ایم اے کنول جعفری
یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں ریوڑی کلچر کے اثر میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید اسی لیے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ایک مرتبہ پھر سے سخت تبصرہ کرنا پڑا۔ یہ حیرت زدہ کرنے والا تبصرہ اس وقت کیا گیا، جب عدالت عظمیٰ میں بے گھر لوگوں کو پناہ دینے کے معاملے کی سماعت ہو رہی تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب معاملہ ریوڑیوں(Free bies) کی تقسیم سے متعلق تھا ہی نہیں، پناہ کی بابت تھاتو پھر مفت خوری کی بات کہاں سے آگئی؟ لیکن جب قابل احترام ججوں کی جانب سے یہ تبصرہ کیا گیا، تو ظاہر ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ مطلب ضرور ہے۔تبصرے کو اسی تناظر میںدیکھیںتو یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ ووٹوں کی سیاست کی وجہ سے، اس عمل کو ختم کرنے کے امکان نہیں ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بہار کے سابق وزیراعلیٰ اور راشٹریہ جنتا دل سپریمو لالو پرساد یادو کاوہ بیان ہے، جس میں انہوں نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں بہار میں آر جے ڈی حکومت کی تشکیل ہونے پر صارفین کو مفت بجلی فراہم کرانے کی بات کہی ہے۔ بہار میںاس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کے ذریعہ 5 فروری کو دہلی میں ہوئے اسمبلی انتخابات سے قبل رائے دہندگان کو رجھانے کے لیے مفت چیزیں اور نقدروپے دینے کے پے در پے کئی اعلانات کیے گئے تھے۔
12 فروری کوسپریم کورٹ نے شہری علاقے میں بے گھر لوگوں کی پناہ کے حق سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران ریوڑیاں تقسیم کرنے کی روایت کو غیرمنصفانہ ٹھہراتے ہوئے اس پر سخت تبصرہ کیا ۔عزت مآب جج جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بینچ نے یہ تسلیم کیاکہ سرکارسے مفت راشن اورنقد رقم ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔کہا کہ قومی ترقی کے لیے لوگوں کو ’ مین اسٹریم‘ میں شامل کرنے کے بجائے کیا ہم دوسروں پر منحصررہنے والے (Parasite) لوگوں کا ایک طبقہ تشکیل نہیں دے رہے ہیں؟ بینچ کے مطابق دہلی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پناہ گاہوں کی حالت بے حد خراب اور خستہ ہے۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو سہولیات مہیاکرائی جائیں گی۔ ’لاڈلی بہن‘ اور دیگر اسکیموں کا اعلان انتخابات سے عین قبل کیا جاتا ہے۔ بینچ نے پوچھا، ’مفت ریوڑیاں کیوں دی جانی چاہئیں؟ کیا لوگوں کو قوم کی ترقی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے؟ جب کہ، ایک درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا، جو کام کرنا نہیںچاہے۔
اگر لوگوں کے پاس نوکری ہوگی تو وہ یقینی طور پر ’مین اسٹریم‘ میں معاشرے کا ایک حصہ ہوں گے۔لیکن، مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس پناہ گاہ ہی نہیں ہے۔ 4 دسمبر 2024 تک ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں2,557پناہ گاہوں کو منظوری دی گئی تھی۔ان میں 1.16 لاکھ بستروںکے ساتھ 1,995 پناہ گاہیں عملی طور پر اپناکام کر رہی ہیں۔اکیلے دہلی میں 3 لاکھ شہری بے گھر ہیں۔’ دہلی اربن شیلٹر ریفارم بورڈ‘ کے مطابق 197 پناہ گاہوں میں کل,000 17 افراد کے رہنے کی گنجائش ہے، جن کے لیے صرف,900 5 بستر موجودہیں۔ دوسری جانب مرکزی سرکار کی نمائندگی کر رہے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے کہا کہ مرکزی حکومت شہری غریبی اختتام مشن کے پائلٹ پروجیکٹ کو نافذ کرنے کے آخری مرحلہ میں ہے۔ اس کے تحت شہری علاقوں میں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ کی فراہمی سمیت مختلف مسائل پر توجہ دے کر انہیں حل کرایا جائے گا۔
مہاراشٹر کے زراعت والے خاندان سے تعلق رکھنے والے معزز جج جسٹس بی آر گوئی نے کہا کہ مہاراشٹر میں انتخابات سے قبل جن مفت سہولیات کا اعلان کیا گیاتھا،ان کی وجہ سے کاشتکاری کرنے والے کسانوں کو کام کرنے کے لیے مزدور میسر نہیںآ رہے ہیں۔ ہرکسی کو گھرپر مفت راشن مل رہا ہے۔ بے گھر لوگوں کو پناہ فراہم کرنے پر غور کیا جانا چاہیے، لیکن کیا موجودہ صورت حال کو متوازن نہیں ہونا چاہیے؟ پناہ ان لوگوں کے لیے ہے ،جن کے پاس بازارکی قیمت پرخوراک حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے’ فوڈ سیفٹی ایکٹ ‘متعارف کرایا گیا تھا ۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ایسا تبصرہ پہلی مرتبہ کیا ہو،ایسا نہیں ہے۔ اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کی جانب سے 9 دسمبر 2024 کومفت راشن کی تقسیم کرنے پر مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن سے معلوم کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ ہی انتخابات سے پہلے مفت اسکیموں کا اعلان کیوں کرتی ہیں؟ کب تک مفت راشن تقسیم کیا جائے گا؟ حکومت روزگار کے مواقع کیوں پیدا نہیں کررہی ہے؟زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں مفت اسکیموں پر انحصار کرتی ہیں۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ اس وقت عدالت عظمیٰ غیرہنر مند مزدوروں کو مفت راشن کارڈ دینے سے متعلق معاملے کی سماعت کر رہی تھی۔ اس دوران مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایاتھا کہ ’نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ 2013‘ کے تحت 81 کروڑ افراد کو مفت یا گرانٹ والا راشن فراہم کرایا جارہا ہے۔
دوسری جانب یہ سوال تو کھڑا ہوتا ہی ہے کہ کورونا وبا کے دور میں 5کلوگرام کی شرح سے شروع کی گئی راشن کی تقسیم کی کووڈ19- کا انتہائی خراب دور گزرجانے کے بعدکیا ضرورت ہے؟ کیا اس کا تعلق ووٹوں کی سیاست سے نہیں ہے؟ مفت گھر، مفت اناج، مفت عزت گھر(بیت الخلا)، کسان سمان راشی، مفت بجلی اور خواتین کو دو ڈھائی ہزار روپے مہینہ دیا جا رہا ہے۔صوبائی سرکاریں بھی اسی ڈگر پر چل پڑی ہیں۔ راشن حاصل کرنے والے غربا کی لسٹ میں کاشتکاری کرنے والوں کے نام بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ راشن میںملنے والا گیہوں تو زیادہ تر لوگ اپنے استعمال میں لے آتے ہیں، لیکن چاول بہت کم لوگ کھانا پسند کرتے ہیں۔یہ چاول وہی افراد کھاتے ہیں،جو حقیقت میں غریب ہیں۔کئی مرتبہ خراب، پرانے یا موٹے چاول کے خریدار اپنے ٹھیلے لیے راشن کی دکانوں کے ارد گرد منڈلا تے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو مفت راشن تومل جاتا ہے،لیکن کھانے پینے سے متعلق دیگر اشیاء اور دواؤں وغیرہ پر جی ایس ٹی کی صورت میں اضافی دام ادا کرنے پڑتے ہیں۔ میٹروپولیٹن سٹیز کی جھونپڑپٹی اورکچی آبادیوں کی طرح گاؤوں اوردیہاتوں میں بھی کئی خاندان خستہ حال گھر یا پنّی کے سائے میں زندگی کے دن کاٹتے مل جاتے ہیں۔ دیہات کے غریب اور مزدور لوگ ’منریگا‘ کے تحت ملنے والے کام کے لیے ایک برس میں 100 کام کے دنوں کی جگہ200 دنوں کامطالبہ کر رہے ہیں،لیکن کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ اس پر غور کیا جانا چاہیے ، لیکن منریگا میں ہونے والے کھیل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں ایسے مفت خورے اورنٹھلّے لوگ بھی موجود ہیں، جو مفت راشن پانے کے لیے ہر مہینے ایک ایک دن گنتے رہتے ہیں۔ ریوڑی کلچر کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ غریب اور کوئی کام کرنے سے قاصرمعذور افراد کے لیے تو مناسب طریقے سے مفت راشن کی تقسیم کامعقول انتظام کیا جانا چاہیے ،لیکن باقی لوگوں کو مفت ملنے والا راشن ختم کرکے اُن میں کام کرنے کی عادت ڈالی جانی چاہیے۔ غریبوں کا حق مکمل طور پر جائز ہے، لیکن جب حکومت انتخابات سے قبل مفت ریوڑیوں کی تقسیم کا ’لولی پاپ‘ اچھالتی ہے تو پھر مجاز لوگوں کے قطار میںآ کھڑے ہونے کو درست نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]