شاہنواز احمد صدیقی
ایک زمانے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباًکوئی سرحدہی نہیں تھی اور دونوں ملکوں کے عوام شیر و شکر کی طرح ایک رہتے تھے۔آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کی سرزمین میں رہتے سہتے اور کاروبار کرتے تھے، تربیت یافتہ مسلح نوجوان کو نقل وحمل کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ سویت یونین کے خلاف طالبان کی تربیت سرزمین پاکستان میں ہوئی۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان کی اضافی سرزمین بن گئی تھی۔ مگر آج صورت حال اس قدر بدلی ہوئی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ دونوں ممالک وہی ہیں جو 1970اور1980کی دہائی میں ایک دوسرے سے اس قدر وابستہ ہوگئے تھے کہ اندازہ نہیں ہوتاتھا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اور سیاسی قیادت الگ الگ ہے۔ نظریاتی طورپر افغانستان کے لوگ پاکستان سے شدید طورپر وابستہ ہوگئے تھے۔ 1970کی دہائی میں جب افغانستان پر سوویت یونین نے حملہ کیاتھا تو اس وقت بڑی تعداد میں افغانستان کے لوگ پناہ لینے کے لیے پاکستان آگئے تھے۔ یہی صورت حال امریکہ میں 9/11حملے کے بعد پیش آئی تھی۔ ہزاروں لوگ امریکہ کی کارروائی سے بچنے کے لیے پاکستان میں آگئے تھے اور ایک زمانے میں ایسا لگتا تھا کہ دونوں ملکوں کے عوام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نہ شہریت کا، نہ نظریات کا اور نہ ہی فوجی وعسکری عزائم کا۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل افغانستان سے امریکی وناٹوفوج کے انخلا کے بعد جب سے طالبان اقتدارمیں آئے ہیں، حالات میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے تقریباً 15 لاکھ غیرقانونی مہاجرین پاکستان کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے۔ مگر طالبان کے ذریعہ کچھ انتظامی تبدیلیوں کے بعد حکومت پاکستان کو لگنے لگاہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغانیوں کا موجودرہنا ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے۔ افغانستان نے اپنے ملکی معیشت کو پٹری پرلانے کے لیے پاکستان کی کرنسی کو منسوخ کرچکا ہے۔ طالبان حکام نے چند ماہ قبل پاکستانی کرنسی کو اپنے ملک میں غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔ ان احکامات کی روشنی میں عام افغان شہری کو یہ چھوٹ دے گئی تھی کہ وہ مقررہ مدت کے دوران اپنی کرنسی تبدیل کرلے اور پاکستانی کرنسی کاچلن غیرقانونی قرار دے دیاگیاتھا۔ اس وقت پاکستان کے حکام نے اس قدم پر شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ خیال رہے کہ جس طرح افغانستان میں پاکستان کی کرنسی رائج تھی،اسی طرح پاکستان میں بھی افغانستان کی کرنسی کا استعمال عام تھااور دونوں ملکوں کی کرنسیاں دونوں ملکوں میں خوب استعمال ہوتی تھیں، طالبان کے اس فیصلے نے دونوں ملکوں کے درمیان قدیمی رشتوں میں دراڑ ڈال دی اور پاکستان میں مسلسل دہشت گردانہ وارداتوں کے ارتکاب کی وجہ سے پاکستان کے ارباب بطورخاص فوج نے اپنی روایتی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے دیے۔ بعدمیں کچھ ایسے اعدادوشمار سامنے آئے ہیں جس سے یہ لگا کہ ایک سال کے اندر جو 24خودکش دھماکے پاکستان میں ہوئے تھے، ان میں سے 14دھماکے مبینہ طور پر افغانستان کے شہریوں نے کیے تھے۔ ایک اورالمیہ یہ ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی ہرتبدیلی کے بعدنقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2021میں طالبان کے اقتدار کے ڈر سے 6سے 8لاکھ افغانی بھاگ کر پاکستان آگئے۔ یہ وہ دور تھا جب ہوائی جہازوں سے لٹک لٹک کر افغانی کابل سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔پاکستانی حکومت کا کہناہے کہ 31اکتوبر 2023سے قبل پاکستان میں 40لاکھ غیرملکی تھے، ان میں تقریباً38لاکھ افغانی ہیں، جن میں صرف 22لاکھ کے پاس قانونی دستاویزات ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی طویل سرحدپاکستان سے ملتی ہے۔ خیبر پختون اور بلوچستان کے علاقے افغانستان سے ملے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر اندرونی شورش ہے اور کئی دہشت گرد تنظیمیں علاقائی اور لسانی بنیادوں پر ایک خود مختار ریاست چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے سیاسی حالات اوروہاں سے بڑے پیمانے پر طالبان کے مکتب فکر کے افراد اورجماعتوں کی بڑے پیمانے پر پاکستان کی نظریاتی اساس میں بھی کافی تبدیلیاںپیداکیں۔ افغانستان میں طالبان کے عرواج کے بعد اس کے اثرات پاکستان پربھی مرتب ہوئے اور ایک ایسا شدت پسند طبقہ معرض وجود میں آگیا جو طالبان کی فکری بنیادوں پر اپنادائرئہ کار کو وسیع کرنے لگا اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے اندر خود ایک ’تحریک طالبان پاکستان‘قائم ہوگئی۔ 2007سے اس تنظیم کی سرگرمیاں اس قدر شدید ہوگئی ہیں کہ پورا پاکستان اس کی زد میںآگیا ہے اور کئی سنگین دہشت گردانہ سرگرمیوں اور وارداتوں میں تحریک طالبان پاکستان کے مسلح اورتربیت یافتہ جنگجو سامنے آئے۔بعدازاں لال مسجد کا واقعہ منظرعام پر آیا، جس میں پاکستان کی کھوکھلی ہوتی بنیادوں کا عقدہ کھلا۔ ’تحریک طالبان پاکستان‘ نے پاکستان کی کچھ ایسی شخصیات کو بھی نشانہ بنایاشروع کردیا جو کہ اس کے نظریات کے خلاف تھیں۔ ظاہرہے کہ یہ صورت حال پاکستان کے معاشرے میں ایک بڑے تصادم کو ہوا دینے والی تھی اور کئی خطے اس تصادم کی زد میں آگئے۔ کئی شواہد ایسے سامنے آئے کہ پاکستان پیوپلس پارٹی کی لیڈر اور سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کے قتل میں اسی تحریک کاہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی ایک اہم سیاسی شخصیت سلمان تاثیر کے قتل میں بھی اسی تحریک کاہاتھ بتایاجاتاہے۔ خیال رہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک نگراں کارگزارحکومت انتظام دیکھ رہی ہے اور ایک بیوروکریٹ انوار الحق کاکڑ۔ یہ حکومت انتخابات کے اعلان تک سرگرم رہے گی اس کے بعدمنتخب حکومت کام کاج دیکھے گی۔ نگراں حکومت کے وزیر اعظم کاکڑکے دور میں غیرقانونی طورپر مقیم افغانستان کے شہریوں کے اخراج کاعمل شروع ہوا ہے۔ ظاہرہے کہ ایک عبوری وزیراعظم جو کہ چندماہ کے لیے اقتدار میں آتاہے اور وہ ایک منتخب حکومت کی عدم موجودگی میں پالیسی ساز فیصلے کرنے کا مجازنہیں رکھتا۔ اس حکم کے پس پشت پاکستان کے اصل حاکم یعنی وہاں کے فوج ہی کارفرماہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ تقریباً ایک سال میں پاکستان میں جتنے بھی دہشت گردانہ کارروائیاں ہوئی ہیں،ان میں پاکستان فوج کو بھی بطورخاص نشانہ بنایاگیاہے ۔اس کے علاوہ پاکستان کے مذکورہ بالا دونوں شورش زدہ خطوں میں پاکستان کی فوج کے تئیں منفی نظریات ہیں اورکافی گہرے ہیں۔ سیاسی مناظروں اورمکالموں میں بھی ایک طبقہ مسلسل پاکستان فوج کو نشانہ بناتاہے۔ ظاہرہے کہ ایسے حالات میں فوج کے پاس موقع ہے کہ وہ ایسے افغانستان کے شہریوں کے خلاف کارروائی کرے جو غیرقانونی طورپر رہ رہے ہیں اور ان کی سرگرمیاں مشتبہ ہیں۔
پاکستان کی اس کارروائی پر طالبان کی ناراضگی غیرفطری نہیں ہے۔ افغانستان کے کارگزار وزیراعظم ملا محمد حسن اخندنے کہاہے کہ پاکستان کے ذریعہ اتنے بڑے پر افغانی شہریوں کو پاکستان بدر کرنا غیرمناسب ہے اور مہاجرین کے بین الاقوامی کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہناہے کہ دونوں ملک ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے قریب ہیں اور پاکستان کے ارباب اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ ہم دونوں ممالک پڑوسی ہیں اورہم کو مستقبل کے بارے میں سوچناچاہیے۔
افغانستان کے کچھ خاندان تو ایسے ہیں کہ 1970کی دہائی سے پاکستان میں مقیم ہیں اور ان کے آباواجداد پاکستان میں مدفون ہیں۔ ان کا کہنا کہ پاکستان کی سرزمین سے علیحدہ ہونا بہت تکلیف دہ ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے پاکستان میں موجود خاندانوں کے ساتھ ازدواجی رشتے بھی ہیں۔ ان رشتوں کو توڑ کر ایک دم سے سرحد پار کرجانا تکلیف بھراہوسکتاہے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ افغانستان جیسے کوہستان اور سرد علاقے میں جہاں پر بودوباش کی وہ سہولیات موجودنہیں ہیں جو کہ قدرے خوش حال اورپرامن پاکستان میں ہیں۔ پچھلے دنوں افغانستان میں کئی زلزلے آئے ہیں، جس سے وہاں کی بڑی آبادی متاثرہوئی ہے، وہاں کے خود کے موجودہ مکین بھی اس صورت حال میںدربدر بھٹک رہے ہیں۔ آج کے حالات میں ان کی بازآبادکاری نہیں ہوپائی ہے کیونکہ عالمی برادری طالبان حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کررہی ہے اور ان کو بے سروسامانی میں زندگی گزارنی پڑرہی ہے۔ n