معقول معاوضہ نہیں مل پا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کا کسان ہر دن قرض کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ریاست کے 45 لاکھ 95,805 ’دھرتی پتروں‘ پر اس وقت 79,31 ہزار کروڑ کا قرض ہے۔ یکبارگی لگتا ہے کہ قرض داروں کی تعداد کسانوں سے زیادہ کیوں ہے؟ اصل میں کئی کسانوں پر دو تین قسم کے قرض باقی ہیں-بیج، کھاد، باغبانی، مویشی یا مچھلی پروری یا سینچائی کے لیے، اس جھنجھٹ میں پھنسے تقریباً ڈھائی لاکھ کسان ہر سال بینک میں ڈیفالٹر ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آڑھتی یا مقامی سودخور کا قرض الگ ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ 2015 میں محض 8.75 لاکھ کسانوں پر نیشنلائزڈ، لینڈ ڈیولپمنٹ اور کوآپریٹیو بینک کا 56,336 کروڑ کا قرض تھا۔ کسانی کا صفایا کرتی قرض کی خوفناک تصویر یہ ہے کہ ہریانہ کے 75 فیصد کسانوں کی زمینیں کوآپریٹیو سوسائٹی کے پاس گروی رکھی ہیں۔ کسان قرض کے اصل ادا نہیں کر پاتا اور ہر سال اس پر 14 فیصد سالانہ سود بڑھ رہا ہے اور ساتھ میں قرض کا بوجھ بھی۔ یہ اس وقت ہے جب مختلف سرکاری پالیسیوں کے تحت کوئی 42 لاکھ فائدہ اٹھانے والوں کو 11 ہزار کروڑ کا فائدہ- کسان سمّان ندھی، قدرتی آفات میں خراب فصل کے معاوضے وغیرہ کی شکل میں کسانوں کو دیا جاتا ہے۔ حکومت سود معافی اسکیم کا بھی اعلان کر چکی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب کسان اصل رقم جمع کرا سکے۔ ریاست کے فتح آباد جیسے سب سے چھوٹے ضلع میں 95 فیصد کسان کوآپریٹیو سوسائٹی اور بینک دونوں کے قرضوں میں دبے ہیں۔ کوئی 97 ہزار قرض دار کسانوں میں سے 70 فیصد کو ڈیفالٹر قرار دیا گیا ہے اور ان کی زمین ضبط ہونے کی حالت میں ہے۔
ہریانہ میں کسانوں کا بحران کھاد-بیج سے لے کر سینچائی اور منڈی تک لامحدود ہے، بیج گھٹیا ملتے ہیں تو کہیں یوریا کے لیے لمبی قطاریں، اس پر بھی مہنگائی کی مار۔ کسانوں کے ٹریکٹر پر دس سال میں کباڑا ہو جانے کے این جی ٹی کے احکام کی مار نے بھی اثر ڈالا ہے۔ پھر ڈیژل کی بے تحاشہ قیمتوںنے لاگت بڑھا دی۔ ریاست کے 14 اضلاع کے 141 ڈیولپمنٹ بلاکس میں سے 85 زمین کے پانی کے معاملے میں ریڈ زون میں ہیں جبکہ 64 ڈیولپمنٹ بلاکس کو ڈارک زون میں درج کیا گیا ہے۔ تیزی سے کم ہو رہے زیر زمین پانی کی سطح اور دھان کی کھیتی کی بڑھتی چاہت نے پانی میں اضافے کی مد میں خرچ بڑھا دیا ہے۔ گہرا کنواں ہو تو پانی نکالنے میں زیادہ بجلی یا ڈیژل لگتا ہے۔ زیادہ سینچائی اور جنگل اور اراولی پر ہو رہے مسلسل حملوں کی وجہ سے ریاست میں ہر سال بنجر اور ریتیلی زمین کا دائرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ ہریانہ کی کھیتی کو بحران سے ابھارنے کے لیے یہاں دھان جیسی پیداوار کی بہ نسبت کم لاگت اور سینچائی والے موٹے اناج کو بڑھاوا دینا، قرض اور سود کے صحیح تجزیے، منڈی میں واجب دام اور فوراً ادائیگی، کسانوں کو سرکاری گودام کا معمولی لاگت میں استعمال، چھوٹے کسانوں کی پیداوار گاؤں میں ہی خریدنے کی اسکیم آج وقت کی مانگ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جس زمین پر فصل ہوتی ہو، اسے ترقی کے نام پر تحویل میں لینے پر سختی سے روک لگے۔
[email protected]