اسمبلیوں میں غنڈے اور شر پسند عناصرکا بڑھتا غلبہ

0

محمد فاروق اعظمی

سیاست کو جرائم سے پاک بنانے کیلئے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افرادکے سیاست میں داخلہ پر عرصہ سے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔بدعنوان سیاسی لیڈروں کا سیاسی کرداربھی محدود کیے جانے سے متعلق بات چیت ہورہی ہے لیکن اب تک اس کوکوئی قانونی شکل نہیں دی جاسکی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست میں غنڈہ عناصرا ور مجرموں کا عمل دخل روزبروزبڑھتاہی جارہاہے۔ایک مہینہ پہلے مکمل ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں جیت کر آنے والے 45فیصد ارکان مجرمانہ معاملات میں ملوث ہیں۔ پانچ ریاستوں گوا، منی پور، پنجاب، اتراکھنڈ اور اترپردیش اسمبلی انتخاب میں جیتنے والے690ارکان کے حلف ناموں کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ ان میں سے219ارکان یعنی32فیصد ارکان قانون سازیہ ’’سنگین مجرمانہ معاملات‘‘ میں ملوث ہیں۔ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے ان ارکان کے حلف ناموں کا جائزہ لے کر یہ بھی پتہ لگایا ہے کہ ان میں سے87فیصد ارکان مالی اعتبار سے کروڑ پتی ہیںاوران کی اوسط املاک فی رکن اسمبلی8.7کروڑ روپے ہے۔گوا میں جیتنے والے40فیصد ارکان مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں اور مجموعی طور پر33فیصد سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ پنجاب میں یہ تعداد 50فیصد اور23فیصد ہے۔ اتراکھنڈ میں 27 فیصد اور 14فیصد، منی پور میں23فیصد اور 18 فیصد ہے جب کہ اترپردیش اسمبلی میں نئے جیت کر آنے والوں میں سے 51فیصد ارکان مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں اور39فیصد سنگین جرائم میں ملوث ہیں جن میں عورتوں پر مظالم، قتل، اقدام قتل جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔ ان میںبھارتیہ جنتاپارٹی کے 134 ارکان، سماج وادی پارٹی کے 71، عام آدمی پارٹی کے51، کانگریس کے24اور راشٹریہ لوک دل کے 7 منتخب ارکان پر مجرمانہ معاملات ہیں۔ سادہ لفظوں میں اسے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ پانچوں اسمبلی کے انتخاب میں قانون سازی کیلئے جن ارکان کو منتخب کیاگیا ہے، ان میں 45 فیصد غنڈے اور سماج دشمن عناصر ہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ دو ہیں ایک یہ کہ سیاسی پارٹیاں جیت حاصل کرنے کیلئے دبنگ اورغنڈہ عناصر کو ہی ترجیح دیتی ہیں اور دوسرا یہ کہ ووٹروں میں بھی اس کے خلا ف کوئی بیداری نہیں ہے اور وہ غنڈہ عناصر کو منتخب کرنا معیوب نہیں سمجھتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون سازی جیسا اہم کام بھی سماج دشمن اورغنڈہ عناصر کے ہاتھ میں چلا جا رہاہے جو ملک اور ملکی جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی سمت قدم اٹھائیں۔اس سمت اگر تھوڑا بہت کام ہوا ہے تو وہ سپریم کورٹ کی کوششوں سے ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں چند ایک رہنما ہدایت بھی جاری کی تھی جن میں تین سال یا اس سے زیادہ سزا پانے والے لیڈروں کے انتخاب لڑنے پر پابندی بھی شامل ہے۔ان پر اگر سیاسی جماعتیں عمل کریں تو سیاست سے جرائم کو پاک رکھنے اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد کے سیاست میں داخلہ پرقابو پایاجاسکتا ہے۔ لیکن سیاسی پارٹیاںاس سلسلہ میںقطعی سنجیدہ نہیں ہیں۔انتخا ب کے وقت جب ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ آتا ہے تو یہ سیاسی پارٹیاں سپریم کورٹ کی ہدایت اور صاف ستھری سیاست کے تمام دعوے بھول کر سماج دشمن اور غنڈہ عناصر کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔
ایسو سی ایشن فارڈیموکریٹک ریفارمس کے ایک دوسرے جائزہ میں بتایاگیا ہے کہ ملک میں مقننہ کے 36فیصد اراکین سنگین مجرمانہ معاملات میں ملوث ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان کی مجموعی تعداد4896 ہے۔ 2014 سے 2017 کے درمیان 1765 عوامی نمائندوں یا قانون سازوں کے خلاف مقدمات زیر التوا ہیں۔مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دیے گئے ایک حلف نامہ کے مطابق بدعنوان، راشی، مقدمات میں ماخوذ ارکان کے معاملہ میںاترپردیش پہلے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ 248 قانون سازوں کے خلاف معاملات درج ہیں۔ 178 معاملات کے ساتھ تمل ناڈو دوسرے نمبر پر، 144 معاملات کے ساتھ بہار تیسرے نمبر پر اور 139 معاملات کے ساتھ مغربی بنگال چوتھے نمبر پر ہے۔ قانون سازوں پر جن جرائم کیلئے مقدمات چل رہے ہیں، ان میں قتل، اقدام قتل جیسے سنگین الزامات نیز سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے وغیرہ جیسے الزامات شامل ہیں۔
دیکھاجائے تو ملک کی سیاست میں داغی لیڈروں کی بھرمار ہے۔ ملک بھر میں موجودہ اور سابق ارکان اور ایم ایل اے کے خلاف چار ہزار سے زیادہ معاملے زیرالتوا ہیں۔سپریم کورٹ کو دی گئی جانکاری کے مطابق پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے موجودہ اور کچھ سابق ارکان کے خلاف4122مجرمانہ معاملات زیر التوا ہیں اوران میں سے کچھ تو تین دہائی سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ دراصل اپنی دولت اور طاقت کااستعمال کرتے ہوئے یہ داغی لیڈران اپنے اوپر قائم مقدمات کو طویل عرصہ تک لٹکائے رہتے ہیں اوراس درمیان وہ انتخاب لڑتے ہیں اور جیت کر ایم ایل اے، ایم پی بن کر وزارت تک پہنچ جاتے ہیں۔اگر ان لیڈروں کو مقررہ وقت کے اندر سزادی جائے تو جرائم میں ماخوذان عوامی نمائندوں کا حوصلہ پست ہوگا اور سیاسی پارٹیاں بھی ایسے لوگوں کو انتخابی میدان میں اتارنے سے گریز کریں گی۔ مقررہ وقت کے اندر سزا نہ مل پانے کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کو یقین ہوگیا ہے کہ جو جتنابڑا داغی ہے، اس کے الیکشن جیتنے کے اتنے ہی امکانات ہیں۔اس طرح ایوان میں اپنی عددی برتری کیلئے سیاسی پارٹیاں اپنے دامن میں غلاظت سمیٹ لیتی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کی دوہری پالیسی اور انتخابی عمل میں عوام کی ہوش مندانہ حصہ داری سے گریزکا ہی نتیجہ ہے کہ آج پانچ ریاستو ں کی اسمبلیوں میں 45فیصد ایسے ارکان جیت کر آئے ہیں جنہیں جیل میں ہوناچاہیے تھا لیکن اب قانون سازی کریں گے اور عوام ان کے بنائے گئے قانون پر عمل کے پابند ہوں گے۔یہ صورتحال ملک کی ترقی، خوشحالی اور جمہوری استحکام کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS