پروفیسر عتیق احمدفاروقی
عدالتیں عام آدمی کاآخری سہارا ہوتی ہیںا وراس سہارے کو قائم رکھنے کاچیلنج بھی اتنا ہی بڑاہوتاہے۔ موجودہ دورمیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ، متھرا،کاشی،سنبھل ، اجمیراوراِسی نوعیت کے تمام دیگر جذباتی ،مذہبی اورسیاسی پیچیدگیوں والے تنازعہ ہماری عدالتوںکی ساکھ کیلئے اکثروبیشتر نئے چیلنجز پیش کرنے لگے ہیں۔ نیز آج کل عدالتوں پر دباؤ کچھ زیادہ ہی ہے اوردباؤ بنانے والے سبھی گروپ کی اپنی اپنی دلیلیں اورقیاس ہیں۔ ملک میں سیاست کا جومزاج اس وقت جو نظر کے سامنے ہے اس میں ممکن ہے کہ مستقبل میں ایسے پیچیدہ تنازعوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاچلاجائے وہ تو اچھا ہواکہ عدالت عظمیٰ نے عبادت گاہ تحفظ قانون 1991 سے متعلق ایک عارضی فیصلہ دے دیاہے جس سے اس طرح کے تنازعوں کا سلسلہ کچھ رک گیاہے لیکن حتمی طور پر یہ مسئلہ تبھی حل ہوگا جب اس نوعیت کا کوئی حتمی فیصلہ آجائے۔ اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف معاشرے یا فرقے اپنی شناخت کے تئیں بیدار ہوئے ہیں۔ ایسے میں نئے پرانے تمام طرح کے زیرالتوا ، متنازعہ معاملے عدالتوں کے سامنے پیش کئے جارہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اس سے ہمارے سماجی تانے بانے کو مستقل طور پر نقصان ہونے لگاہے؟ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ایسا فیصلہ دینا جو سبھی کیلئے قابل قبول ہوں مشکل کام ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتیں سیاسی یاسماجی غول بندی سے الگ اوراوپر ہوتی ہیں، اس لئے تنازعوں پر فیصلہ دینے کی اعلیٰ ذمہ داری انہیں سنبھالنی پڑتی ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی غیرجانبدار شبیہ کو مستقل برقرار رکھیں۔ بدقسمتی سے ہماری عدالتوں کی جانب سے آرہے کچھ غیرضروری اورفضول عدالتی تبصروں سے عدالتی نظام کی شبیہ متاثرہورہی ہے۔ یہ بات ابھی بھی لوگوں کے دماغ میں تازہ ہے کہ نپور شرما کے مقدمہ کی سماعت کے وقت عدالت عظمیٰ کی ایک بنچ کی جانب سے انہیں ایک طرح سے پورے تنازعہ کی جڑ بتادیاگیاتھا۔ اس کی وسیع تشہیر ہوئی ۔ مختلف فریقین نے اپنی ضرورت کے مطابق اس میں نمک مرچ لگاکر پیش کیا۔ بیشک وہ غیرضروری تبصرہ تھا جس سے بچاجاسکتاتھا۔ اس غیرضروری تبصرہ پر دونوں طرح کے ردعمل سامنے آئے۔ ایک طبقہ اس کا مداح ہوگیا ، تودوسرا انصاف کے جذبے کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ غیرضروری تبصروں کی تازہ مثال دیکھنے کے قابل ہے۔ ای وی ایم کے مدعے میں ایک عدالتی تبصرہ سننے میں آیا ، جیسے عدالت نے یہ کہاہو کہ آپ جیتتے ہیں تو ای وی ایم اچھی ہے اورہارتے ہیں تو خراب ہے ۔ کیا یہ کہنے سے بچا نہیں جاسکتاتھا؟ عدالتوں کے تبصروں کا گہرا مطلب ہوناچاہیے کیونکہ لوگ ان کی طرف کان کئے رہتے ہیں۔ عدالتی تبصروں کو معاشرہ میں نذیر کی طرح پیش کیاجاتاہے۔ شمار کیلئے بہت سے تبصرے ہیں جن کا مقدمہ کے محاسن اورخامیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا اس طرح کے تبصروں سے ساکھ پر منفی اثرنہیں پڑتا؟ ۔
حالیہ دورمیں لوگ سب کچھ دیکھتے اورسمجھتے ہیں۔ ججوں کو غیرجانبدار ہونے اورغیرجانبدار نظرآنے کیلئے الفاظ کے تئیں ہی نہیں بلکہ سلوک کے تئیں بھی ہوشیار رہناچاہیے۔ ان کی سمجھداری پوری عدلیہ کے وقار کونئی بلندی پر لے جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں جب چارججوں نے اصولی مضبوطی دکھاتے ہوئے استعفیٰ دیاتھا،تب عدلیہ کی شبیہ کو چار چاند لگے تھے۔ ایک بار تین ججوں نے محض اس لئے استعفیٰ دے دیاتھاکیونکہ ان کی سینئرٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے جونیئر جج کو عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس بنادیاگیاتھا۔ جب ایک جج ہنس راج کھنہ کی سینئرٹی کی ان دیکھی کرتے ہوئے جونیئر جج کو چیف جسٹس بنادیاگیا تب جسٹس کھنہ نے استعفیٰ دے دیاتھا۔ ان دونوں معاملوں سے عدالت کے وقار میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ عدالتی ادارے کے تئیں عام لوگوں کے دلوں میں عزت بڑھی اوروہ انصاف اورسچائی کی شناخت مانے جانے لگے، پر جب چند ججوں نے پریس کانفرنس کے ذریعہ اپنی باتیں کہیں تواس کا معاشرے پر الگ اثرپڑا۔ ان کا اخلاقی قد چھوٹاہوا ۔ لوگوں کی نگاہ میں وہ عام انسانوں جیسے نظرآنے لگے۔ عدالتوں کو قانونی طاقت بھلے ہی آئین سے ملتی ہو لیکن ان کو اصلی طاقت تو ان کی اپنی غیرجانبداری اورحس سے ملتی ہے۔ آج کے تیزی سے بدلتے دورمیں میں یہ بہت ضروری ہے کہ پروقار سلوک اورانصاف پر مبنی تبصروں کی مثال قائم رہے۔
عوامی اعتماد عدالتوں کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتاہے۔ اعتماد ٹوٹنے پر سماج کو ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے ۔ مثلاًامریکہ اس کا بھگت بھوگی رہاہے۔ ایک بار امریکی عدالت عظمیٰ نے ایسا تبصرہ کردیاتھا یا ایسا فیصلہ سنادیاتھا کہ وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی۔ ڈجڈ اسکاٹ بنام سین فورڈ(1857)کے مقدمے کا تعلق کالے لوگوں کے حقوق سے جڑاتھا۔ امریکہ کے مشوری سمیت کچھ ریاستوں میں قانون بناکر کالے غلاموں کو غلامی سے نجات دلادی گئی۔ انہیں آزاد شہری کے طور پر رہنے کا حق دے دیا گیاتھا۔ یہ حق محض انہیں ریاستوں تک محدود تھا جہاں کیلئے قانون بناتھا، اس لئے تنازعہ کے حالات بن گئے تھے۔ اس سے مربوط ایک مقدمہ جب عدالت عظمیٰ پہنچا تب چیف جسٹس روجر بی ٹینی نے 6مارچ 1857کو غلاموں کو شہریت فراہم کرنے والے قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے کالوں کے خلاف فیصلہ سنادیاتھا۔فیصلے میں کہاگیاتھا کہ غلام بنائے گئے لوگ امریکی شہری نہیں مانے جاسکتے اورافریقی لوگ کبھی بھی امریکہ کے شہری نہیں ہوسکتے۔ اس فیصلے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ ججوں نے قانون اورآئین کی جگہ اپنی انفرادی نسل پرستی ذہنیت کو ترجیح دی تھی۔ عدالت کے اس فیصلے سے افریقی غلاموں کی حتمی امید ٹوٹ گئی تھی اورامریکہ میں خانہ جنگی چھڑ گئی تھی جس میں اس وقت کے امریکی صدر ابراہم لنکن کو بھی قربانی دینی پڑی۔ اس مہلک فیصلے نے دنیا کی تمام عدالتوں کو خبر دار کیاتھاکہ وہ قانون اورانصاف پر اپنی انسانی خودغرضی یا کمزوری کو ہاوی نہ ہونے دیں۔ اب عدالیہ کے سامنے پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ حالات ہیں۔ ہماری فرقہ وارانہ سماجی ،سیاسی اوراقتصادی پیچیدگیوں کے سبب ہمیں دوسرے ممالک سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ لہٰذا آئین اوراپنے وقار کی بقاء کے ساتھ ہی اسے مزید استحکام فراہم کرنے کیلئے دنیا کے عدالتی واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔