لاک ڈاؤن لگانا پڑا

0

وطن عزیز ہندوستان میں حالات بے حد خراب ہیں۔ کورونا کا پھیلتا دائرہ لوگوں کو ڈرانے لگا ہے۔ تشویش کی زیادہ بات یہ ہے کہ کورونا کو روکنے کے لیے تو جدوجہد کی جا رہی ہے مگر کورونا متاثرین کو راحت دینے کے انتظامات بہت کم ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت پہلے ہی خستہ ہے، اس لیے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ راحت افزا کاموں میں دشواری نہیں آئے گی۔ حکومتیں یہ نہیں کہہ سکتیں کہ کام کرنے کے لیے انہیں مہلت نہیں ملی۔ پچھلے سال لاک ڈاؤن لگانا پڑا تھا تو یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ ایسا مجبوری میں کرنا پڑا ہے۔ اس وقت بڑی سختی برتی گئی تھی مگر جلد ہی دو باتیں آشکار ہو گئی تھیں۔ پہلی یہ کہ کئی لوگوں کے لیے حالات کی سنگینی معنی نہیں رکھتی، ان کے لیے معنی رکھتی ہے تفریق، کیونکہ وہ خود کو ہی انسان مانتے ہیں، دوسروں کو انسان نہیں مانتے مگر کورونا سبھی انسانوں کو انسان ہی مانتا ہے۔ وہ اپنے دائرۂ اثرمیں لینے میں بھیدبھاؤ نہیں کرتا۔ دوسری بات یہ آشکار ہوئی تھی کہ اس ملک میں سیاست سے بڑھ کر کسی اور چیز کی اہمیت شاید ہی ہو، کیونکہ پہلے سیاسی پارٹیاں بہار کے اسمبلی الیکشن میں مصروف رہیں۔ اس کے بعد مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ، آسام اور پدوچیری کے اسمبلی انتخابات میں مصروف ہو گئیں۔ کورونا کے اس دور میں جبکہ انتخابی عمل مکمل کرانے کی جلدی کرنی چاہیے تھی، الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کئی مرحلوں میں کرانے کی تاریخیں رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انتخاب کی تاریخیں ٹالی نہیں جا سکتی تھیں اور صدر راج نافذ نہیں کیا جا سکتا تھا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اقتدار کی جنگ میں پڑنے کے بجائے سب پارٹیاں مل کرکورونا سے لڑنے کی تیاری نہیں کر سکتی تھیں؟ ساری پارٹیوںنے مل کر کورونا سے لڑنے کی جدوجہد نہیں کی۔ جدوجہد اس بات کے لیے ہوئی کہ دلی کا اصل حکمراں کون ہوگا اور آج دلی کے حالات بگڑ گئے ہیں تو کوئی یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیارنہیں کہ ان حالات کے لیے اصل ذمہ دار وہ ہے۔
اروند کجریوال کی حکومت نے پچھلی بار اچھا کام کیا تھا۔ مریضوں کے کوارنٹین کے لیے جگہ بنانے کی بات ہو یا ان کے علاج کی، دلی حکومت کا کام قابل تعریف تھا۔ اس نے لوگوں کی اقتصادی مدد کی بھرپورکوشش کی تھی، بڑی تعداد میں لوگوں تک اشیائے خوردنی سے مدد کی تھی تاکہ لوگوں کو پریشانی نہ ہو مگر اس بار کے حالات مختلف ہیں۔ کورونا نے بڑی تیزی سے خود کو پھیلایا ہے۔ اسے قابو میں کرنے کے لیے دلی حکومت کے پاس لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا اور اس نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے کورونا کی توسیع کو روکنے میں آسانی ہوگی مگر وہ لوگ جو پہلے ہی سے کورونا سے متاثر ہیں، ان کو کیسے بچایا جائے گا؟ دلی میں آئی سی یو یونٹیں کتنی ہیں؟ آکسیجن کتنی مقدار میں دستیاب ہے؟ ایک جگہ سے دوسری جگہ آکسیجن لے جانے کی سہولتیں کتنی ہیں؟ دلی کے تقریباً سبھی اسپتال پہلے ہی فل ہیں تو خدانخواستہ کورونا کی توسیع کی رفتار اگر یہی رہی تو نئے مریضوں کے لیے کون سی جگہ مہیا کرائی جائے گی؟ اور اگر دلی کے حالات یہ ہیں تو پھر عام شہروں میں کیا حالات ہوں گے؟ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ کیا حکومتوں کا کام صرف رہنما اصول جاری کر دینا ہے کہ ایسے کیجیے، ایسے نہ کیجیے؟
کچھ دنوں پہلے تک ملک میں حالات کچھ بہتر ہو گئے تھے مگر اسی دنیا میں کچھ ملکوں میں کورونا نے بڑے تیور دکھائے تھے۔ ان ملکوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات سمجھی جا سکتی تھی کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر بھی آسکتی ہے اور یہ لہر پہلی لہر سے زیادہ خراب ہو سکتی ہے ، اس لیے کورونا سے نمٹنے کی تیاری پہلے سے رکھی جائے، نئے اسپتال بنوا لیے جائیں، ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنا لیا جائے مگر ایسا کبھی لگا ہی نہیں کہ کورونا سے نمٹنے کی تیاری شاندار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد دو لاکھ سے اوپر جاری ہے اور مسلسل دہشت ناک خبریں آ رہی ہیں۔ امتحان کے اس وقت میں راحت کی ایک بات یہ ہے کہ ہندوستان کے انسان دوست لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور اگر کوئی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عام لوگوں کو یہ بات محسوس ہونے لگی ہے کہ کئی لیڈروں کے لیے وہ ووٹوں کی گنتی سے زیادہ کچھ نہیں، اس لیے انہیں ہی ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی اور اس کے لیے سب سے پہلے انہیں ہر طرح کی تفریق ختم کرنی ہوگی، کیونکہ اس وقت بھی لوگ انسانیت کے نام پر اگر ایک دوسرے کے کام نہیں آسکے تو پھر شاید کبھی نہیں آپائیں گے، کیونکہ معلوم نہیں کہ کون جئے گااور کس کی زندگی کے سفر کو ختم کرنے کی وجہ کورونا بنے گا!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS