ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان کے پاس بہت سارا مال و دولت ہو، دولت سے دنیا کی ساری چیزیں نہیں خریدی جاسکتی ہیں۔ اگر صرف دولت سے ازدواجی زندگی خوشگوار ہو جایا کرتی تو کسی خوشحال گھرانے میں میاں بیوی کے جھگڑے کبھی نہیں ہوتے اور نہ میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آتی۔ معلوم یہ ہوا کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے دولت کی نہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔عام طور پر بیویوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے شوہر جب بھی کام سے لوٹتے ہیں اور گھر میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے چہرے پر کوئی بشاشت نہیں ہوتی ہے۔ مزاج میں شوخی، طراری اور خوشگواری نہیں ہوتی ہے۔ ایک عجیب طرح کا تھکان، اکتاہٹ اور بیزاری کی کیفیت ان کے چہرے پر ہوتی ہے۔ گویا بیوی اپنے شوہر سے کسی گرانقدرتحفے یا مال و زر کی مشتاق نہیں ہوتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر جب گھر میں داخل ہو تو ایسے خوشگوار موڈ اور مزاج اور تروتازہ چہرے کے ساتھ داخل ہو کہ گھر میں خوشیاں بھر جائیں۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو دیکھ کر طمانیت اور مسرت کا اظہار کرے، ممکن ہو تو بیوی کے سلیقے رکھ رکھاؤ، اس کے بناؤ سنگھار اور اس کے لباس اور وضع قطع اور پوشش کی تعریف کرے تا کہ بیوی بھی دن بھر کی کوفت بھول کر کھل اٹھے۔ازدواجی زندگی کے بہترین آغاز کے لیے تین چیزوں کا عموماً ذکر کیا جاتاہے۔ اوّل خندہ پیشانی، حضورؐ کا فرمان ہے کہ اپنے بھائی کے لیے تمہارے چہرے پر مسکراہٹ کا آنا صدقہ ہے۔ یہ تو بھائی کا معاملہ ہے بیوی کا معاملہ ملاحظہ فرمائیے، حضورؐ نے فرمایا؛’’مسکراہٹ اور تبسم تمہارے چہرے پر ہو یداہو، اللہ کے رسولؐ نے مزید فرمایا ہے کہ تم میں بہترشخص وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے لیے بہترہے اور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘معلوم یہ ہوا کہ بیوی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنے میں ہم کو حضورؐ کی سنت پر عمل کرنا چاہیے کیوں کہ آپؐ خوش مزاج اوربہت زیادہ مسکرانے والے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپؐ کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ؛حضورؐ صرف اپنے صحابہ کے ساتھ ہی ہنستے مسکراتے نہیں تھے بلکہ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بھی خوب ہنستے اور مسکراتے تھے۔ اب ذرا غور کریں کہ کیا ایک مسلمان بلکہ کسی بھی انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی ہنسی، مسکراہٹ، خوش طبعی اور زندہ دلی کے تحفے تو دوسروں کو پیش کرتا پھرے اور اپنی بیوی اور گھروالوں کو اس نعمت سے محروم رکھے؟
یہ ہمارا اور آپ کا ذاتی تجربہ بھی ہوگا کہ ترش رو لوگوں کو عام طور پر لوگ پسند نہیں کرتے ہیں، نہ کوئی ان کا دوست بنناچاہتا ہے اور نہ اسے کوئی اپنا دوست بناناچاہتا ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف اخلاق مند، زندہ دل، خوش مزاج اور خوش طبع لوگوں کو لوگ دوست بناکر خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان کے چہرے کی بشاشت، تازگی، مسکراہٹ اور تبسم ریزی دیکھ کرلوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ نہایت خوش دلی اور مسکراہٹ و تبسم کی طراوت کے ساتھ ملے اور کسی بھی حال میں بدمزاجی کا مظاہرہ نہ کرے۔
دوسری بات یہ کہ اسلام نے جو یہ کہا ہے کہ ہر مسلمان سلام کرنے میں پہل کرے تو شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی سے بھی سلام کرنے میں پہل کرے۔ حضورؐ نے حضرت انسؓ سے فرمایا؛
’’اے انس! جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کرو، تمہارا سلام تمہارے لیے اور گھر کے لیے برکت بن جائے گا۔‘‘
سلام بھی زندہ دلی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اس میں محبت اور مسرت کی چہکار ہونی چاہیے۔ لگے کہ سلام دل کی گہرائی سے شوق ملاقات کی مسرت اور دل کی کیفیت کے ساتھ نکلا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اسلام میں مصافحہ کی بھی اہمیت ہے۔ اور انسانی نفسیات اور دوسرے علوم کے مطابق مصافحہ کرنے سے جب ایک انسان کا ہاتھ دوسرے انسان کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس کے سارے دلی جذبات کا پتہ ایک دوسرے کو مل جاتا ہے۔ اس لیے مصافحہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ہم جانتے ہیں کہ مصافحہ کرنے سے انگلیاں ملتی ہیں۔ ہتھیلیاں ملتی ہیں۔دو ہاتھ ایک دوسرے سے جڑجاتے ہیں یعنی دو قالب ایک جان ہوجاتے ہیں، جذبات واحساسات کی لہریں ایک دوسرے کے رگ وپامیں سماجاتی ہیں۔ محبت میں گرم جوشی پیداہوتی ہے۔ دلی جذبات کا انعکاس ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مصافحہ وہ پٹی ہے جو زخموں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ مصافحہ وہ پھاہاہے جو جلتے زخموں کو ٹھنڈک پہونچاتا ہے۔ اس لیے مصافحہ کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ مصافحہ کی انہیں خوبیوں کو دیکھتے ہوئے جدید فیشن اور تہذیب نے محرم اور نامحرم کی حدوں کو بھلاکر معانقے کو اپنے کلچر کا حصّہ بنالیا ہے۔ مگر ہمیں ہر حال میں اسلامی حدود اور تعلیمات کا خیال رکھنا ہے۔
دوسرا پڑاؤ یہ ہے کہ گفتگو بہترین ہو۔ اچھی ہو، خوشگوارہو، حوصلہ افزاہو، دلوں کو خوش کرنے والی اور روح کو سرشار کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ؛’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کس چیزسے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بہترین قسم کا درخت۔ جس کی جڑزمین میں گہری اتری ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہونچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں۔‘‘ (سورہ ابراہیم ۲۴-۲۵)
حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ؛ اچھی بات کہنا صدقہ ہے، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی ازدواجی زندگی خوشگوار ہو تو آپ کو چند باتوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ اوّل اپنی بیوی کے ساتھ نرمی، اور محبت وحلاوت کے ساتھ بات کرنے کی عادت ڈالیے کیوں کہ عورت کا مزاج نازک ہوتا ہے۔ اس لیے اسے نرم اور میٹھی باتیں ہی متأثر کرتی ہیں۔ جملے محبت سے بھرپور ہوں، گفتگو کاانداز تعریفی ہو جس میں اس کے حسن کی تعریف ہو۔ اس کے سلیقے اور خدمت کا اعتراف ہو۔ایک بات یہ کہ اپنی بیوی کو اچھے ناموں اور القابوں سے بلائیے، ایسے ناموں سے نہ پکاریے جو اسے خوشی نہ پہونچاتی ہو۔ ایسے ناموں اور القابوں سے پکاریے جسے سن کر اسے مسرت ہوتی ہو، خود حضورؐ حضرت عائشہؓ کو یاعایش کہہ کر بلایا کرتے تھے۔شوہر اگر سفر میں ہو یا دفتر میں ہو تو بھی چاہیے کہ وہ فون پر بیوی سے برابر رابطے میں رہے اس کا احوال معلوم کرتا رہے، اس کے تئیں اپنی محبت اور اس سے دوری کی بیقراری کا اظہار کرتا رہے، اس طرح ازدواجی زندگی خوشگوار بنی رہتی ہے۔
ہمیں خوب یادرکھنا چاہیے کہ ازدواج اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ خاندانی نظام اور گھریلو ماحول کی خوشگواری اور پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوں اور ان کے پورا کرنے میں خوش دلی اور سکون قلب کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ اسلام چوں کہ ایک مکمل دین ہے تو اس مذہب میں تومثالی بیوی کا بھی بہت واضح تصوّر پیش کردیا گیاہے۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ؛’’جو نیک بیویاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں، اور ان کی عدم موجودگی میں ان کے مال اور اپنی آبرو کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
یہاں تین خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ اوّل شوہر کی تابعداری، دوم شوہر کے مال کی حفاظت اور اپنی عزت و عصمت کا تحفظ یہ تین چیزیں جن بیویوں میں پائی جاتی ہیں وہ مثالی بیوی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛’’عورتوں سے چارچیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے۔ اوّل اس کے مال کی وجہ سے دوم اس کے حسب و نسب کی وجہ سے، سوم اس کی دین داری کی وجہ سے، چہارم اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور پھر فرمایا دیکھو تم دین دار عورتوں سے نکاح کرنا اللہ تمہیں خوش رکھے۔‘‘
کوئی بھی عورت اس وقت تک مثالی بیوی نہیں بن سکتی ہے جب تک کہ اس کے اندر نیکی کے اوصاف نہ پائے جائیں اور ہم جانتے ہیں کہ نیکی کے اوصاف انہیں عورتوں اور مردوں میں پائے جاتے ہیں جن کے رشتے اپنے رب سے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ اس میں منطق یہ ہے کہ جو انسان اپنے رب کا حق ادا نہیں کرسکتا ہے وہ یقینا مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے بھی قاصر ہوگا۔اسی لیے شادی کے لیے عورت کے انتخاب میں نیک عورت ہونے پر زیادہ زوردیاگیاہے۔ کیوں کہ اگر عورت نیک نہیں ہوگی تو وہ شوہر کی فرماں بردار اور اس کے دوسرے معاملات کی بھی ادائیگی نہیں کرپائے گی۔ حضرت انس ؓ نے کہا ہے کہ؛
’’حضرت ابوطلحہ ؓ نے ام سلیم کو نکاح کا پیغام بھیجا تو ام سلیمؓ نے کہا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔ حضرت ابو طلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا اور یہی ان کا مہرقرار پایا۔‘‘
یہ وہ نیک طینت اور بزرگ خاتون تھی جن کی نیکی کی وجہ سے ابوطلحہؓ جیسے جری اور بہادر انسان اسلام کی پناہ میں آئے۔مثالی بیوی کی خوبیوں میں اس خوبی کو بھی شامل کیا جاتاہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ سے لولگانے والی ہوتی ہے جیسا کہ بیان کیاگیاہے کہ پروردگار! ہمیں ہمارے جوڑوں کی طرف سے اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ اچھی اور نیک بیوی وہ ہے کہ جب کبھی اس کا شوہر ناراض ہوجاتا ہے تو وہ سب سے پہلے اللہ سے رجوع کرتی ہے دو رکعت نماز اداکرتی ہے اور شوہر کی ناراضگی کے دورکرنے کی اپنے رب سے دعا کرتی ہے کیوں کہ اس نیک اور مومن بیوی کو معلوم ہے کہ صلح کے لیے اٹھائے گئے ہاتھوں کو اللہ رد نہیں کرتا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی اپنی ساری خوبیوں کے باوجود شوہر کی توجہ حاصل نہیں کرپاتی ہے۔ اس صورت حال میں بھی نیک بیویوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ جب چاہے کسی کا بھی دل بدل دیتا ہے۔ شوہر کی ناراضگی یا بے تو جہی کو اللہ کی آزمائش سمجھ کر اسی سے رجوع کرنے سے مسٔلہ حل ہوگا۔
اچھے اور مثالی شوہر کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ فراخ دست اور سخی ہو، یعنی گھروالوں اور بیوی کی جائز ضرورتوں کو نہ صرف یہ کہ معلوم کرتا ہو بلکہ اسے خندہ پیشانی اور مسرت کے ساتھ پورا بھی کرتا ہو اور اس کی تکمیل میں اپنی استطاعت کے مطابق کسی قسم کی بخالت سے کام نہ لیتا ہو۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ جس طرح اپنی ضرورتوں کی تکمیل پر خرچ کرتا ہے اسی طرح اپنی بیوی بچوں کی ضرورتوں پر بھی خرچ کرے۔ اسلام میں بیوی بچوں کی ضرورتوں کی تکمیل کرنے اور ان پر خرچ کرنے کو صدقہ قرار دیا گیاہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بیوی پر خرچ کرنا نہ صرف یہ کہ ایک سماجی ضرورت ہے بلکہ باعث ثواب و اجر بھی ہے۔عورت کی یہ خواہش بالکل جائز ہے کہ شوہر اسے یہ احساس نہ ہونے دے کہ وہ اپنی ذات پر جس طرح خرچ کرتا ہے اس پر خرچ نہیں کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات پر نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں میاں بیوی کے حقوق یکساں ہیں کیوں کہ باہمی تعاون اور محبت و مروّت تبھی پیداہوتی ہے جب دونوں کے حقوق اور مراتب یکساں ہوں۔ یہ تصوّر درست نہیں ہے کہ مرد کا صرف ایک کام ہے وہ ہے باہری دنیا میں معاش کے لیے تگ ودو کرنا۔ اسی طرح یہ تصوّر بھی غلط ہے کہ عورتوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے وہ گھر میں یونہی فارغ بیٹھی رہتی ہیں۔ حالاں کہ توجہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سچ مچ عورت ہی گھر کی معمار اور ذمہ دار ہے۔ عورتیں جتنا کام کرتی ہیں ان سبھی کاموں کے لیے الگ الگ ملازم رکھیں تو شاید مہینے کا ایک لاکھ روپیہ بھی کم پڑجائے گا۔ بیوی باورچی خانہ میں باورچی ہوتی ہے تو بچوں کے لیے بے بی کیئرا اور نرسری کی استانی ہوتی ہے۔ ساس سسر کے لیے نرس اور خدمت گار ہوتی ہے تو گھریلو نظام اور اخراجات کو سنبھالنے والی مینیجر ہوتی ہے۔ گھر کی صفائی ستھرائی کے لییے کلینر ہوتی ہے تو پیڑپودوں اور باغ کی دیکھ بھال کرنے والی مالن ہوتی ہے۔ کپڑے دھونے اور پریس کرنے والی ڈرائی کلینر ہوتی ہے، بچوں کی ٹیوشن لینے والی ٹیوٹر ہوتی ہے، خاندان کے الجھے معاملوں کو سلجھانے والی دانشور ہوتی ہے۔ رشتوں کو جوڑنے اور بحال کرنے والی سفارت کار ہوتی ہے۔ جبکہ میزبانی میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ اور شوہر کے لیے راحت اور تسکین کا ذریعہ بھی وہی بنتی ہے۔
بعض نادان لوگ گھریلو کاموں میں دلچسپی لینے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جبکہ حضورؐ گھریلو امور کی انجام دہی میں خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بس اتنی بات جانیے کہ شوہر اور بیوی زندگی کی گاڑی کے دوپہیے ہیں، اگر ایک بھی اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کرے گا تو زندگی کی گاڑی نہیں چل سکے گی۔ اس لیے میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔