’کیا ہوا، ہم رُک کیوں گئے؟‘میں نے گاڑی چلانے والے فوجی سے پوچھا۔ اُس نے آگے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’سامنے دیکھیں۔‘ذرا غور سے دیکھا تو سڑک پر ایک چھپکلی نما بڑا سا دمُ دار جانور آہستہ آہستہ سڑک پار کر رہا تھا۔ فوجی نے کہا ’اسے اگوانا کہتے ہیں، جن کا یہاں ہمیں بہت خیال کرنا پڑتا ہے۔‘گہری سبز رنگت والا یہ اگوانا کوئی پندرہ، سولہ سینٹی میٹر لمبا ہو گا۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز مزے سے سڑک پار کرتا رہا اور ہم گاڑی میں بیٹھے اسے تکتے رہے۔ آس پاس نظر دوڑائی تو جگہ حسین اور پُرفضا تھی۔ پہاڑیوں پر جھاڑیاں اور کیکٹس کے پودے نظر آئے، ان سے آگے صاف ستھرا ساحل اور پھر ہر طرف نیلا سمندر۔ پل بھر کو خیال آیا کہ کیوبا کے جنوبی کونے پر قائم امریکی بحریہ کا یہ اڈہ اگر بدنام زمانہ جیل نہ ہوتا تو سیر و تفریح کا زبردست مقام ہو سکتا تھا۔ لیکن امریکی بھی ایک عجیب ہی مخلوق ہیں۔ گوانتانامو بے میں قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کے لیے دنیا میں بدنام ہو رہے تھے لیکن یہاں انھیں زیادہ فکر اگوانا کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کے بارے میں تھی۔ حراستی مرکز میں تشدد کے نت نئے طریقوں کے نتیجے میں قیدی نفسیاتی مریض ہو جائیں یا جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں، پرواہ نہیں۔ لیکن اگر غلطی سے بھی کوئی اگوانا کسی فوجی گاڑی کے نیچے آ جائے تو ڈرائیور پر دس ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد ہوتا تھا۔ امریکی فوجیوں کے ساتھ گوانتانامو بے کے اس ’گائیڈڈ ٹور‘کے دوران ہمیں بارہا سائن بورڈ نظر آئے جن پر درج تھا: ’یہاں پر اگوانا کو نقصان پہنچانا، مارنا یا کھانا غیرقانونی ہے۔‘
لیکن گوانتانامو بے میں قانون کی کیا اوقات؟ یہاں پر تو خود امریکہ کے بقول دنیا کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، نہ جنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنوینشن، نہ انصاف کے تقاضوں سے متعلق امریکہ کے اپنے قوانین۔ لیکن پھر بھی یہاں اگوانا کے تحفظ پر بہرحال کوئی سمجھوتہ نہ تھا۔ یہ بات ہے سنہ 2007 کے اوائل کی جب میں بی بی سی کے واشنگٹن بیورو سے کام کر رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو پانچ سال سے زیادہ ہو چکے تھے۔ بُش انتظامیہ بگرام کے عقوبت خانے اور دیگر اتحادی ممالک میں سی آئی اے کے ٹارچر سیلوں کے حوالے سے مسلسل تنقید کی زد میں تھی۔ عراق کے ابو غریب جیل میں قیدیوں کے جنسی استحصال کا سکینڈل بھی منظر عام پر آ چکا تھا اور گوانتانامو بے میں قیدیوں کے ساتھ مظالم کے قصے امریکہ کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا چکے تھے۔
گوانتانامو بے کے خلاف عالمی احتجاج میں عمران خان بھی اپنا حصہ ڈال چکے تھے۔ انھوں نے مئی 2005 میں گوانتانامو بے میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی سے متعلق امریکی جریدے’نیوز ویک‘کی ایک خبر پر ایک اشتعال انگیز پریس کانفرنس کی، جس کے بعد پاکستان اور افغانستان میں پُرتشدد مظاہروں میں 17 لوگ مارے گئے اور بہت سے زخمی ہو گئے تھے۔
گوانتانامو بے پر بڑھتی ہوئی عالمی بدنامی کے جواب میں بش انتظامیہ نے ایک حل یہ بھی نکالا کہ صحافیوں کو گوانتانامو بے لے جا کر کچھ ’مثبت رپورٹنگ‘کروائی جائے۔ جب ایسے ہی ایک دورے پر گوانتانامو بے جانے کا ایک موقع میرے ہاتھ آیا تو پہلے میں سوچ میں پڑ گیا کہ جانا چاہیے بھی یا نہیں۔ بطور صحافی میں پابندیوں کے تحت کرائے جانے والے اس قسم کے دوروں کا حامی نہیں۔ لیکن گوانتانامو بے کی اہمیت، اس پر جاری عالمی مذمت اور اس میں پاکستان کے متنازع کردار کے مدنظر میں نے وہاں جانے کے لیے خود کو آمادہ کر لیا۔
مجھے بتایا گیا کہ اُس وقت تک پاکستان کا کوئی صحافی وہاں نہیں گیا تھا۔ میرے لیے یہ تعجب کی بات تھی کیونکہ گوانتانامو بے لائے جانے والے قیدیوں کی بڑی تعداد کو پاکستان کے انٹیلیجنس حکام اور سکیورٹی فورسز نے پکڑ پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا تھا اور اس کے عوض بطور انعام ڈالر لیے۔ اس کی بڑی مثال پاکستان میں اس وقت طالبان کے آخری سفیر مُلا عبدالسلام ضعیف کی ہے، جنھیں پاکستانی حکام نے اسلام آباد سے حراست میں لے کر امریکی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
بہرحال میرے اس دورے کی اجازت امریکی محکمہ دفاع سے جاری ہوئی۔ ہم پہلے واشنگٹن ڈی سی سے ریاست فلوریڈا پہنچے، جہاں سے ہمیں امریکی فوج کے ایک چھوٹے سے جہاز میں سمندر کے اوپر پرواز کرتے ہوئے گوانتانامو بے پہنچایا گیا۔
چار دنوں کے اس دورے میں امریکی فوجی سائے کی طرح ہمارے ساتھ رہے۔ ہمیں حراستی مرکز کے مختلف وارڈ گھمائے پھرائے گئے، وہاں کا کچن دکھایا گیا، لائبریری گھمائی گئی اور قیدیوں کے لیے دوسری سہولیات دکھائی گئیں۔ تاہم ہمیں وہاں قیدیوں سے بات کرنے یا ان کی تصاویر لینے کی اجازت نہیں تھی اور ہم انھیں دور دور سے ہی دیکھ سکے۔ انتہائی سخت وارڈ کے آہنی دروازوں میں اندر جھانکنے کے لیے صرف کھڑکی تھی، جن کے پیچھے سے قیدیوں کی نظریں ہمارا تعاقب کرتی نظر آئیں۔ ہم ٹھیک سے انھیں نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن وہ باہر سے جیل گھومنے آنے والوں کو دیکھ رہے تھے۔
بتایا گیا کہ کہنا ماننے والے اور نسبتاً اچھا بن کر رہنے والے قیدیوں کو ورزش، چہل قدمی اور کھیل کود کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہمیں وہاں باسکٹ بال اور بیس بال کورٹ نظر آیا۔ ایسے قیدیوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور بات چیت کی بھی اجازت ہوتی ہے۔
اور جو ’تعاون‘نہیں کرتے؟ بتایا گیا کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ ان کے کمروں میں کوئی کھڑکی نہیں ہوتی، نہ باہر سے کوئی روشنی آتی ہے نہ کچھ دکھائی دیتا ہے۔ وہ سورج کی روشنی کو ترستے ہیں۔ ان کے وارڈوں میں تیز لائٹیں ہر وقت روشن رہتی ہیں۔ انھیں یہ احساس نہیں رہتا کہ باہر دن ہے یا رات۔ سی سی ٹی کیمرے ہر وقت ان پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ سو رہے ہوں، کھا رہے ہوں یا بستر کے برابر زمین میں نصب کھلے کموڈ پر بیٹھے ہوں۔ انتہائی خطرناک قرار دیے جانے والے ایسے ایک وارڈ میں چلتے چلتے باہر سے اندر نظر پڑی تو چھوٹے سے کمرے کے اندر موجود قیدی تیز تیز چکر لگاتے اور زور زور سے اپنے آپ سے باتیں کرتے نظر آئے۔ جن چند ملزمان کو دیکھ سکا ان تمام کے تمام نے لمبی داڑھیاں چھوڑ رکھی تھیں۔
امریکیوں سے جاننا چاہا کہ آخر ان قیدیوں کا یہاں وقت کیسے گزرتا ہے؟ کہا یہ نماز پڑھتے ہیں اور پھر قرآن۔ پھر نماز پڑھتے اور پھر قرآن۔ بس یہاں ان کے پاس عبادت کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ جو تعاون کرتے ہیں انھیں ہم تسبیح، جائے نماز اور قرآن مہیا کرتے ہیں۔ جو بدتمیزی کرتے ہیں اور گارڈز کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، ان پر سختی کی جاتی ہے اور یہ سہولتیں واپس لے لی جاتی ہیں۔ امریکیوں کے مطابق یہ تمام ملزمان دنیا کے خطرناک ترین دہشت گرد تھے، جن میں نائن الیون حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد، رمزی بن الشبہ، عمار البلوشی، مصطفیٰ الحوثاوی اور واحد بن اتاش جیسے ملزم شامل تھے۔ لیکن گوانتاناموبے میں امریکی فوجی ٹرائییونل کے ریکارڈ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوا کہ ان میں کئی لوگ ایسے تھے جن کا دہشت گردی سے دور دور تک تعلق نہیں تھا اور انھیں حکام نے غلط معلومات، مقامی دشمنیوں یا پھر پیسے کی لالچ میں آ کر امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ ایسے بےشمار بے گناہ لوگ کئی کئی سال تک گوانتانامو بے میں بغیر مقدمے اور بغیر دفاع کے کسی قانونی حق کے قید رکھے گئے۔
گونتانامو بے میں قید تنہائی اور ذہنی تشدد سے تنگ آ کر کئی قیدیوں نے بارہا ہفتوں تک بھوک ہڑتالیں کیں اور خودکشیوں کی کوشش بھی کیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی طرف سے مسلسل تنقید ہوتی رہی لیکن صدر بش کی حکومت کی ’دہشت گردی کے خلاف‘جنگ میں گوانتانامو بے کو ناگزیر قرار دیا جاتا رہا۔
بعد میں صدر براک اوباما نے یہ جیل خانہ بند کر کے قیدیوں کو امریکی جیلوں میں منتقل کر کے ان پر وہاں مقدمات چلانے کا اعلان کیا لیکن کانگریس کی طرف سے سخت مخالفت کے باعث وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے بعد جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو انھوں نے ایک بار پھر گوانتانامو بے کو غیرمعینہ مدت تک قائم رکھنے کا اعلان کیا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اس جیل میں کُل 780 افراد قید کیے گئے، جنھیں کئی کئی سال قید رکھنے کے بعد رفتہ رفتہ واپس ان کے ملکوں کی تحویل میں دے دیا گیا لیکن 20 سال بعد آج بھی وہاں کوئی 39 ملزمان قید ہیں اور موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے ان کی خواہش ہے کہ ان کے دور حکومت کے اختتام سے پہلے امریکہ کا یہ بدنام زمانہ حراستی مرکز ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔