ہر گھر ترنگا

0

ملک عزیزآزادی کی75ویں سالگرہ ’ امرت مہوتسو‘ کے طور پر منا رہا ہے۔ 12مارچ سے شروع ہوکر پورے سال جاری رہنے والے اس ’حیات آفریں تہوار ‘کے دوران اب تک50ہزار سے بھی زائد مختلف تقریبات کا انعقاد ہوچکا ہے۔اسی بیچ وزیراعظم نریندر مودی نے 13 سے15اگست تک ہندوستان کے ہر گھر میں قومی پرچم ترنگا لہرانے کی اپیل کی ہے۔ سرکاری دفاتر، پولیس تھانوں، اسکول، کالج، یونیورسٹی، غیر سرکاری تنظیموں اور کاروباری اداروں کے دفاتر، شاپنگ مالز، ریستوراں، ٹول پلازہ کو قومی پرچم لہرانے کیلئے کہاگیا ہے۔ ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیرا نتظام علاقوں کے حکام سے کہاگیا ہے کہ وہ ’ ہر گھر ترنگا‘ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس مہم کے تحت بہت سے پروگرام اور مقابلے بھی منعقد کیے جا رہے ہیںاور لوگوں سے اس مہم میں عملی طور پر حصہ لینے کیلئے کہاجارہا ہے۔ اس مہم میں شرکت کیلئے ایک خصوصی ویب سائٹ بھی شروع کی گئی ہے۔اس پوری مہم کا مقصد ہم وطنوں کے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرنا اور قومی پرچم کے بارے میں بیداری پیدا کرنا بتایاگیاہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قومی پرچم کسی ملک کی علامت اور اس کی آن بان اورشان کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ علامت ایک تصویر میں ملک کے ماضی، حال اور مستقبل کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ہمارا قومی پرچم ترنگا بھی اپنے اندر امن، محبت اور اتحاد کی علامت سموئے ہے، ہمارے اندر حب الوطنی کو مہمیز دیتا اور احساس تفاخر پیدا کرتا ہے، اس کی عزت و توقیر اوراس کے تئیں قابل احترام رویہ اپنانا اوراسے اپنے سروں کی زینت بنانامستحسن فعل کہاجاسکتا ہے۔اس کی اپیل کرنا اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا بھی کار نیک کہاجاسکتا ہے اورایسا کرنے والوں کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیاجاناچاہیے۔
لیکن اس کا کیاکیجیے کہ گزشتہ8،10برسوں سے ’ قوم پرستی ‘ایک ناقابل برداشت ’وحشت‘ میں بدل چکی ہے اورہم وطن اس کے بوجھ سے کراہ رہے ہیں۔وزیراعظم، وزیرداخلہ اور بی جے پی رہنمانت نئے اعلانات اورا پیلوں سے لوگوں کی حب الوطنی کا امتحان لینے کے درپے ہیں۔حکمراں جماعت اور اس سے وابستہ لوگ وزیراعظم اور دوسرے اکابرکی اپیلوں کو ’فرمان امروز‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔اس پر عمل کرنے کیلئے شہریوں کی نگرانی اور ہراساں تک کیے جانے کے اقدامات کی شکایتیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔اپیل پر کان نہ دھرنے والے ملک دشمن ٹھہرائے جاتے ہیں۔ان حالات میں موجودہ اپیل پر عمل درآمد کے تعلق سے بھی ان خدشات کو صرف نظر نہیں کیاجاسکتا ہے۔
ملک کا آئین اپنے شہریوں کو آزادی کا حق فراہم کرتا ہے اور انفرادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اندرون اور بیرون ملک قومی پرچم لہرانے کیلئے کسی شہری پر دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا ہے اور نہ اسے کسی طرح مجبور کیا جا سکتاہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی پرچم لہرانا حب الوطنی کا ثبوت یا علامت ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ ان بنیادی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بزور طاقت آنکھوں پر زعفرانی رنگ کی عینک چڑھاکر حب الوطنی کے جذبہ کو ابھارا نہیں جاسکتا ہے۔
آج جن کے نافہ آرزو سے ترنگا لہرانے کی آوارہ مہکار پھوٹ رہی ہے کل تک وہ اسے قومی آن بان اورشان کے خلاف سمجھتے رہے تھے اور کھل کر اس کی مخالفت میں آوازیں اٹھانے کاناقابل تنسیخ ریکارڈ بھی ان ہی کے نام درج ہے۔ حال کے مہینوں میں ایک وزیرنے توکھلے عام یہ اعلان کیا کہ ایک دن لال قلعہ پر ترنگا کے بجائے لہراتا ہوا گیروا جھنڈا(بھگوادھوج) ہندوستان کاقومی پرچم بن جائے گا۔ اس وزیر باتدبیر کا تعلق کسی اور جماعت سے نہیں بلکہ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہی ہے او ر آرایس ایس کے نظریات کی ترویج و اشاعت اورتعامل کی کوشش ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ کرناٹک کی حکومت میں ڈپٹی وزیراعلیٰ کا آئینی عہدہ بھی کے ایس ایشورپا کو قومی پرچم ترنگا کی حرمت پر قائل نہ کرسکا اور مستقبل قریب میں لال قلعہ پر بھگوا دھوج لہرانے کی آئین دشمن دیرینہ آرزو کا برملا اعلان کربیٹھے۔
ماضی کے تلخ تجربات اور موجودہ حالات کے پیش نظر یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ حکمراں جماعت کی یہ نئی سیاسی کروٹ ہے جو قومی پرچم کی آڑ میں جذبہ حب الوطنی کی ڈینگیں ماررہی ہے۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ تنگ نظر سیاست جب حکمرانی کا تاج پہنتی ہے تو حب الوطنی کی وسعت کو بھی اسی تنگنائے تک محدود رکھنا چاہتی ہے جو اس کا نصب العین ہے۔حقیقی حب الوطنی ’موج‘ و ’گرداب‘ کے بجائے اہل وطن کیلئے ’ فیض کے اسباب بنانے‘ کا نام ہے جس میں یہ حکومت اور حکمراں جماعت پوری طرح ناکام ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS