نئی دہلی (یو این آئی): حلال سرٹیفیکٹ جاری کرنے والے اداروں کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے والی اترپردیش حکومت سے آج سپریم کورٹ نے جواب طلب کیاہے۔ وہیں مولانا ارشد مدنی نے حکومت اترپردیش کے حکمنامہ کو شہریوں کے بنیادی حقوق کے سراسر منافی قرار دیا۔ یہ اطلاع جمیعۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز میں دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سندیپ مہتا نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر، جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن اور حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے داخل کردہ عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کرکے اس سے دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کوکہا ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر اور جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے دو رکنی بینچ کو بتایا کہ حلال مصنوعات پر پابندی کا اثر پورے ملک پر پڑا ہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص فرقے کو نقصان ہوا ہے اسی کے ساتھ ساتھ ملک کی اکانومی بھی متاثر ہوئی ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کویہ بھی بتایا کہ جمعیۃ علماء اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے مقدمہ قائم کیا گیا ہے جسے ختم کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ حلال مصنوعات پر پابندی کی وجہ سے صارفین کے حقوق کی بھی حق تلفی ہوئی ہے لہذا عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کرنا چاہئے۔ حلال انڈیا کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ اگروال نے بھی بحث کی۔ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا حالانکہ شروع میں عدالت کا یہ کہنا تھا کہ عرضی گذاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع ہونا چاہئے اور عدالت نوٹس جاری کرنے کے حق میں نہیں تھی لیکن سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن کی بحث سننے کے بعد عدالت ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرنے پر راضی ہوئی۔
نوٹس جاری ہونے کے بعد راجو رام چندرن نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ عرضی گذاروں کے خلاف کسی بھی طرح کی سخت کارروائی کرنے سے پولس کو روکے جس پر عدالت نے کہا کہ مقدمہ کی اگلی سماعت پر اس تعلق سے غور کیاجائے گا۔
دوران سماعت عدالت میں ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے۔جمعیۃ علماء مہاراشٹر اور جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ سوگندھا مشراء نے عرضی داخل کی جبکہ حلال انڈیا کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے پٹیشن داخل کی ہے۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر اور جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن کی جانب سے داخل عرضیوں میں تحریر ہے کہ جے یو ایچ ایف سرٹیفیکیشن (JUHF Certification) تمام قانونی ضابطوں کی تکمیل کرتے ہوئے کمپنیوں کو حلال سرٹیکفٹ جاری کرتا ہے، جے یو ایچ ایف کی ایک مخصوص ٹیم سرٹیکفٹ جاری کرنے سے قبل کئی مرحلوں میں مصنوعات کے دستاویز اور مصنوعات بنانے والی کمپنی کے جائے وقوع پر جاکر اس کی جانچ کرتی ہے اورمکمل اطمیان کے بعدہی انہیں حلال کا سرٹیکفٹ دیاجاتا ہے۔ اس عمل میں ان تمام حکومتی ضوابط کی پاسداری کی جاتی ہے جس کی وضاحت وزارت وتجارت صنعت کی طرف سے جاری ہونے والی نوٹیفکیشن میں کی گئی ہے جس میں حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے تمام اداروں کے لئے این اے بی سی بی یعنی نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ فارسرٹیفکیشن بارڈیز (NABCB-National Accreditation Board for Certification Bodies)کے تحت رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے، جے یو ایچ ایف نہ صرف اس ادارے سے رجسٹرڈ ہے بلکہ اس کے حلال سرٹیفکیشن نظام کو دنیا کے بیشترممالک تسلیم کرتے ہیں۔جے یو ایچ ایف ورلڈحلال فوڈکونسل کا رکن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ توقانونی پہلو ہے۔ دوسرااہم پہلویہ ہے کہ حلال سرٹیفکیشن خدمات سے ہمارے ملک کی معیشت کوزبردست تقویت حاصل ہوتی ہے، اس کی ضرورت ان ممالک میں بھی ہیں جہان ہماری مصنوعات ایکسپورٹ ہوتی ہیں، بلکہ خودہندوستان آنے والے ان سیاحوں کے لئے بھی اس سرٹیکفٹ کی ضرورت ہوتی ہے جویہاں قیام کے دوران حلال مصنوعات ہی استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ پراسرائیلی بمباری جاری، گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 120 سے زائد فلسطینی شہید
آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے عدالت کی طرف سے دی جانے والی ہدایت کا خیرمقدم کیا ہے اورکہا ہے کہ حلال سرٹیفکیشن کوئی ایسامعاملہ نہیں تھا جس کو اس طرح متنازعہ بنادیا جاتا لیکن افسوس فرقہ پرست لوگ ہر معاملہ میں ہندواورمسلم کارنگ تلاش کرکے اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں، ملک کا بے لگام اورمتعصب میڈیا بھی ایسے لوگوں کی کھل کر ہمنوائی کرنے لگتا ہے جس سے سماجی طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی اور فرقہ وارانہ صف بندی کو بڑھاوا ملتا ہے۔