پنکج چترویدی
ابھی لوگوں کے جسموں سے ہولی کے رنگ چھوٹے بھی نہیں تھے کہ پورا شمالی ہندوستان شدید گرمی کی زد میں آگیا۔ ویسٹرن ڈسٹربنس کی وجہ سے کچھ مقامات پر بارش بھی ہوئی لیکن درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ ملک کے تقریباً60فیصد حصے میں35سے45ڈگری کی گرمی کے قہر کے100دن ہوگئے ہیں اور الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں تک موسم ایسا ہی رہے گا۔ ویسے بھی اگر مانسون آبھی گیا تو بھلے ہی درجہ حرارت میں کمی آئے لیکن اُمس کی وجہ سے پیدا ہونے والے ناخوشگوار احساسات گرمی کی ہی طرح پریشان کرتے رہیں گے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بار گرمی کے عتاب نے نہ تو ہماچل پردیش کی دلکش وادیوں کو بچایا ہے اور نہ ہی اتراکھنڈ کے مشہور سیاحتی مقامات کو۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ گنگا-جمنا کے میدانی علاقوں میں لو تیزی سے چل رہی ہے، خاص طور پر مغربی اترپردیش میں، جو کہ گنگا-جمنا دوآبہ کے ساتھ بہت سی چھوٹی اور درمیانی ندیوں کا گھر ہے اور کبھی گھنے جنگلات سے جانا جاتا تھا، بندیل کھنڈ کی طرح شدید گرمی کی زد میں آرہا ہے۔ یہاں درختوں کی پتیوں میں نمی کے اندازہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں ہرت پردیش کہلانے والا علاقہ بندیل کھنڈ کی طرح خشک سالی، نقل مکانی اور جنگلات کی کٹائی کا شکار ہو سکتا ہے۔
آدھا جون گزر چکا ہے اور اب بھی شملہ اور منالی جیسے مقامات کا درجہ حرارت30کے قریب ہے۔ ہمیر پور ضلع میں درجہ حرارت44.5ہے تو کانگڑا، چمبا، ناہن، منڈی وغیرہ میں درجہ حرارت41سے نیچے آنے کو تیار نہیں ہے۔ محکمہ موسمیات نے رواں ماہ کے آخری ہفتے تک کئی مقامات پر لو کا الرٹ جاری کرچکا ہے۔ اتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں شدید گرمی نے ریکارڈ توڑ دیا، 122سال بعد سب سے زیادہ درجہ حرارت42.4ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ پانچ دنوں سے دون کا درجہ حرارت 41ڈگری سیلسیس سے اوپر ہے۔ صبح سے ہی سورج آگ اُگل رہا ہے۔ جمعرات کو دون کا کم از کم درجہ حرارت بھی معمول سے 3ڈگری زیادہ26.0ڈگری سیلسیس رہا۔ اس کے علاوہ پنت نگر کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے پانچ زیادہ41.0ڈگری سیلسیس اور کم سے کم 26.0 ڈگری سیلسیس رہا۔ مکتیشور کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے 7زیادہ 31.2ڈگری سیلسیس اور کم سے کم26.0 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ ٹہری کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے 3زیادہ 31.6ڈگری سیلسیس اور کم سے کم 26.0 ڈگری سیلسیس رہا۔ یہ گرمی اب انسانوں کے لیے ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ راجستھان، دہلی، ہریانہ اور پنجاب میں مسلسل چلچلاتی گرمی نے ہوا کا معیار خراب کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ لولگنے، چکر آنے اور بلڈ پریشر میں اُتارچڑھاؤ کی وجہ سے جھارکھنڈ، بہار، اترپردیس جیسی ریاستوں میں 200 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ مسلسل گرمی نے پانی کی طلب میں اضافہ کیا اور بحران بھی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گرمی کی وجہ سے پینے کے صاف پانی کی دستیابی میں کمی آئی ہے۔ پلاسٹک کی بوتلوں میں فروخت ہونے والا پانی ہو یا عام لوگوں کا بچایا ہوا پانی، شدید گرمی نے پلاسٹک کی بوتلوں میں ابلے ہوئے پانی کو زہر میں بدل دیا۔ پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ تالابوں اور دریاؤں کی صحت کو خراب کر رہا ہے۔ اول تو بخارات میں اضافہ ہو رہا ہے، دوم پانی کے زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے پانی میں نشوونما پانے والے جانور اور پودے مر رہے ہیں۔
شدید گرمی خوراک کی غذائیت کی بھی دشمن ہے۔ شدید گرمی میں گندم کے دانے چھوٹے ہورہے ہیں اور ان کی غذائیت کی خصوصیات بھی کم ہو رہی ہیں۔ ویسے بھی چلچلاتی گرمی میں پکا ہوا کھانا جلدی سڑ رہا ہے۔ پھل اور سبزیاں جلدی خراب ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر وہ پھل جو گرمیوں میں آتے ہیں اور کیمیکل لگا کر پکائے جاتے ہیں، اتنے زیادہ درجہ حرارت میں زہر میں تبدیل ہو رہے ہیں اور انہیں کھانے والوں کے اسپتال کا بل بڑھ رہا ہے۔
اس موسم گرما کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ اس میں رات کا درجہ حرارت کم نہیں ہو رہا، چاہے پہاڑ ہو یا میدانی میٹروپولیٹن، گزشتہ دو ماہ سے کم از کم درجہ حرارت اوسط سے پانچ ڈگری تک زیادہ ہی ہے۔ خاص طور پر صبح چار بجے بھی لو کا احساس ہوتا ہے اور اس کا منفی اثر یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نیند پوری نہیں ہوپارہی ہے۔ خاص طور پر کچی آبادیوں، نائیلون ایریاز وغیرہ کے قریب رہنے والے محنت کش لوگ سارا دن نیند میں رہتے ہیں اور اس سے نہ صرف ان کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے بلکہ جسم میں کئی عوارض بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایئرکنڈیشنڈ سے وہ اس گرمی کی مار سے محفوظ ہیں، تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ زیادہ دیر تک اے سی والے کمروں میں رہنے سے اعصاب سکڑنے، ذیابیطس اور جوڑوں کے درد کی شکایت تاحیات برداشت کرنی پڑسکتی ہے۔
مارچ2024میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(ایف اے او) نے ہندوستان میں ایک لاکھ لوگوں کے درمیان ایک سروے کیا اور رپورٹ میں بتایا ہے کہ گرمی کی وجہ سے غریب خاندانوں کو امیروں کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ معاشی نقصان ہوگا۔کیونکہ معاشی طور پر خوشحال لوگ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مطابق اپنے کام کو ڈھال لیتے ہیں جب کہ غریب لوگ ایسا نہیں کر پاتے۔
ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں، یہاں تک کہ دور دراز علاقوں میں بھی100دنوں سے مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت نہ صرف ماحولیاتی بحران ہے، بلکہ سماجی و اقتصادی المیہ، عدم مساوات اور بحران کا عنصر بھی بن رہا ہے۔ یہ گرمی صرف جسم کو متاثر نہیں کر رہی، اس سے انسان کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، پانی اور بجلی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور پیداواری لاگت بھی بڑھتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ فطرت کی اس بدلتی ہوئی شکل کے سامنے انسانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ سمجھنا ہوگا کہ موسم کے بدلتے مزاج کو جان لیوا سطح تک لے جانے والی حرکتیں تو انسان نے ہی کی ہیں۔ پھر یہ بھی جان لیں کہ فطرت کے کسی بھی مسئلے کا حل صرف ہمارے ماضی کے علم میں ہی ہے، کوئی بھی جدید سائنس ایسے مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتی۔ جدید علم کے پاس فوری حل اور نام نہاد خوشی کے ذرائع تو ہیں لیکن ناراض کائنات سے نبردآزما ہونے میں وہ بے بس ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ انسان بدلتے ہوئے موسم کے مطابق اپنے کام کا وقت، حالات، خوراک، کپڑے وغیرہ میں بدلاؤ کرے۔ چلچلاتی گرمی اور اس کے نتیجے میں چلنے والی لو کی مار سے بچنا ہے تو زیادہ سے زیادہ روایتی درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ شہر میں بہنے والے دریا، تالاب، جوہڑ وغیرہ اگر صاف اور مسلسل بہتے رہیں گے تو بڑھتی ہوئی گرمی کو جذب کرنے میں یہ کامیاب ہوں گے۔ خاص طور پر فراموش کرچکے کنوؤں اور باوڑیوں کو دوبارہ سیراب کرنے سے موسمیاتی تبدیلی کے اس المیے سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ رہائشی کالونیوں اور دفتری تعمیرات کی ٹیکنالوجی اور مٹیریل میں تبدیلی، پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا، کثیر منزلہ عمارتوں کا ماحول دوست ہونا، توانائی کا تحفظ، شہروں کی طرف نقل مکانی روکنا، آرگینک کاشتکاری سمیت کچھ ایسے اقدامات ہیں جو بہت کم خرچ میں ملک کو بھٹی بننے سے بچا سکتے ہیں۔
[email protected]