ہرش وردھن شرنگلا: عالمی سطح پر نئے ہندوستان کی دستک

0

ہرش وردھن شرنگلا

اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں دنیا میں جو کچھ بڑی ہلچلیں ہوئی ہیں، جو نئے واقعات سامنے آئے ہیں، ان سے بین الاقوامی تعلقات اور حیثیت کا ایک نیا ورلڈ آرڈر طے ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستان کا بین الاقوامی کردار اور ابھرنا تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آج جب ہم بات کررہے ہیں تودنیا کے کئی حصوں میںکووڈ-19 وبا کا خطرہ نئے سرے سے ابھر رہا ہے۔ یہ صورت حال یوکرین کے تنازع سے مزید سنگین ہو گئی ہے۔ دریں اثنا، عالمی کساد بازاری، بلند افراط زر اور توانائی و خوراک کے بحران کا خطرہ نئی وسعت اختیار کر رہا ہے۔ عالمی حالات نے پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جی) کے اقدامات اور کلائمٹ ایکشن کو خاصا سست کردیا ہے۔ مزید برآں، دنیا آج پہلے سے کہیں زیادہ پولرائزڈ ہے۔ لہٰذا، اس بات کی یقین دہانی اور تجزیہ نہایت اہم ہے کہ ہندوستان کو اب ایک مسئلہ حل کرنے والے اور ایجنڈا طے کرنے والے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا کے سامنے ہندوستان کی یہ شبیہ نئی اور تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہے۔اگر ہم قوموں کی گٹ بازی اور نئی مشترکہ حمایت کی بات کریں تو اس تناظر میںG-20کا پلیٹ فارم بہت بڑا ہے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان نے بین الاقوامی نظام میں ایک بہت ہی چیلنجنگ اور جدوجہد کے وقت میںG-20کی صدارت سنبھالی ہے۔ ہندوستان کو G-20کی صدارت اتفاقاً ایک ایسے وقت میں ملی ہے جب وہ دسمبر2022کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل(یو این ایس سی) اور شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او)کے صدر کی ذمہ داری بھی نبھا رہا ہے۔ ان تین بڑے سفارتی واقعات(ڈپلومیٹک ایونٹس) نے ہندوستان کے عالمی قائدانہ کردار کو اجاگر کیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں گزشتہ چند سالوں میں ہندوستان کی عالمی پوزیشن نے اسے اہم بین الاقوامی شراکت داروں، علاقائی مذاکرات کار اور ترقی پذیر دنیا کے ساتھ ایک کارگروابستگی کو محفوظ بنانے کا ماحول فراہم کیا ہے۔ہندوستانG-7میں ایک باقاعدہ مدعو رکن رہا ہے، جس میں خاص ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ ہم برکس(برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ) کے بھی رکن ہیں، جس میں اہم ابھرتی ہوئی معیشتیں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان ریاستہائے متحدہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ کواڈ کا بھی حصہ ہے۔ یہ ایس سی او سے بھی وابستہ ہے جس میں روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے علاقائی شراکت داروں کو مؤثر طریقے سے ایک ساتھ جوڑنے کا کام کیا ہے، جیسا کہ حال ہی میں یوروپی یونین، افریقی یونین، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہوئی سربراہی سطح کی میٹنگوں میں واضح ہوا ہے۔
بات کریں G-20کی تو شمال-جنوب سے مشرق-مغرب تک توسیع پسندانہ تقسیم اور مضبوط جغرافیائی سیاسی پولرائزیشن کے پیش نظرہندوستان کی سربراہی میں زبردست چیلنجز کے ساتھ ہی غیر معمولی توقعات بھی شامل ہیں۔ تاہم، ان زبردست چیلنجوں کے باوجود، جو اس لمحہ کو منفرد بناتا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا ان تقسیموں کو پاٹنے کے لیے ہندوستان کی صلاحیت اور مہارت کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ پرامید ہے۔ اسے وزیراعظم نریندر مودی نے ’صحت، امید اور ہم آہنگی کی صدارت‘کہا ہے۔
G-20کے پلیٹ فارم اور اس کی ہندوستان کو ملی صدارت پر دنیا کی نظریں ٹکی ہیں۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ادے پور میں ہندوستان کی زیرصدارت پہلی شیرپا میٹنگ میں ہندوستان کے کردار کا اندازہ واضح طور پر دیکھنے کو ملا۔ اس دوران رکن ممالک کے شیرپاؤں نے نہ صرف ہندوستان کی بھرپور ثقافت بلکہ ملک کی ڈیجیٹل اور تکنیکی صلاحیتوں کا بھی تجربہ کیا۔ یہ تجربہ آگے بہت سی نئی امیدوں کے در وا کررہا ہے۔ آنے والے مہینوں میں ان امیدوں کی زمین پر کیا کچھ ہوتا ہے، اس کا دنیا کی حالت پر بڑا فرق پڑے گا۔ فطری طور پر یہ فورم بین الاقوامی برادری کی جیو پولیٹیکل اور وسیع معاشی سطحوں پر موجود غیریقینی صورتحال کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ اور قابل اعتماد طریقوں کو تلاش کرے گا۔G-20خاص طور سے ایک ایسا فورم ہے جو دنیا کی بڑی ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کی ترجیحات کوسامنے رکھنے میں معاون ہے۔
غور طلب ہے کہG-7اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دونوں ہی اس عالمی نظام کی یاد دلاتے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد نظر آیا تھا۔ دوسری جانب،G-20دیگر بڑی معیشتوں کے ساتھ G-7کو برابر کے شراکت داروں کے طور پر ایک پلیٹ فارم پر لے آیا ہے۔ یہ دیگر بڑے ممالک کے ساتھP-5کو بھی ساتھ لایا ہے۔ اس کے علاوہ G-20 کے عمل میں مدعوئین کے طور پر افریقی یونین، NEPADاورASEANجیسی بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کی باقاعدہ شرکت اسے جامع اور نمائندہ دونوں بناتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ ماضی میں اس گروپ نے عالمی اہمیت کے معاملات پر بہتر نتائج دیے ہیں۔ کووڈ-19سے پیدا ہوئے بحران کے بعد ترقی پذیر ممالک کے لیے قرض منجمد کرنے کے اقدامات اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے یکساں ٹیکس نظام سے اتفاق کرنے کے بارے میں اس کے حالیہ فیصلوں کو پذیرائی ملی ہے۔ تاہم، اس کی وسیع کامیابیوں کے درمیان کچھ اختلافات کے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں اور روس-یوکرین جنگ کے دوران ہم نے یہ دیکھا ہے۔
یہاں جو بات الگ سے سمجھنے اور نشاندہی کرنے کی ہے وہ یہ کہ دنیا جس تناؤ اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، اس کے لیے دوراندیش قیادت اور مدبرانہ صلاحیتوں جیسی خصوصیات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے نیو انڈیا نے ہمارے ملک کو کووڈ-19کی وبا سے نکالا ہے اور ہندوستان کو عالمی منظر نامے پر ایک روشن مقام میں بدل دیا ہے۔ یہ ایک لچکدار ہندوستان ہے، جس نے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بننے کے لیے واپسی کی ہے۔ یہ ایک ایسا ہندوستان بھی ہے جس نے سب سے مشکل ترین وقت میں عالمی بھلائی کے لیے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو بانٹنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے۔ پی ایم مودی کے وژن کے تحت، ہندوستان کی خارجہ پالیسی واسودھیو کٹمبکم کے ہمارے قدیم فلسفے،’دنیا ایک مشترکہ مستقبل والا ایک خاندان ہے‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے عالمی بھلائی کے لیے کام کرنے متحرک ہے۔وبا سے نمٹنے کے لیے مارچ2020میں سعودی عرب کی طرف سے بلائے گئے G-20سربراہی اجلاس میں پی ایم مودی نے ’عوام پر مرکوز عالمگیریت‘ کی اپیل کی تھی۔ اس وسیع وژن کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہندوستان کی کوشش عالمی سطح پر تعاون دینے کے لیے اپنی گھریلو طاقت اور حصولیابیوںکا فائدہ اٹھانے کی رہی ہے۔
فطری طور پرنئے چیلنجوں اور امیدوں کے درمیان پولرائزیشن اور تکنیکی توازن سے منقسم دنیا میں، ہندوستان یہ یقینی بنانے کی کوشش کرے گا کہ آنے والے سالوں میں دنیا میں خوشحال اور جامع معاشرہ کے ساتھ ایک منصفانہ نظام ہو۔ ہندوستان آج ترقی پذیر ملک ہے۔ یہ سب سے تیزی سے بڑھنے والی بڑی معیشت ہے، جس کے پاس مضبوط میکرو اکنامک فنڈامینٹلس، مضبوط عوامی مالیات اور مضبوط مینوفیکچرنگ اور برآمدات میں اضافہ ہے۔ یہ ایک اعلیٰ ایف ڈی آئی کی منزل ہے۔
یہ جدت کے ذرائع کے طور پر ڈیجیٹل اسپیس میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے والا سب سے بڑا اسمارٹ فون ڈیٹا کنزیومر اور عالمی فنٹیک کو اپنانے والا ملک ہے۔ ہندوستان کیG-20صدارت فطری طور پر جامع، عالمی صحت کا ڈھانچہ بنانے کی کوششوں کو آگے بڑھائے گی،تاکہ کورونا وبا جیسے مستقبل کے صحت کے بحرانوں سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے۔
(مضمون نگار سابق خارجہ سکریٹری اورG-20 کے چیف کوآرڈی نیٹر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS