اس وقت پورا مغربی ایشیا جنگ وجدال سے گزر رہا ہے۔ چاروں طرف جنگی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔اسرائیل فلسطینی علاقوں مغربی کنارہ اور غزہ میں جوبربریت کامظاہرہ کررہاہے، اس کی ہرطرف مذمت ہورہی ہے مگر مغربی کنارے میں بالکل ایک نوعیت کا محاذ فلسطینی اتھارٹی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں، دستوں اور حماس واسلامک جہاد کے درمیان بھی کھلاہوا ہے۔ حماس اور اسلامک جہاد——فلسطینی اتھارٹی کے حکام اور اہلکار کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے۔ ایک طرف یہودی نوآبادیات اسرائیلی حکام سے ملنے والی کھلی چھوٹ کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اسرائیلی فوج اور یہودی نوآبادکار——
فلسطینیوں کی زندگی حرام کیے ہوئے ہیں اور عالمی برادری بشمول امریکہ یہودیوں کی لاقانونیت پرلگام کسنے کی اپیلوں پر اپیلیں کررہے ہیں۔ چند روزقبل حماس کے ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہوائی جہاز سے بم برسائے۔ اس غیرمعمولی بحران میں تصادم اور ٹکراؤ کاایک اورپہلو—حماس، اسلامک جہاد اور الفتح کے درمیان ٹکراؤ سے پیدا ہوگیا ہے، جس میں بھی عام فلسطینی بربریت کانشانہ بن رہے ہیں۔ اس مثلث درمثلث خونیںمعرکہ میں ہرفریق اپنے کو صحیح اور دوسرے کو غلط قرار دے رہا ہے۔
قارئین کومعلوم ہوگا کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی محدودحکومت ہے۔ قانون ونظم وضبط کی ذمہ دار فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے۔ مگر اسرائیل کی پولیس اورفوج کامغربی کنارے پر اقتدار اعلیٰ ہے لہٰذا اب چھوٹے شہر ’طوباس‘ جو ایک سرگرم تجارتی اور اقتصادی مرکز ہے، دوسرے علاقوں کے مقابلے میں پرامن ہے مگر جب کبھی بھی تصادم ہوتاہے تو دونوں طرف سے مہلک ہتھیار نکل کر آتے ہیں اور دونوں کا خوب جانی ومالی نقصان ہوتا ہے۔ اسرائیل نے پورے فلسطین سے حماس کو نیست ونابود کرنے کی ٹھانی ہے۔ لہٰذا اس کے حکام تشدد کی ذرا ہی آہٹ پرالرٹ ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل غزہ پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے پربھی فلسطینی اتھارٹی کاجو بھی رہا سہاکنٹرول ختم کرکے اس کو اپنی مملکت میں شامل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ محمود عباس کی قیادت والی اتھارٹی کولگتاہے کہ اگر اس نے پھونک پھونک کر قدم نہیں رکھاتو مغربی کنارے سے اس کا کنٹرول بالکل ہی ختم ہوجائے گا۔ اسی اتھارٹی کی وجہ سے الفتح اور محمود عباس کا امریکہ اور پوری دنیا کے ساتھ رابطہ ہے۔ طوباس میں مقامی سطح پر ایک حریت پسندگروپ طوباس بٹالین بہت سرگرم ہے۔
لہٰذا کسی بھی ’قانون شکنی‘ کی واردات پر اسرائیلی پولیس اور فوج سے پہلے فلسطینی اتھارٹی کے اہلکار سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس وقت مغربی کنارے کا شہر طوباس اس معرکہ کا سب سے حساس خطہ ہے۔ طوباس نابلس کا علاقہ ہے۔ اقتصادی اور تجارتی اعتبار سے بہت سرگرم ہے اور مرکزی حیثیت رکھتاہے۔ اس شہر کی مجموعی آبادی تقریباً 21ہزار ہے۔ فلسطینی حریت پسند کئی حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ حماس، اسلامک جہاد کے علاوہ حکمراں فلسطینی اتھارٹی کے اہل کار اورسیاسی پارٹی الفتح کے کارکنان درمیان پر مشتمل ہے اوراس کو اسرائیل کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے فلسطینیوں پرکارروائی کرنی پڑتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا کہناہے کہ قانون شکنی کی صورت میں اس کے حکام کا کارروائی کرنا ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر وہ کارروائی نہیں کریں گے تو اسرائیل اپنی پوری بربریت کے ساتھ فلسطینیوں پرٹوٹ پڑتاہے۔ لہٰذافلسطینی اتھارٹی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کو کارروائی کرنے کے جواز سے محروم کررہے ہیں۔
چندروزقبل،اس طرح کی ایک کارروائی میں محمود عباس کی پوری فورس نے طوباس پر چھاپہ مارا جس پر حماس اور اسلامک جہاد نے شدیدردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ایجنڈے پرعملی جامہ پہنا رہی ہے۔ اس تصادم کی سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ حماس اسلامک جہاد اور پی اے کے درمیان جھڑپوں میں مشین گنوں کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔
طوباس بٹالین کے اکثرجنگجو——اسلامک جہاد کے رکن ہیں۔ حریت پسند اسرائیل کی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے اکثرکارروائی انجام دیتے ہیں۔پچھلے دنوں فلسطینی اتھارٹی نے ایک اسکول کے پاس بم کو ناکارہ بنادیاتھا۔ اس بم کو نصب کرنے کا مقصد اسرائیلی فوج کو نشانہ بنانا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں بھی حریت پسند قیدیوں پر تشدد اور ایذا رسانی کے الزامات لگتے ہیں۔ یہ پورا خطہ فلسطینیوں کے لیے اس طرح کی الجھنوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ مغربی کنارے پر کنٹرول کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو اقتصادی، اخلاقی اور دیگر امداد سے نوازتا ہے۔ 2007میں حماس سے اختلافات کے بعد امریکہ نے الفتح کو اپنی فوج اور پولیس بنانے کے لیے اربوں ڈالر دیے تھے اورپی اے اتھارٹی نے اس وقت 35ہزار افراد پرمشتمل سیکورٹی دستے بناتے تھے۔n