حقِ امن کانفرنس نےگرو تیغ بہادر جی کے 350 ویں شہادتی برسی کے موقع پر دہلی میں سکھ مسلم اتحاد کا اعادہ کیا

0

نئی دہلی(پریس ریلیز): دہلی کا انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر لودھی روڈ ایک تاریخی تقریب کا گواہ بنا، جس نے نہ صرف ہندوستان کی تعمیر نو کی راہ کو اجاگر کیا بلکہ سکھ اور مسلمان برادریوں کے درمیان بھائی چارے کی ایک نئی مثال بھی قائم کی۔

سکھ برادری کے مذہبی پیشوا گرو تیغ بہادر جی کی 350 ویں شہادتی برسی کی یاد میں یہ حقِ امن کانفرنس انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے تعاون سے انڈین مسلم فار سول رائٹس (آئی ایم سی آر)، آل انڈیا پیس مشن نئی دہلی اور کیندریہ سنگھ سبھا پنجاب کی مشترکہ کوششوں سے منعقد کی گئی۔

اس موقع پر ملک بھر سے آئے ہوئے سیکڑوں نمائندے، جن میں اکال تخت کے جتھہ دار صاحبان، آل انڈیا پیس مشن، گردوارہ منیجمنٹ کمیٹی، سینٹرل سنگھ سبھا، گُرو نانک فاؤنڈیشن، ہریانہ سکھ گردوارہ کمیٹی اور راجستھان سکھ سبھا سمیت ممتاز ملی و مذہبی قائدین اور نمایاں مسلم شخصیات، سماجی کارکنان اور مختلف تنظیموں کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

آل انڈیا پیس مشن کے صدر سردار دیا سنگھ نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ سکھ پنت سے پہلے ہندو مذہب دو حصوں میں منقسم تھا، ایک حصہ حکمراں طبقہ کہلاتا تھا جبکہ دوسرا طبقہ مظلوم اوراستحصال شدہ طبقہ تصور کیا جاتا تھا۔ اسی فرق کو مٹانے کے لئے سکھ پنت کا قیام عمل میں آیا. سردار دیا سنگھ کا کہنا تھا کہ مغل بادشاہوں کی تاریخ کو مسخ کیا جانا ان کوظالم بتانا یہ قطعی درست نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مغل بادشاہوں اورسکھ دھرم گرؤں کے ساتھ نرم گرم رشتے رہے ہیں مگر مغلوں کی تاریخ کو مٹانا ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کا بھارت دے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک حصہ نانک وادی (گاندھی وادی) ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ آر ایس ایس وادی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔

انڈین ملمس فار سول رائٹس کے صدر اور سابق ایم پی محمد ادیب نے اپنی تقریر میں مسلم قوم کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ مصیبت میں دوسروں کے کام آنے کی زمہ داری جو ان کی تھی، وہ سکھ قوم آج بخوبی نبھارہی ہے۔ اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے سن 84 کےفسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب سکھ مصیبت میں تھے تو ہم مسلمان خاموش رہے ۔ ٹھیک اسی طرح سے 2002 کے گجرات فسادات کےوقت سکھ قوم بھی خاموش رہی۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت اپنے  آپسی اختلافات کو بھول کر ایک دوسرے کے ساتھ ملکر آگے بڑھنے کا ہے۔ محمد ادیب نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ آج ملک کے موجودہ حالات سے میں بڑا مایوس تھا مگر سکھ برادران کی پر جوش حمایت نے مایوسی کو ختم کر ہمارے اندر مزید جینے کی رمق پیدا کر دی ہے۔

جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر اور صوبے کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنی تقریر میں دفعہ 370 ختم کئے جانے پر اپنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی صوبائی حیثیت کو اب تک بحال نہ کیا جانا انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بیان بازی نہیں سنجیدہ کوشش اور عمل کی ضرورت ہے۔

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے سکھ-مسلم یکجہتی پروگرام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرام کا اسلامک سینٹر میں منعقد ہونا ہمارے لئے باعث فخر ہے اور ہم اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ کبھی بھی ایسے پروگرام کے انعقاد میں سینٹر کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا ۔

تمام مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ سکھ – مسلم اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔انہوں نے ملک بھر میں اس نوعیت کے مزید اجتماعات منعقد کرائے جانے پر زور دیا۔ ماضی کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کو مضبوط بنایا جائے اور آئین میں دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہوکر آگے بڑھاجائے۔ یہ کانفرنس دو سیشن پر محیط تھی۔ پہلے سیشن کی صدارت جموں کشمیر کے سابق وزیراعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کی، نظامت کے فرائض صحافی انظر الباری نے انجام دئیے۔ جبکہ دوسرے اور آخری سیشن کی صدارت سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے کی اور نظامت کے فرائض آئی۔ ایم۔ سی۔ آر کے قومی سکریٹری جنرل ڈاکٹر اعظم بیگ نے انجام دئیے۔ پروگرام کے اختتام پر ایک قرارداد بھی پڑھی گئی۔ قرارداد کے مطابق سکھ مت کے نویں پیشوا گرو تیغ بہادر جی کے شہیدی دیوس کو بطور سکھ – مسلم یکجہتی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گرو تیغ بہادر جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطین اور غزہ کے لوگوں کی مدد کے لئے گروپ کی شکل میں اکال تخت سے رابطہ کر اور پھر حکومت ہند پر دباؤ ڈالنے کے لئے زور دیا گیا۔ قرارداد کے مطابق سکھ مسلم سماج کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر طبقات کو بھی اس مشن کا حصہ بنایا جائے۔

اجلاس کے اھم شخصیات میں کانگریس لیڈر گردیپ سنگھ سپل، سابق چیف جسٹس پٹنہ ہائی کورٹ جسٹس اقبال احمد انصاری، جماعت اسلامی ہند کےصدر سید سعادت اللہ حسینی، پنجاب ویمن کمیشن کی سابق چیئر پرسن بی بی پرمجیت کور ، حکومت راجستھان کی سابق وزیر بی بی شکنتلا راوت، سماجوادی پارٹی رہنما اور رامپور سے رکن پارلیمنٹ مولانا محب اللہ ندوی، دھارمک جن مورچہ کے نیشنل کوارڈینیٹر پروفیسر محمد سلیم انجینئر، اقوام متحدہ کے مشن سے جڑے رہے رویندر پل سنگھ، ایڈوکیٹ کی تنظیم ‘ساملہ’ کے سکریٹری جنرل ایڈوکیٹ فیروز احمد غازی، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن ڈاکٹر ممدوحہ ماجد، سینٹرل سنگھ سبھا کے صدر پروفیسر شیام سنگھ، سماجوادی پارٹی لیڈر شیخ صلاح الدین اور نیوی کے سابق افسر گھمن سنگھ، جیسی اہم شخصیات نے نہ شرکت کی بلکہ شرکاء کو خطاب کیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں معززین شہر، خواتین اور سکھ سماج کے لوگ شریک رہے۔
اجلاس کے اختتام پر آئی۔ ایم۔ سی۔ آر کے قومی صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ایسے اجتماعات کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

جاری کردہ:
میڈیا ڈپارٹمنٹ
انڈین مسلمس فار سول رائٹس(آئی۔ ایم۔سی۔ آر)
ایف۔13. بیسمنٹ۔ نظام الدین۔ ویس

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS