محمد خالد غازی پوری ندوی
استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
گیان واپی جامع مسجد ،بابری مسجد سے کہیں زیادہ قدیم وسیع اورکشادہ پتھر کی بنی ہوئی ہے، جس جگہ یہ مسجد واقع ہے وہاں آج سے دوہزار سال پہلے ایک باؤلی تھی، جس کوواپی کہاجاتاتھا، اس باؤلی کوپاٹ کر بدھسٹوں نے اپنے دوراقتدارمیں ایک خانقاہ تعمیر کی اوروہاں وہ گیان دھیان میں مصروف رہا کرتے تھے، اس مناسبت سے اس جگہ کوگیان واپی اور کثرت استعمال سے گیان بافی کہا جانے لگا،بدھسٹوںنے اپنے دوراقتدار میںسارناتھ جوبنارس سے جانب مشرق چندکلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے اس کومرکز بنایاتھا اوربنارس جوہندوؤں کاپوتراستھان تھا اس کوبری طرح تاراج کردیا تھا، یہاں کے بے شمارمندروں کو توڑااورہندوؤں کی جمعیت کومنتشر کردینے کی پوری کوشش کی، چند گنتی کے مندر ان کے زورسے بچ سکے، بابوشری کرشن ورما نے ’کاشی اوروشوناتھ کے تذکرہ ‘میں لکھا ہے۔
کاشی وشوناتھ :یادرکھناچاہئے کہ صرف مسلمانوں نے ہی ہم پر حملہ نہیں کئے بلکہ ان سے بہت پہلے بودھوں نے ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ، آگے چل کرلکھتے ہیںکہ’ ہندوراجہ کے اثر سے کاشی میں بدھ مذہب کی ترقی نہ ہوتے دیکھ کر بودھ راجہ شیش ناگ نے کاشی حکومت کوفتح کرکے کاشی دارالسلطنت کو بودھ راجہ کے زیر حکومت کیا اوراپنے لڑکے کوعنان حکومت دے کر وہ مگد ھ چلے گئے، شیش ناگ راجہ کے خاندان کاپانچواں راجہ میار ہوا، جس کے وقت میں کچھ تھوڑی سی تعداد سناتن دھرمیوں کی چھوڑکر کاشی کے ساتھ پورا ہندوستان بودھ مذہب کا پیرو کارہوگیا ‘(مرقع بنارس( ص 19؍20)
بودھوں نے مندروں کو توڑا :تاریخ آئینہ حقیقت نما کے مصنف نے جلد 1صفحہ 55پرلکھا ہے ’بودھ مذہب نے ہندوستان میں رائج ہوکر قدیم برہمن سماج کودرہم برہم کرڈالاتھا (ماخوذ مرقع بنارس صفحہ20)راجہ شیوپرساد ستارہ ہند اپنی کتاب آئینہ تاریخ نما کے صفحہ 10اور 91پریوں رقمطراز ہے’ بدھوں کے حملہ کے بعد بنارس میں ہندوؤں کے صرف سومندر باقی رہ گئے تھے اوربقیہ سب تباہ وبربادکردیے گئے تھے، مندروں کوتوڑنے اوربربادکرنے کاجہاں تک تعلق ہے اس میں خود ہند وراجاؤں نے بھی اہم رول ادا کیا ہے، اس لئے کہ کاشی کے مندر میں چڑھاوے کی رقمیں اتنی زیادہ آتی تھیں کہ ہوسناک اورلالچی راجہ مندروں کے تقدس کاخیال کیے بغیر مورتیاں جوانتہائی بیش قیمت ہوتی تھیں اٹھوالیتے، اورمندر کو مسمار کرادیتے تھے ،چنانچہ ایک مصنف لکھتاہے’ ہندوراجہ ہرش نے مال کی ہوس میں مندروں کوتوڑا اور مورتیوں کورسیوں سے باندھ کر کھنچوایا (کاشی اوروشوناتھ مصنفہ بابوشری کرشن ورما بحوالہ مرقع بنارس) ایک دوسرامؤرخ لکھتاہے کہ’ جدوبیسیوں دوارکا سے آکرراجہ پنڈایک کو شکست دی اور شہر بنارس کولوٹ کر آگ لگادی‘ ایک تیسرامؤرخ یوں بیان کرتاہے’ راجہ دیوداس نے گنیش کی مورتی توڑی ،نیک مکھیہ کی بدعا سے بنارس نگری برباد ہوئی‘ راجہ شیش ناگ کا تذکرہ آچکاہے ،بابوکرشن ورما نے یہ بھی لکھاہے’ مگدھ کے راجہ شیش ناگ نے کاشی نریش کو شکست دے کر شہرپر قبضہ کرلیا اورگیان بافی پٹواکر اپنی خانقاہ بنوائی ‘۔
شنکراچاریہ نے بودھ ازم کو شکست دی :ان مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے کاشی میں مندروں کومسمار کیا جاتارہاہے، بودھوں نے جومورتی پوجا کے مخالف تھے چن چن کر مورتیوں کوتوڑا اور مندر وں کومسمارکیا ہے اورہندوراجاؤں نے بھی بعض مندروں کومال کی لالچ میں بلاجھجک تاراج کیا ہے ،اورگیان بافی کی مسجد کی جگہ ایک باؤلی تھی جس پربدھسٹوں کی ایک خانقاہ پاٹ کربنائی گئی تھی، اوراس زمانہ میں گیان ودھیان کاوہ اہم مرکز تھی ،اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس مرکز روحانیت کوکب اورکس نے تباہ وبربادکیا اوراس کے تقدس کوپامال کیا،یہ داستان بھی تاریخ کا بڑا کرب ناک باب ہے، بدھسٹوں نے بنارس میں جوکچھ کیاتھا شنکر اچاریہ کی قیادت میں برہمن قوم نے راجپوتوں سے مل کر ان کااس طرح استیصال کیا کہ پڑھتے وقت آنکھیں نم اور پیشانی شرم سے جھک جاتی ہے، سوامی شنکراچاریہ کازمانہ پیدائش890ء کے قریب بتایاجاتا ہے، تیسری صدی ہجری کا زمانہ ے ،اسی زمانہ میں مشہور مؤرخ مسعودی ہندوستان آیاہے، شنکراچاریہ کی پیدائش مالابار موجودہ کیرالا میں ہوئی تھی اوراس وقت تک مالابارکے ساحل پر اسلامی کارواں پہنچ چکاتھا، اوراسلام کی نشرواشاعت کاکام تیزی سے ہورہاتھا، مالابار کی تقریباً دس فیصدآبادی مسلمان ہوچکی تھی، مسلم تاجروں نے مالابار سے لے کر جاوا سماترا تک اورمدراس کے ساحلی علاقوں کواپنی تجارت اوراسلام کی دعوت ونشر واشاعت کے لئے اپنی کوششوں کامرکز بنا لیاتھا، ان کی خوش اخلاقی، عدل وانصاف، معاملات میں دیانت وامانت کی وجہ سے بڑی تیزی سے مقامی آبادی اسلام کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہی تھی، ایسے وقت میں سوامی شنکر اچاریہ نے جوآرین نسل سے تھے انہیں اپنی قوم کی فکر ہوئی لیکن مسلمانوں سے وہ نہیں الجھے بلکہ انہوں نے بازیگاہ شمالی ہند کوبنایاورپوری قوت کے ساتھ بودھ ازم کے خلاف جدوجہدشروع کردی، آرین اپنے آپ کوموحد کہتے تھے، اور بدھسٹوں میں امتداد زمانہ کی وجہ سے گوتم بدھ کی مورتی کی پوجا کارواج ہوگیاتھا ،اس کے خلاف شنکراچاریہ کی جدوجہد جنوبی ہند سے نکل کر شمالی ہند کے میدانی علاقوں تک پھیل گئی، بودھ ازم کی پسپائی ہوئی اورہندومذہب کونئی توانائی اورزندگی نصیب ہوئی، تاریخ آئینہ حقیقت نما کے مصنف نے اس موقع پر جوکچھ لکھاہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
’’شنکراچاریہ نے جب بودھوں کے خلاف جہاد کیااورنوزائیدہ برہمن مذہب کی تائید شروع کی، تو راجپوتوں کی اس جدید قوم اورجدید طاقت نے شنکر اچاریہ کی خو ب اعانت کی اورشنکر اچاریہ نے راجپوتوں کی طاقت سے فائدہ اٹھانے میں خوب مستعدی دکھلائی،راجپوتوں کے بارے میں اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ وہ اصلامغول نسل کے ترکمانی تھے ان کوسیاسی طورپر ہندومذہب میں قبول کیاگیا، اس لئے کہ وہ بہت جفاکش بہادر لوگ تھے، مرقع بنار س کے مصنف نے صفحہ57 پر لکھا ہے کہ جب بودھ مذہب مسخ ہوگیا اوربت پرستی عام ہوگئی توبرہمنوں نے میدان میں آکر بودھوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے اورمنو کے زمانے کے برہمنی اقتدارکوپھر واپس لانے کی کوشش کی اور چونکہ ان کاانحصارجنگی قوت پرتھا اس لئے بودھوں کے مذہب اورحکومت کومٹانے کے لئے مغلوں تاتاریوں کے جنگجو قبائل اورشودروں کے حوصلہ مندلوگوں کوراجپوت کاخطاب دے کر ان سے وہ کام لیا جو چھتریوں سے لیناچاہئے تھالیکن ان کی نسل پر سرام جی نے نیست ونابودکردی تھی اس لئے بودھوں کی بربادی کے لئے راجپوت قوم بنائی گئی ،(مرقع بنارس صفحہ 56؍57)
راجپوت مغول نسل کے ہیں : برہمنوں کی تربیت زدہ راجپوت قوم کی بابت مسٹر کے ایم پاٹنکار مصنف ’تاریخ ہند‘ لکھتے ہیں’ آٹھویں اورنویں صدی میں راجپوت قوم کا ستارہ چمکا،ان کانسب اوران کی قومیت تاریخ ہند کا لایحل معمہ تھی اوران کی اصل ابھی تک سربستہ راز بنی ہوئی تھی ،غالباً زیادہ تر راجپوت مغول یعنی تاتاری فاتحین کی نسل سے ہیں، قوم مرور ایام سے ہندومذہب اورہندو تہذیب اختیارکرکے آریہ ورت کے فرزندوں میں داخل ہوچکی تھی، بعدمیں یہ آنیوالے قبائل آریہ مذہب میں داخل ہوکر راجپوتوں کے نام سے مشہورہوگئے،اس کے علاوہ ایسی ذاتیں بھی راجپوت قوم میں شامل ہوگئیں، جو ہندوستان کے قدیم باشندوں سے تعلق رکھتی ہیں ‘(آئینہ حقیقت نماصفحہ129) اسی راجپوت قوم کی بابت لالہ لاجپت رائے آنجہانی تحریرفرماتے ہیں’ اس میں شک نہیں کہ موجودہ ہندوسوسائٹی میں بہت سے ایسے آدمی شامل ہیں جوخالص آریہ نسل کے نہیں ہیں اورجن کوہندوؤں نے اپنے مذہب میں شامل کرکے اپنی سوسائٹی کامنفردممبر بنالیا، اس طریقہ سے انہوں نے بہت سی ایسی قوموں کوبھی ہندو سوسائٹی میں داخل کرلیا ہے جواس ملک کے ابتدائی باشندوں گونڈ اوربھیل وغیر ہ سے ہیں ، یوروپین مؤرخین اقوام جاٹ ،اہیراورگوجر بھی ترکمانی قبیلوں میں گنتے ہیں ‘ (مرقع بنارس صفحہ58)
شنکراچاریہ نے راجپوتوں کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی، قنوج بنارس اور دامن کوہ تک برہمنوں اورراجپوتوں کاقبضہ ہوگیا ،چونکہ شنکراچاریہ جدید مذہب کامقنن اورمصنف تھا ،لہٰذااس کی تعلیمات خصوصی وسعت کی نظر سے دیکھی گئیں چونکہ برہمنوں کی مجوزہ تحریک ایک سیاسی تحریک تھی لہذا جابجا نئے مذہبی اسکول قائم ہوئے، کہیں وشنو کوسب سے بڑا اوتارماناگیا اورکہیں برہما اورگنیش کواسطرح ہندو مذہب کے نام ہزار ہا فرقہ پیداہوگئے جن میں کوئی اصول اتفاق بجز لفظ ہندو کے پایانہیں جاتا ‘ (مرقع بنارس صفحہ57)شنکراچاریہ کی انتقامی کاروائی :سوامی شنکر اچاریہ نے بڑی ذہانت سے برہمنوں کے قدیم مذہب اورمنوسمرتی کے قوانین کا ایک ایسا آمیزہ تیارکیا جس میں اسلام کی توحید کا قلم بھی لگایاگیاتھا، اس نئے مذہب کاحقیقی بانی دراصل یہی شنکر اچاریہ ہی تھے ‘غلبہ حاصل کرلینے کے بعد بودھوں کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا راجہ شیوپرسادکی زبانی سماعت فرمائیے وہ لکھتے ہیں،’سوامی شنکر اچاریہ کوبرہمن لوگ خود شنکر یعنی مہادیو کا اوتارمانتے ہیں، سوامی شنکر اچاریہ نے غیر مذہب والوں کوخوب درست کیا، مثل مشہورہے ’الناس علی دین ملوکھم‘رعایااپنے بادشاہ کے مذہب پرہوتی ہے،بس جوبدھ پرست رہ گئے تھے۔ (جاری)
، سب ہندوستان سے نکالے گئے یا وید کے پیرو بنائے گئے ،بودھو ںکے سب وہار خانقاہ اورمندر توڑے گئے اورپھونکے گئے، ان کی جگہ شیوکی مورت قائم ہوئی، یہاں تک کہ کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک پھربرہمنوں کی پوجاہونے لگی، لیکن شنکراچاریہ کویقین کامل ہوگیاتھا کہ اتنے دنوں بودھ کادین رہنے کے بعد اب ٹھیک ویدکے دین پر قدم بہ قدم چلنااور یگ ہوم وغیرہ پر پورااعتقاد لانا لوگوں کو دشوار ہوجائے گا اس واسطہ زمانہ حال کے بموجب سوامی ہی نے ایسی شرحیں اورپوتھیاں ایجاد کیں جن کے اوپر سب کادل دوڑے اوربودھ کادین چھوڑکر وید اختیار کرلینا گراں نہ گزرے، پوتھیاں بھی بہت پرانوں کے نام سے نئی نئی بن گئیں ،کچھ نئی میں پرانی ملائی گئیں، کچھ پرانی میں نئی شامل کی گئیں، لیکن سوامی شنکر اچاریہ بتیس سال سے زیادہ زندہ نہیں رہے اوراکثر کام ادھورے رہ گئے، آگے رقمطرازہیں’ بنارس میں خانقاہ بربادہوگئیں ،سارناتھ ،قنوج، اورالہ آباد میں بودھوں کے مندر اور ستون منہدم کیے گئے، بودھ پرست ہندوستان سے خارج کیے گئے یا زبردستی ویدکے پیرو بنائے گئے،ان تمام ذرائع کواستعمال کرنے کے بعد برہمن انپے کھوئے ہوئے اقتدارکی واپسی کا خواب دیکھنے لگے،(آئینہ حقیقت نماص ۱۳۲؍ ماخو ذ از مرقع بنارس ص ۶۰)
شنکراچاریہ کے انتقال کے بعد :بودھوں کے خلاف شنکر اچاریہ کی زیر قیادت جو قتل وغارتگری کابازارقائم ہوا تھا وہ شنکر اچاریہ کے انتقال کے بعد بھی پورے طورپر جاری رہا، اوراس میں کسی ہمدردی سے کام نہیں لیا جاتا، چنانچہ آگے صفحہ ۶۲؍پرلکھتے ہیں’برہمن جدید فرقہ قائم کرکے ان کوجدید مذہب کے نام سے رواج دینے لگے، اورجہاں موقع ملا بودھوں کو قتل اورجلاوطن کرنے کی کاروائیاں عمل میں لاتے رہے ،شیو کے پرستار ،وشنوکے پرستار گندھرپ وغیرہ کے پرستار غرض کہ سینکڑوں فرقہ بودھ مذہب کی جگہ پیدا ہونے لگے۔‘
بنارس کی تباہی :اس کاذکرآچکا ہے کہ راجہ شیش ناگ بودھا نے مگدھ سے آکر بنارس کو صرف اس لئے تاراج کیا تھاکہ وہ برہمن ازم کا زبردست مرکز تھا ،ہندوؤں میں اس کاتقدس قائم تھا، وہ کاشی کونور اور روشنی کامرکز سمجھتے تھے، لہذا اس کی تباہی حقیقت میں برہمن ازم کے خاتمہ کے مرادف تھا، اس لئے دشت غزالاں سارناتھ کوبودھ کامرکز مان کر اس کی مرکزیت کوفروغ دینے میں اس قدیم شہرکی ویرانی بھی پیش نظرتھی لیکن جب بودھ ازم کو فروغ ہوا اوراس شہر میں ان کی خانقاہیں بڑے پیمانے پر قائم ہوگئیں تواس شہر نے بودھ ازم کے نظریات کے ساتھ ترقی کی ،لیکن چرخ کہن کوابھی ایک اورخون آشام دورکامشاہدہ کرناتھاجو سوامی شنکر اچاریہ کی آمد اورزبردست انتقامی کاروائی کے ساتھ ظہورپذیر ہوا ،یہ نویں صدی عیسوی کازمانہ ہے، اس پرآشوب زمانہ میں گیان بافی کایہ مرکز بھی کھنڈر بن کر رہ گیا، اورایک عرصہ تک دشت وحشت بنارہا۔
جامع مسجد گیان واپی کی تعمیر :گیان واپی کی مسجد شاہان شرقیہ کے زمانہ میں تعمیرہوئی اوردلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر نہ کسی بادشاہ نے کرائی ہے اورنہ عوامی چندے سے ا سکی تعمیرہوئی بلکہ اس کی تعمیرکاسہرا قاضی صدر جہاں جوابراہیم شاہ شرقی کے زمانہ میں صدرالصدور کے منصب پرفائز تھے ان کے ایک عزیز شاگرد کے سرہے جنہوں نے اس وسیع اراضی کوجو ویران پڑی ہوئی تھی آباد کرنے کی کوشش کی اورایک مسجد کی بنیاد رکھی ،مرقع بنارس کے مصنف نے لکھا ہے’ یہ واقعہ ہے کہ سلطان ابراہیم شرقی جونپور کے صدرالصدور قاضی صدرجہاں اوران کے ایک متمول شاگرد نے نویں صدی ہجری میں یہ جامع مسجد حضرت عالمگیر ؒ کے جد امجد ہمایوں بادشاہ کے عالم وجودمیں آنے کے بہت پہلے بنوائی۔ ‘ (مرقع بنارس ص ۲۴)
جامع مسجد کے سابق خطیب واما م مفتی عبدالباسط نے اس مسجد کی تاریخی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے ایک کتابچہ میں اس کی تعمیرپر یوں روشنی ڈالی ہے’ اس کی تعمیرکازمانہ۸۰۴ھ اور ۸۴۲ھ کے درمیان ہے، یعنی اس کی تعمیر نویں صدی ہجری کے نصف اول میں ہوئی جبکہ عالمگیر ؒ کی حکومت کازمانہ گیارہویں صدی ہجری کانصف اخیر ہے ،اس طرح یہ مسجد اورنگ زیب عالمگیرؒ سے دوسو برس پہلے تعمیر ہوچکی تھی، اوراس میں باقاعدہ نمازجمعہ ہوتی تھی، مغلیہ دور کی ایک تاریخ جوفارسی زبان میں ہے اس مسجد کی تعمیرکاذکرہے ‘ (تاریخ کے آئینہ میں ص۸؍)
چنانچہ مصنف ’تذکرۃ المتقین فی احوال خلفاء سید بدیع الدین قطب المدار سیدامیر حسین صاحب طیفوری ص ۱۸۵؍پرلکھتے ہیں’از تلمیذان (قاضی صدرجہاں) شیخ سلیمان محدث ازمتمول محدثین بودہ ،دراکثرامرہا ء مساجد جامع کثیرالعمارات اساس نمودہ چنانچہ دربنارس تاایں زماں موجود است ونماز جمعہ ہمانجا ادامی شود، دور جونپور در محلہ سپاہ مسجدے برساحل دریا بناکر دہ طاقے بلند از نشانہائے باقی ماند ،درزماں سلطان حسن شرقی سفرآخرت دمے راپیش آمد ‘ ترجمہ:قاضی صدر جہاں (۸۰۴ھ ۸۴۲ھ)کے ایک مالدار شاگرد شیخ سلیمان محدث تھے انہوں نے متعدد شہروں میں مسجدیں تعمیر کیں ،انہوں نے بنارس میں بھی ایک مسجد تعمیرکی جس میں نمازجمعہ ادا کی جاتی ہے، انہیں شیخ سلیمان محدث نے جونپور شہر کے محلہ سپاہ میں بھی ایک مسجد گومتی کے ساحل پر تعمیرکی اس کے نشانات آج تک باقی ہیں، ان کی وفات سلطان حسن شرقی کے زمانہ میں ہوئی۔
شہنشاہ اکبرکازمانہ :اکبربادشاہ کازمانہ جب شروع ہوا تواس مسجد کی تعمیر پر تقریباً سو برس گزرچکے تھے، اوراس مسجد کی حیثیت بنارس کی جامع مسجدکی تھی، دوردراز سے لوگ نماز کے لئے یہاں آتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مسجد اکبرکے دین الٰہی کامرکز بن گئی تھی، اسی زمانہ کاایک تاریخی واقعہ ہے جس کوکم وبیش اس موضوع پر لکھنے والے سارے ہی اہل قلم نے تحریرکیا ہے جس سے اس کاثبوت ملتاہے کہ یہ جامع مسجد اکبرکے زمانہ میں تعمیرشدہ تھی اورآبادتھی، اس کی تفصیل اس دور کے ایک مشہور بزرگ شیخ ارشد جونپوری متوفی ۱۱۱۲ھ کی زبانی سنئے جوعالمگیرکے دورحکومت میں تھے وہ یوں رقمطرازہیں’ شاہ صاحب (طیب بنارسی متوفی ۱۰۴۲ھ خلیفہ مجاز مولانا عبدالحق محدث دہلویؒ ۱۰۵۲ھ شہرکی جامع مسجد گیان بافی میں نمازجمعہ اداکیا کرتے تھے، ایک بارجب خطیب نے خطبہ جمعہ میں شہنشاہ اکبرکانام لیاتواس کانام سنتے ہی شاہ صاحب کوجلال آگیا ،آگے بڑھ کر خطیب کومنبرسے کھینچ لیا اورفرمایا خطبہ میں کافر کانام لیتا ہے، اتفاق سے شاہ صاحب کے ہمراہ اس وقت ان کے دونوں شیوخ مولانا خواجہ کلاں اورشیخ تاج الدین جھوسوی بھی تھے، شہر کے قاضی اورحاکم توشاہ صاحب سے ان کی ہیبت اورجلال کی بناء پر کچھ کہہ نہ سکے البتہ ان دونوں بزرگوں نے کہاکہ وہ بادشاہ کے نوکر ہیں اگربادشاہ کومعلوم ہوجائے گاکہ خطبہ سے نام خارج کردیاگیاہے توملازمت جائے گی ہی ان کے مکانات بھی مسمار کرادیے جائیں گے ،اس لئے وہ خطبہ میں اکبرکانام لینے پرمجبورہیں، خواجہ کلاں نے کہا کہ شاہ صاحب! آپ نمازجمعہ بجائے جامع مسجد گیان بافی کے منڈوا دیہہ میں آئندہ سے اداکریں۔
ایوان شریعت کاقیام : اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کانہ صرف اکبرکے زمانہ میں وجود تھا بلکہ اس کی حیثیت ایک جامع مسجد کی تھی، جس میں ا س دورکے صلحائے امت دوردراز کے علاقوں سے نمازجمعہ کی ادائیگی کے لئے آتے تھے، مسجدکی یہ حیثیت برقراررہی یہاں تک کہ شاہ جہاں کے زمانہ میں جہاں بہت سے تاریخی عمارتیں بنائی گئیں وہیں بعض اہم مدرسہ بھی قائم کیے گئے، دہلی میں جامع مسجد سے متعلق ایک اہم مدرسہ دارالبقاء کے نام سے قائم کیاگیا، اسی طرح جامع مسجد گیان بافی کے زیرسایہ ایک اہم مدرسہ ’ایوان شریعت‘ بھی ۱۰۴۸ھ میں قائم ہوا، اورگیان بافی مسجد کے احاطہ میں اس مدرسہ کاقیام مشرقی اضلاع میں علم دین کی ترویج کااہم ذریعہ بنا، بڑے بڑے مشاہیر اس میں درس دیتے تھے ،کچھ دنوں کے بعدیہ عمارت گردش زمانہ کی نذرہوگئی، البتہ اس کے باقیات وہیں پڑے رہے ،جس میں وہ کتبہ بھی دستیاب ہوا جس پر’ایوان شریعت‘ کندہ تھا، جوآج بھی مسجد کی انتظامیہ کے دفترمیں موجود ہے۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ اور جامع مسجد گیان واپی : شہرکی آبادی کے پیش نظر جامع مسجد اپنی وسعت کے باوجود روزبروز تنگ پڑرہی تھی، ضرورت تھی کہ اس مسجدکی توسیع کی جائے، لہٰذا اورنگ زیب عالمگیر ؒ کے زمانہ میں اس مسجد کوخاص اہمیت دی گئی اورشہنشاہ اکبرکے زمانہ کی جامع مسجد کی عمارت پرموجودہ مسجد کی تعمیرہوئی جو سابقہ مسجد کے مقابلہ کافی وسیع اورلق ودق تھی،اس کے مشرق میں صدر دروازہ تھا اورمغرب کی طرف ایوان شریعت کی باقی پڑی ہوئی کھلی اراضی تھی جو آج بھی قائم ہے لیکن عملا مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں ہے۔
غلط فہمی کی وجہ : اس سے یہ معلوم ہواکہ اس مسجدکی تعمیر اورنگ زیب عالمگیرؒ کی پیدائش سے صدیوں پہلے مشرقی سلاطین کے زمانہ میں ہوئی تھی، البتہ اس کی توسیع کاکام اورموجودہ شاندارعمارت اورنگ زیب عالمگیرؒ کے زمانہ میں بنائی گئی اوراس کی تعمیر ثانی کاکتبہ بھی لگایاگیا جسے سید میراث علی نے جواس کے متولی تھے ۱۳۰۷ھ میں نصب کرایا یہ کتبہ جامع مسجد انتظامیہ کے دفترمیں اب بھی رکھا ہواہے جس پر یہ عبارت کندہ ہے ’اول بحکم والادر ھ (عبارت صاف نہیں) ازجلوس حضرت عالمگیر خلدمکاں ایں جامع مسجد تیارشدہ بعدہ در ۱۲۰۷ھ سیدمیراث علی متولی موروثی مسجد موصوفہ مرمت صحن وغیرہ نمود‘
مسجد شہیدکرکے بنائی گئی : اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتبہ بعد میں لگایاگیا اورموجودہ عمارت کی تعمیر اورنگ زیب عالمگیرؒ کے زمانے میں ہوئی، لیکن وہ اصل بانی نہیں ہیں اورنہ ہی کوئی مندرتوڑکر مسجد بنائی گئی ہے، بلاشبہ مسجد شہیدکرکے مسجد بنائی گئی ،لیکن افسوس کہ اس تاریخی حقیقت کے باوجودآج یہی سمجھا یا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ مسجد مہادیو جی کے مندر کے باقیات پر تعمیرکی گئی ہے جبکہ اسلام کی آمد سے بہت پہلے ہی بنارس کے مشہورمندروں کومسمار کیاجاچکاتھا، اوریہاں پرکوئی مندر تھا ہی نہیں اوراس حقیقت کوبنارس کے ہندومسلمان خوب سمجھتے تھے ،چنانچہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندومسلمانوں کے درمیان اس مسجد کے تعلق سے کبھی کسی نزاع کاپتہ نہیں چلتا ،سب شیروشکر ہوکررہتے تھے، لیکن انگریزوں نے اپنی’ لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلمانوں کولڑانے کے لئے جہاں اجودھیا کی بابری مسجد کے قضیہ کو پیداکیا وہیں بنارس کی اس تاریخی مسجد کوبھی وجہ نزاع بنانے کی کوشش کی، اوراس مسئلہ میں کبھی کسی قسم کی مصالحت کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ وہ اپنی باطنی بغض کی وجہ سے برابر اس کو ہوا ہی دیتے رہے اورہندومسلمان لڑتے جھگڑتے رہے ،ہندوؤں نے اس سلسلہ میں کسی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ انگریزوں نے جوکچھ لکھ دیا اس کوحرف آخرخیال کیا، اس سلسلہ میں بابوکرشن پرساد ورما کاتجزیہ کتنا درست ہے’ ہم بھارتیوں میں بڑی کاہلی اس بات کی ہے کہ ہم دوسروں کی لکھی ہوئی باتوں کودہراتے ہیں لیکن اصلیت دریافت کرنے کی تکلیف کبھی گوارہ نہیں کرتے، انگریزی مؤرخین نے اپنی تاریخ وہیں سے شروع کی ہے جہاں سے ان کی قومی تاریخ شروع ہوتی ہے، اس لئے بشناتھ مندر کی تاریخ اگرانہوں نے اورنگ زیب عالمگیرؒ کی مسجد کی تاریخ سے شروع کی تو اس میں ان کی بھول نہیں کہی جاسکتی ،ہم ہندوؤں کے یہاں پران گرنتھ سب سے پرانی تاریخ ہے، اور ان پرانوں میں اسکند پران کے اندرموجود ہ کاشی کھنڈ سب سے پرانی اور صحیح تاریخ ہے ،افسوس ہے کہ اس پرانی تاریخ کے ہوتے ہوئے ہم نے اب تک پرانے مندرکاپتہ نہیں لگایا۔ ‘ (بحوالہ مرقع بنارس ص ۱۷۷؍۱۷۸؍)
اس پرتبصرہ کرتے ہوئے نبی احمد سندیلوی لکھتے ہیں ’اس دلچسپ اورمدلل نوٹ کے پڑھنے کے بعدنتیجہ نکلتاہے کہ قدیم مندراس جگہ نہ تھا مگرانگریزی قبضہ کے بعدسیاحوں کوسمجھادیاگیا کہ اس مشہورمندر کی جگہ پرعالمگیر ؒ نے مسجد بنوالی اوراسی روایت پربھروسہ کرکے مؤرخین نے صفحہ کے صفحہ سیاہ کرڈالے حالانکہ مسٹرورما یقینی طورپر لکھتے ہیں کہ قدیم مندرکی یہ جگہ نہیں ہے کاشی کھنڈ یہ ثابت کرتی ہے کہ قدیم مندراس جگہ نہ تھا اورایک معتبر مصنف لکھتا ہے کہ جامع مسجد سلطنت مغلیہ سے قبل تعمیر ہوئی ہے، ایسی صاف شہادت کے مقابلے میں بازاری خبروں پر اعتمادکرنے کی وجہ کوئی سربستہ راز ہے ،(مرقع بنارس ص ۱۷۸؍)
سربستہ راز کیا ہے؟ سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ سربستہ راز کیا ہے جوآج تک حل نہ ہوسکا تو اس سلسلہ میں اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے سواکچھ نہیں کہ اس منافرت کے ذریعہ اقتدارکو مضبوط کیاجائے اوردہلی کا تخت مستحکم کیاجائے ،یہی انگریزوں نے کیا اورآج انہیں کے نقش قدم پرچل کر ملک کی فسطائی طاقتیں بھی کرنا چاہتی ہیں۔
آویزش کی ابتداء : سطوربالا سے پوری طرح یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سوامی شنکراچاریہ کے بنارس آمد کے موقع پر بنارس میں بودھوں کے خلاف جوانتقامی کاروائی کی گئی اس کی نذر گیان بافی میںوا بودھوں کی خانقاہ بھی ہوگئی تھی، پھریہ جگہ ویران پڑی رہی، تقریباً پانچ صدیاں گزرجانے کے بعد شیخ سلیمان محدث نے اس جگہ مسجدتعمیرکرائی، اسوقت وہاں نہ کوئی مندر تھا اورنہ ہی دیگرآبادیاں، اسی لئے ہندومسلمان جوایک ساتھ رہتے تھے، ان کے مابین کبھی اس مسجد کے تعلق سے کوئی تصادم نہ ہوا، لیکن جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرسایہ انگریزوں کاتسلط قائم ہوا اورروز بروز ان کی قوت برصغیرمیں مستحکم ہوتی گئی توانہوں نے نواب اودھ سے غازیپور،بنارس، اورجونپور کے مشرقی اضلاع بھی بزورحاصل کرلئے ، اوریہاں اپنا نمائندہ مقرر کردیا، بنارس کاناظم انگریزوں نے نواب ابراہیم علی خان کو مقرر کیا جنہوں نے اپنے زمانہ میں دھورہرہ کی جامع مسجد کی تعمیرجدیدکی، یہ مسجدبھی بڑی عالیشان ہے جوگنگا کے مشہورگھاٹ پنج گنگاگھاٹ کے پاس واقع ہے ،یہ مسجد خالص ہندوؤں کے محلہ میں واقع ہے، اس کے مینارے ایک سوبیالیس فٹ بلند تھے، انگریزوں نے ا س مسجد کے ذریعہ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات پیداکیے ان کی عزت وناموس پر بالواسطہ حملہ قراردیا، چنانچہ ایک انگریز سیاح لکھتاہے ’پنج گنگاگھاٹ والی مسجد خوبصورت اورسادی ہے، مسجد کی سطح سے میناروںکی بلندی ۱۴۲؍ فٹ ہے ،اوران کے بلند ہونے کاسبب یہ ہے کہ گھروں کی بے پردگی ہو اوروہاں کے حالات معلوم ہوتے رہیں (مرقع بنارس ص ۱۸۲؍)
یہ بھی لکھ دیاگیا ہے کہ وشنودیوتا کے ایک مندر کے مسالہ سے جوگنگاکے کنارے تھا یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے لیکن ابھی تک بات مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ یہ بات کہدی گئی، ’کہاجاتا ہے کہ اورنگ زیب ؒ نے تخت نشین ہونے کے ۱۰۶۷ھ گیارہویں سال ۱۰۷۹ھ میں بندیا ھو کے مندر کومنہدم کرکے یہ مسجد بنوائی ‘ ( کتاب کاشی مطبوعہ کرسچن سوسائٹی مدراس)
رانی اہلیا بائی کا کردار : بات ابھی یکطرفہ تھی اس مسجد کی آڑمیں بیک وقت دوشکار مقصودتھے ،چنانچہ رانی اہلیا بائی کو اشارہ دیاگیا کہ گیان بافی کے احاطہ میں جانب دکھن وشوناتھ مندر تعمیر کی جائے، انگریزوں کی شہ پر جب یہ کام شروع ہواتو مسلمانوں نے اس پراحتجاج کیا، لیکن اس کاجواب سنگینوں سے دیاگیا، اسی مسلمان شہیدہوگئے، اس کے ردعمل میں پورے شہرمیں زبردست فسادہوا، جس میں مسلمانوں کے جانی اورمالی نقصان کے ساتھ پچاسوں مسجدوں کوشہید کردیاگیا، یاشدید نقصان پہنچایاگیا، اوریہ سلسلہ مہینوں چلتارہا، انگریزوں نے زیر تعمیرمندر پرفوج لگادی اورمندرکی تعمیر فوج کی نگرانی میں مکمل ہوئی، اور اس طرح گیان بافی کایہ احاطہ ایک متنازعہ مقام بن گیا، اورہندومسلمان دونوں کوہمیشہ کے لئے مدمقابل لاکر کھڑاکردیاگیا، انگریزوں کی حکمت عملی کامیاب ہوئی ،وہ ایسی تاریخ چھوڑگئے جس کی عفونت سے زندگی کے صحت مند اجزاء متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
رفتہ رفتہ اس احاطہ میں کئی اورعمارتیں مسجد سے بالکل متصل مزیدبنائی گئیں، مسجد کامشرقی صدردروازہ بندکردیاگیا، بالآخرمسلمانوں کو شمال میں ایک چھوٹا سادروازہ آمدورفت کے لئے کھولنا پڑا جو آج بھی قائم ہے، مسجدکے مغربی حصہ پربھی جہاں ایوان شریعت کے باقیات تھے عملاً قبضہ کرلیاگیا اور پھر پوری ڈھٹائی سے یہ دعوی کیاجانے لگا کہ یہ مسجد اصلا مہادیو جی کے مندرپرواقع ہے، اور اورنگ زیب عالمگیرؒ نے اپنے عہد میں اس کوتوڑکر بنایاہے، آج انگریزوں کالگایاہوا یہ شیطانی درخت تناور ہوچکاہے، اورایک جماعت مسلسل اپنے جھوٹ اورفریب سے اس کوسینچے جارہی ہے، اوراس طرح ملک کاامن وامان خطرہ سے دوچارہے، یہ ملک وقوم کے ساتھ بے وفائی اورغداری ہے کہ قوم کو صحت مند رجحانات سے دوررکھا جائے ،چونکہ ملک کوبابری مسجد کی شہادت کی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے لہٰذا ارباب حکومت کو چاہئے کہ یہ سبق نہ دہرایاجائے اورہرایسے عناصرپر کڑی نظررکھی جائے، تاکہ ملک ترقی کرے اوردنیامیں سب سے بڑی جمہوریت کے عنوان سے اس کی قدر وقیمت باقی رہے۔
9984778800,8299241210
٭٭٭٭