پروفیسر عابد حسین
اللّٰہ رب العزت کی بے شمار نعمتوں میں سے’’زندگی‘‘ایک بیش قیمت نعمت ہے، زندگی کی قدر دانی یہ ہے کہ اس کا استعمال اس مقصد میں ہو جس کیلئے زندگی عطا کی گئی ہے، خالق کا ئنات نے ہر ایک مخلوق کی زندگی کو با مقصد بنایا ہے، اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اس کو پوری صلاحیت اور اہلیت عطا فرمائی ہے، انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور مخدوم کائنات ہے، اس لئے اس کی زندگی کا مقصد بھی تمام مخلوقات سے اعلیٰ وارفع ہے، انسان کی زندگی کا مقصد پورے عالم کی ابتدا اور انتہاء کو سامنے رکھ کر سب کے نتائج پر نظر ڈالنا ہے، اور یہ متعین کرناہے کہ مجموعی طور پر کیا چیز مفید اور کیا تکلیف دہ ہے، پھر بصیرت کے ساتھ اپنے لئے مفید چیزوں کو حاصل کرنا اور مضر چیزوں سے بچنا ، نیز دوسروں کو ان مفید چیزوں کی طرف دعوت دینا او رتکلیف دہ چیزوں سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے، تاکہ دائمی راحت وسکون اور اطمینان کی زندگی حاصل ہو سکے، یہی اصلی کامیابی ہے ، انسان اپنے مقصد حیات میں کامیاب ہوجائے، اس کے لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت عطا فرمائی اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ رشد وہدایت کا مکمل نظام قائم فرمایا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے تمام شعبوں میں جو نمونۂ عمل ہمارے لئے چھوڑا ہے، وہ ہر ایک انسان کے لئے اس ابدی مقصد کے حصول کا ضامن ہے، الحمد للہ علمائے ربانیین نے اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہر موڑ پر امت کی مکمل رہنمائی فرمائی اور ان شاء اللہ یہ عمل قیامت تک چلتا رہے گا۔
دنیا کے حالات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جس قدر سامان راحت اور سامان شفا کی فراوانی ہوتی جا رہی ہے، اتنی ہی زیادہ انسانوں کی اکثریت پریشانیوں کا شکار ہورہی ہے، نئے نئے امراض اور نئی نئی مصیبتیں دستک دے رہی ہیں، بڑے سے بڑا انسان بھی اپنی جگہ آسودہ اور مطمئن نہیں ہے، بلکہ یہ سامان جس رفتار میں بڑھتے جارہے ہیں، آفات وبلیات اور امراض وپریشانیاں اس سے کئی گنا تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں، گویا یہ ایجادات ہمارے اصلی مقصد حیات یعنی اطمینان وراحت کے فراہم کرنے میں ناکام ہیں، اس کی واحد وجہ وہ معنوی او رباطنی فساد ہے؛ جس نے انسان کو اپنے رب کی نا فرمانی کا خوگر بنا دیا ہے، جب ہم نے اپنے مالک کی نا فرمانی اختیار کی تو اس کی مخلوقات نے معنوی طور پر ہماری نا فرمانی شروع کردی ، جب تک انسان اللّٰہ تعالیٰ کا فرمانبردار رہتا ہے، اس وقت تک یہ تمام چیزیں انسان کی پوری پوری خدمت کرتی ہیں اور جب انسان خدائے تعالیٰ کی نا فرمانی کرنے لگتا ہے تو دنیا کی ساری چیزیں انسان کی نافرمان بن جاتی ہیں، انسان گرچہ اس کو اپنی ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھتا۔
لیکن چیزوں کے خواص اور فوائد پر غور کرنے سے اس کا ثبوت مل جاتا ہے، ظاہرمیں دنیا کی تمام چیزیں انسان کے استعمال میں رہتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز اپنا مقصد پورا نہیں کرتی۔
اللّٰہ کی دھرتی پر فساد کا دروازہ بند ہواور اصلاح وفلاح کا ماحول عام ہو، اس کے لئے قرآن وحدیث میں ہمارے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے، علمائے کرام نے ہر دور میں اپنے فرض منصبی کو پہچانا اور انسان کی ظاہری اور باطنی اصلاح کی ذمہ داری کو ہر نا موافق حالات میں پورا کرنے کی کوشش کی ،اقوام عالم کو تہذیب وتمدن کا سبق پڑھایا؛ لیکن موجودہ حالات کا مشاہدہ انتہائی افسوسناک ہے، ہمارے جگرگوشے، نئی تہذیب کے متوالے ،اسلام کے مقدس اصول کو پامال کر رہے ہیںاور انسانیت کراہ رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کو ، جن کو حالات کی سنگینی کا مکمل ادراک ہے اور انہوں نے اپنی تحریراور تقریر کو اس ناسور کے علاج کے لئے وقف کر رکھا ۔ ابھی تک ان کی کئی تصانیف ان موضوعات پر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ اس وقت اصلاحی مضامین کا مجموعہ’’حرف حرف زندگی‘‘جو ہمارے سامنے ہے، وہ علمی ، ادبی ، اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے نہایت اہم ہے۔کتاب کے تمام مشمولات زندگی کے ان گوشوں سے متعلق ہیں جن کی رعایت کرنے سے انسانیت کی تعمیر ہوتی ہے، حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے اپنی اس گرانقدر تصنیف میں ان موضوعات کو اپنے مطالعہ کا مرکز بنایا ہے، جنہیں عام طور پر لوگ قابل اعتنا نہیں سمجھتے، لیکن مولانا کی دور رس نگاہ نے مناسب وقت پر مرض کی صحیح تشخیص کی اور اپنی دل پزیر تحریر کے ذریعہ فساد کے سوتوں کو بند کرنے اور اصلاح کو عام کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
مولانا کا مطالعہ بہت گہراہے، وہ جس طرح کھُلے ذہن سے مطالعہ کرتے ہیں، اسی طرح کھلے ذہن سے لکھتے بھی ہیں، اسلوبِ تحریر اور طریقۂ تحقیق دونوں منفرد ہے، عبارت میں سلاست اور سہل نگاری انکا وہ طرۂ امتیاز ہے، جہاں تکلف وصناعی کا بالکل گذر نہیں ہے، روانی اور سادگی نے ایسی چاشنی پیدا کردی ہے، جو قاری کے لئے دلچسپی کا سامان مہیا کرتی ہے، بے سا ختگی او رسچائی سر چڑھ کر بولتی ہے، مضامین کو ما قل ّودلّ کا مصداق بنایا ہے؛ تاکہ اس مشینی دور میں مشغول ترین آدمی کے لئے بھی پڑھناآسان ہوسکے۔
میں نے اس اصلاحی مجموعہ کو جستہ جستہ پڑھا ہے، اور استفادہ کیا ہے، میرا اپنا گمان ہے کہ یہ کتاب اصلاحی نقطۂ نگاہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور قابل مطالعہ پیشکش ہے، دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب کے موضوع اور مقصد کو قبول فرمائے، اور امت مسلمہ کو امام الامم بنا کر اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔
صدر شعبہ فارسی پٹنہ یونیورسٹی،پٹنہ