گڈس اینڈسروسیز ٹیکس(جی ایس ٹی )کاکلیکشن نیا نیا ریکارڈ بنارہاہے ۔یکم جولائی 2017 میں ویٹ کی جگہ لینے والا جی ایس ٹی کاکلیکشن ہر سال بلکہ ہر مہینہ بڑھتاجارہاہے ۔ یکم جولائی کو جی ایس ٹی ڈے کے طورپر بھی منایا جاتا ہے ۔ اس نے مرکزی اورریاستی کثیر جہتی تما م ٹیکسوں کی جگہ لی۔ یہ اوربات ہے کہ خود جی ایس ٹی میں 4طرح کے ٹیکس سی جی ایس ٹی ، ایس جی ایس ٹی ، آئی جی ایس ٹی اوریوٹی جی ایس ٹی ہوتے ہیں، لیکن یہ ایسے نہیں ہوتے جیسے پہلے ہواکرتے تھے ۔ صفر، 5، 12،18 اور 28فیصد کے5 سلیب میں نافذ جی ایس ٹی کاکلیکشن پچھلے ماہ مئی میں16.4 فیصد بڑھ کر.01 2لاکھ کروڑ رہا، جو اس سے پہلے اپریل کے مقابلہ میں حالانکہ بہت کم ہے، کیونکہ اپریل میں جی ایس ٹی کا کلیکشن 2.37 لاکھ کرورڑ تھا ، جو اب تک سب سے زیادہ تھا ۔جی ایس ٹی کے کلیکشن میں ماہانہ کمی یا اضافہ ہوتارہتا ہے، لیکن وصولی اتنی ہوتی ہے کہ کمی بھی ہو، تو وہ خبر نہیں بنتی ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ جی ایس ٹی سرکاری خزانے کو بھرنے میں اتنااہم رول اداکرے گا۔ شروع میں جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی ، اس کی آمدنی دیکھ کر اب وہ بھی خاموش رہتے ہیں ۔اسی لئے اب جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ ہنگامہ خیز نہیں ہوتی ۔اتنے اختلافات سامنے نہیں آتے ، جتنے شروع میں دیکھنے کو ملے تھے۔یہ بھی غور طلب امرہے کہ اشیاپر جی ایس ٹی کی شرح میں کمی واضافہ تو کیا جاتاہے ،لیکن سلیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی ہے، حالانکہ کئی بار ایسی خبریں آئیں کہ سلیب میں تبدیلی کی جاسکتی ہے ،کسی سلیب کوختم کیا جاسکتاہے، یا اسے دوسرے میں ضم کیا جاسکتاہے ،لیکن عملی طور پرایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سرکارکی آمدنی پر اس کا اثر پڑے اورلوگوں کو پریشانی کاسامنا کرناپڑے ۔
جی ایس ٹی کے ذریعہ مرکزی حکومت کو بھی خوب آمدنی ہورہی ہے اورریاستی حکومتوں کو بھی ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک میں جی ایس ٹی کے نفاذ کو 8سال ہوگئے ، لیکن تمام ریاستوں میں اوسط نمو یا ترقی کی رفتار یکساں نہیں ہوسکی ۔ ریاستوں میں جی ایس ٹی کے کلیکشن میں اضافہ تو ہورہاہے ، لیکن کہیں کم کہیں زیادہ کی شرح ہے ۔ہوسکتاہے کہ اس کی وجہ موسمی یا علاقائی عوامل ہوں یا خرید وفروخت میں فرق ہو، کیونکہ ہرریاست میں نہ تو موسم یکساں رہتا ہے اورنہ لوگوں کی قوت خرید یکساں ہوتی ہے ۔اس لئے کہیں اشیاکی خریدوفروخت زیادہ ہوتی ہے، تو کہیں کم اوراس کا سیدھا اثر جی ایس ٹی کے کلیکشن پر پڑتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر، مغربی بنگال، کرناٹک اور تمل ناڈو جیسی بڑی ریاستوں میںجی ایس ٹی کلیکشن میں 17 سے 25 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ گجرات، آندھرا پردیش اور تلنگانہ جیسی بڑی ریاستوں میں6 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ کچھ ریاستوں جیسے مدھیہ پردیش، ہریانہ، پنجاب اور راجستھان میں جی ایس ٹی کی وصولی میں اوسطاً 10 فیصد اضافہ ہوا، لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہرریاست میں جی ایس ٹی کے کلیکشن میں اضافہ ہی درج کیا جارہاہے ۔ نہ تومینوفیکچرنگ میں کمی آرہی ہے اورنہ خریدوفروخت میں ۔سسٹم کچھ اس طرح کام کرتاہے کہ مرکزی اورریاستی حکومتوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔پھر بھی اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اوسط نمو یا ترقی کی رفتار ہر ریاست میں یکساں کیوں نہیں ہورہی ہے ، کیونکہ کچھ ریاستیں آگے بڑھ جاتی ہیں اور کچھ پیچھے رہ جاتی ہیں ، جبکہ ٹیکس کا سسٹم ہر جگہ یکساں ہے ۔اگر ہر جگہ رفتار یکساں ہو، تو پوراملک ایک ساتھ ترقی کرے گا۔اس کیلئے ہر جگہ فی کس آمدنی یکساں کرنے کی ضرورت ہے اوریہ آمدنی اسی وقت بڑھے گی ، جب ہر ریاست میں روزگارکے یکساں مواقع بڑھائے جائیں گے ۔اس کا گہرائی اورسنجیدگی سے جائزہ لے کر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ، تبھی بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے ۔جی ایس ٹی کے کلیکشن میں اضافہ اورری فنڈ میں کمی خوش آئند بات ہے ، جیسا کہ مئی میں ہم نے دیکھا کہ کلیکشن میں اضافہ 16.4فیصد رہا اورری فنڈ گھٹ کر 4فیصد ہوگیا۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مئی میں جی ایس ٹی کا مجموعی کلیکشن 1.74 لاکھ کروڑروپے رہا ، جو 20.4 کاسالانہ اضافہ ہے ۔بہرحال جی ایس ٹی کے نفاذ کے ذریعہ سرکار کا جومقصد تھا، وہ حاصل ہوتاہوا نظر آرہاہے ۔مرکز بھی مطمئن ہے اورریاستی حکومتیں بھی ۔کسی کو تھوڑی بہت جو شکایتیں ہوتی ہیں ، انہیں جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ میں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔