سلمان عبدالصمد
اب شاید لفظ’ اقلیت ‘کسی حدتک ظلم وستم کا استعارہ بن گیا ہے۔اقلیت کا لفظ سنتے ہی نفسیاتی طور پر ہمارے ذہن ودماغ میں المناکیوں کی داستانیں گردش کرنے لگتی ہیں۔کیوں کہ اقلیتوں پر ڈھائے گئے مظالم سے تاریخ کے صفحات رنگین ہیں۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے مندروں پر حملے ہوئے اور 4لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔خود ہندوستان میں بھی اقلیتی طبقوں کا جو حشر ہوا ہے اور ہورہاہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ان دنوںہندوستانی مسلمان اور دیگر اقلیتی طبقوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کے واقعات کثر ت سے سامنے آرہے ہیں۔ عیسائیوں پر مظالم کو دیکھیں۔ گزشہ دوماہ میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اوریوپی میں چرچوں پر کثرت سے حملے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی تبدیلیٔ مذہب کے معاملے میں متعدد پادریوں سے پوچھ گچھ بھی کی گئی ہے۔ چرچ میں تشد د کا حالیہ معاملہ 3اکتوبر کو اتراکھنڈ میں پیش آیا جہاں تقریباً دو سو افراد نے چرچ میں گھس کر تشدد کی انتہا کردی۔ اُسی دن مدھیہ پردیش کے ایک چرچ میں بھی تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ گویا ایک دن میں دو دو واقعات۔
قبل اس کے کہ ہم عیسائیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے اعداد وشمار پیش کریں، سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ چرچ میں تشدد کے ان واقعات کو انگریزی و ہندی اور اردو میڈیامیں کتنی جگہ دی گئی؟ کیا عیسائیوں کے علاوہ ہندوستان کے دیگر طبقوں کو اس کا بخوبی علم ہے اور انھوں نے اس کے خلاف کوئی آواز اٹھائی ہے؟تمام اقلیتی طبقوں کے درمیان مذہبی رشتہ نہ ہو نہ سہی، تاہم ان کے درمیان ظلم وستم کے تناظر میں ایک لطیف رشتہ ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر اکثریتی طبقے کی شرانگیزی پر متعدد اقلیتی طبقے باہم متفق نظر نہ آئیں تو شرانگیزیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوسکتا ہے۔ مذہبی امور میں مختلف مذاہب منتشر ہوسکتے ہیں تاہم اخلاقیات اور انسانی معاملات میں بڑی حد تک وہ متحد نظر آتے ہیں۔اس لیے شرانگیزی کے بڑھتے واقعات کے خلاف خود تمام اقلیتی طبقوں کا متحدہ محاذ شاید ضروری ہے۔ اگر مسلمان کوئی محاذتشکیل دیں تو حکومتی سطح پر اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جاسکتا ہے۔چنانچہ ملک کے موجودہ حالات میں مختلف اقلیتی طبقوں کا کوئی فعال متحدہ محاذ ہو جو بلاتفریق مذاہب سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکے۔ مساجد اور مسلم دانشوروں کے امور میں بھی وہ سامنے آئے۔ سکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کے معاملات میں بھی وہ سرگرم ہوسکے۔ ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی اکثریت ہے، یعنی اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ اگر مسلمان ہی کسی متحدہ محاذ کی تشکیل کے لیے پیش قدمی کریں تو کیا کوئی غیر معقول بات ہوگیـ؟
ہندوستانی داخلی سلامتی / قومی اقلیتی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 1964 سے 1997 تک عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 62 واقعات رونما ہوئے۔ 1998 کے بعد سے عیسائیوں کو تشدد کا جو سامنا کرنا پڑا، وہ اپنے آپ میں شرمناک ہے۔ صرف 1998 میں ہی 90 واقعات درج ہوئے۔ جنوری 1998 اور فروری 1999 کے درمیان ملک بھر میں عیسائیوں پر کل 116 حملے ہوئے۔قومی کمیشن برائے اقلیت کے نومبر 2001 کے سروے میں 1997 میں عیسائی اداروں اور عیسائیوں پر 27 حملوں، 1998 میں 86 واقعات، 1999 میں 120 معاملات اور 2000 میں 216 حملوں کی جانکاری دی گئی تھی۔ 1998 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں اضافہ ہوا تھا۔
2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد عیسائیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اسی زمانے میں وزارت داخلہ نے رپورٹ دی تھی کہ 2012 کے مقابلے میں 2013 میں فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔اوپن ڈورز کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں ہندوستان میں عیسائیوں پر ظلم و ستم زیادہ ہوئے۔ اس سال عیسائیوں کے لیے خطرے کے لحاظ سے ہندوستان دنیا میں 15 ویں نمبر پر آگیا، جب کہ چار سال پہلے 31 ویں نمبر پر تھا۔ ہندوستانی تنظیم پرسیکیوشن ریلیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2016 سے 2019 تک عیسائیوں کے خلاف جرائم میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ 2016 میں 330، 2017 میں 440، 2018 میں 477 اور 2019 میں نفرت انگیز جرائم کے 527 واقعات ہوئے۔2020میں عیسائی اقلیتوں کے خلاف ظلم و تشدد کے 327 مقدمات ملک بھر میں درج کیے گئے۔
ان حقائق کے پیش نظر چند باتیںکہی جاسکتی ہیں۔ اول،یہ کہ جب جب دائیں بازو پارٹیوں کی حکومت بنی، اقلیتوں کے خلاف تشدد زیادہ ہوئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد میں خود اقلیتوں کا اتحاد سامنے نہیں آیا اور ان کے درمیان ہمیشہ مذہبی دیواریں حائل رہیں۔ حالاں کہ اقلیتی طبقے کی بے حرمتی میں اقلیت اور اکثریت کا ہی تصادم نظر آتا ہے۔ اس لیے تشکیلِ اقلیتی محاذ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔
مذکورہ حقائق کو دو اقلیتی طبقے یعنی مسلم اور عیسائی کے تناظر میں دیکھنے سے بھی ایک بڑی حقیقت سامنے آتی ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ عیسائیوں کے خلاف جب بھی تشدد کے واقعا ت ہوتے ہیں تو عالمی سطح پر ان کی گونج سنائی دیتی ہے اور بڑے پیمانے پر ان واقعات کی مذمت کی جاتی ہے۔ یہ بات یاد ہوگی کہ 2015میں ہندوستان کے متعدد چرچوں پر حملے ہوئے تھے۔ سابق امریکی صدر اوباما نے دہلی چرچ حملے کے تئیں اظہار افسوس کیا تھا اور دبے لفظوں میں مودی حکومت کو نصیحت کی تھی۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں ہندوستانی صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کے نام دنیا بھر کے پادریوں اور دانش وروں نے مکتوب ارسال کیا ہے اور ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف ہورہے تشدد پر اپنا احتجاج درج کیا ہے۔ ساتھ ہی اسی سال امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے ہندوستان میں ہونے والے تشدد پر تنقید کی ہے۔
اس کے برعکس صورتیں بھی نظیر کے طور پر موجود ہیں۔ ہندوستان کے باہر سکھوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات سامنے آئے۔ وہاں کے واقعات پر ہندوستان نے بھی اپنی مخالفت درج کرائی ہے جو بہت اچھی بات ہے۔گزشتہ برس فرانس کے ایک چرچ میں چاقو سے حملے کیے گئے۔ اس واقعہ پر وزیر اعظیم مودی نے فرانسیسی حکومت کو تقویت پہنچائی اور کہا کہ ہم چرچ کے معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔کچھ دنوں قبل کابل میں گرودوارہ پر ہونے والے حملے کی مودی حکومت نے سرزنش کی اور سکھوں کی جان ومال کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے معاملات ہیں جن میں ہندوستان نے دوسرے ممالک میں ہونے والے تشدد پر اظہار افسوس کیا اور پرتشدد واقعات کی مذمت کی۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر عالم اسلام ہمیشہ کیوں خاموش رہتاہے؟ حالاں کہ آج عالم اسلام سے مودی حکومت کی قربت کا احساس دلایا جارہا ہے۔ ستمبر کی تاریخوں میں دواہم تاریخیں تھیں۔ ایک وزیر اعظم مودی کا یوم پیدائش اور دوسرا یوم سعودیہ۔ ان دو مواقع پر ہندوستانی میڈیا میں سعودی اور مودی کی قربت کے تئیں بہت سے مواد پیش کیے گئے جن سے اندازہ ہوا کہ دونوں ممالک کی قربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ خود ہندوستان میں سعودی سفیر سعود بن محمد الساطی نے اسی موقع پر’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ: ’’2020 میں ہندوستانی سرمایہ کاری کے لیے 44 نئے لائسنس جاری کیے گئے۔قابل تجدید توانائی،پیٹروکیمیکل، زراعت، صحت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں 2.81 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب نے 2020 میں ہندوستان میں سب سے زیادہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ ظاہر ہے اس طرح ہندوستان اور سعودیہ کی قربت سچی نظر آتی ہے۔ اس قربت پریہ سوال فطری ہے کہ اگر ایک دوست ملک دوسرے دوست ملک سے کسی سنگین مسئلے پر گفتگو کرے تو افہام وتفہیم کی امید کی جاسکتی ہے۔ادھر ایک بڑی اچھی خبر آئی ہے کہ اوآئی سی اور آرگنائزیشن آف اسلامی کارپوریشن نے آسام معاملے میں زبان کھولی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ عالم اسلام کے بڑے بڑے ممالک کو بھی اس پر بھی بولنے کی جرأت کرنا چاہیے۔
انسانی حقوق کا مسئلہ کسی ملک کا محض داخلی معاملہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہندوستانی مسلمانوں کے معاملات کوہندوستان کا داخلی مسئلہ سمجھ کر اگر مسلم ممالک خاموش ہیں تو شاید یہ انسانیت کا تقاضا نہیں اور نہ ہی مذہبی حمیت کاخاصہ۔ جس طرح ہندوستان نے دیگر ممالک میں ہونے والے مذہبی تشدد پر’ انسانی تقاضوں‘ کے مدنظر اپنی زبان کھولی، اسی طرح ہندوستان کے دیگر اقلیتی طبقوںکی حالت زار پر مسلم ممالک بھی مودی حکومت سے بات چیت کریں تو شاید غیر قانونی نہ ہو۔ گویا اس طرح مودی حکومت سے دوستی کا بھرم بھی باقی رہے گا اور کسی نہ کسی سطح پر انسان دوستی کا حق بھی ادا ہوگا۔
rvr