حکومت کی تمام تر خوش خیالی اوردعوئوںکے باوجود مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی تباہ کاریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہندوستانیوںکی اکثریت کیلئے تہوارکا یہ موسم مہنگائی کی وجہ سے پھیکا اور بے لطف ہی نہیں بلکہ بے جان بھی ہوگیا ہے۔تہوار کی ضرورت نئے کپڑے، نئے ملبوسات، کھانے پینے کی عمدہ چیزوںتک رسائی عوام کیلئے خواب و خیال بن گئی ہے۔افراط زر کا عفریت بے قابو ہوکر تہوار کی خوشیاں نگل رہاہے۔ ستمبر کے مہینہ میں خوردہ افراط زر 7.41 فیصد تک پہنچ گیاہے جو کہ گزشتہ پانچ ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے پہلے اگست میں یہ شرح 7 فیصد تھی جس کے بعد حکومت نے دعویٰ کیاتھا کہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے تمام اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں عوام کو اس سے راحت پہنچائی جائے گی لیکن تازہ جاری ہونے والے اعدادو شمار حکومت کے دعویٰ کی نفی کررہے ہیں۔عوام کیلئے راحت کا سامان کرنے کے بجائے نئی نئی مذہبی ڈھانچے کی تعمیر پر اربوں روپے صرف کرکے عوام کو ’ہندو راشٹر‘ کے ہیجان انگیزخیالات میں الجھایا جا رہا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف عالی شان مندر اور کاریڈور تعمیر ہورہے ہیںتو دوسری جانب عوام کیلئے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
خوردہ افراط زر 7.41فیصد کا سیدھاسادا مطلب یہ ہے کہ اب عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں دوبارہ بڑھ جائیںگی جو پہلے سے ہی آسمان چھورہی ہیں اور ان میں مسلسل تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔آٹا، چاول، دال، سبزی، گھی، دودھ، دہی سمیت استعمال کی ہر عام شئے عام آدمی کی رسائی سے مزید دور ہوجائے گی۔کنزیومر فوڈ پرائس انڈیکس (سی ایف پی آئی) کے مطابق ستمبر میں سبزیوں کی قیمتوں میں 18.05 فیصد، مصالحہ جات میں16.88فیصد جبکہ اناج اور مصنوعات کی قیمتوں میں 11.53 فیصد اور دودھ اوراس سے بننے والی مصنوعات کی قیمتوں میں 7.13 فیصد اضافہ ہوا۔کھانے اور مشروبات کے علاوہ، ایندھن اورتوانائی کی قیمتوںمیں 10.39 فیصد، کپڑوں اور جوتوں میں 10.17 فیصد اور ہاؤسنگ میں 4.57 فیصدکا اضافہ ہواہے۔ادھر وزارت شماریات اور پروگرام عمل درآمد کی جانب سے جاری ہونے والاصنعتی پیداوار کا اشاریہ (آئی آئی پی) ہندوستان میںکارخانوں کی مجموعی پیداوار میںبھی 0.8فیصد کی کمی کا اعلان کر رہا ہے۔صنعتی پیداوار میں کمی کا مطلب برآمدات اور زر مبادلہ کے حاصلات میں کمی ہے، جس کااثر معیشت پر لازمی پڑنا ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے 2026 تک خوردہ افراط زر کو 4 فیصد پر رکھنے کا ہدف مقرر کرتے ہوئے اس میں 2 فیصد کا مارجن شامل کیا تھا، یعنی خوردہ افراط زر کو 6 فیصد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن اگست میں یہ 7 فیصد تک تھی اور اب یہ.41 فیصد بڑھ کر 7.41 ہو گئی ہے۔ اب اس کا اثر شرح نمو پر بھی پڑے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی حال ہی میں 2022 میں ہندوستان کی اقتصادی ترقی کی اپنی پیش گوئی کو کم کر کے 6.8 فیصد کر دیا ہے۔عالمی بینک نے بھی مالی سال2022-23کیلئے ہندوستانی معیشت کی شرح نمومیں کمی کا اشارہ دیا ہے۔ ان عالمی اداروں کے اندازے اور سروے ہوا ہوائی نہیں بلکہ یہ ملک میںصنعتوںکی صورتحال، برآمدات اور درآمدات میں گراوٹ، روزگار کی شدیدکمی، پیداوار، طلب و رسد میں ہمالیائی فرق اور قرضہ جات کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں۔ جب ان تمام شعبوںمیں دیوہیکل تضاد ہوگا تو شرح نمو کے تخمینے بھی اسی تناسب اور توازن میں تضادات کے ساتھ سامنے آئیں گے۔آئی ایم ایف اور عالمی بینک اس بابت تواتر سے متنبہ کرتے آرہے ہیں لیکن ان عالمی اداروں کی پیش قیاسیوں کو حکومت اہمیت دینے کو تیار نہیںہے۔اب خوردہ افراط زر کی یہ بھاری بھرکم شرح بھی حکومتی پالیسی پر سوال اٹھا رہی ہے۔ویسے بھی ماہرین اقتصادیات عالمی کساد بازاری کاخدشہ پہلے ہی ظاہر کرچکے ہیں۔ حکومت اگر افراط زر، مہنگائی، بے روزگاری کو مسئلہ مان لے تو اس کے حل کی امید بھی کی جاسکتی ہے۔مگر مشکل یہ بھی ہے کہ حکومت کوملک میںنہ تو مہنگائی نظرآرہی ہے اور نہ روپیہ کی گرتی ہوئی قدر پر ہی اسے تشویش ہے حتیٰ کہ بے روزگاری جیسا عفریت بھی حکومت کی نگاہوں میں نہیں آرہاہے۔ حکومت نے اگر اب بھی معیشت پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، عوامی ضروریات پر رقم صرف کرنے،روزگار بڑھانے اورمہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے بجائے غیر ضروری مدات اور مذہبی ڈھانچوں کی تعمیر میں بھاری بھرکم رقم خرچ کرتی رہی تو آنے والے دنوں میں عوام کو اس سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا۔
[email protected]
خوشیاں نگلتا مہنگائی کاعفریت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS