آلوک جوشی
پندرہ اگست کے بعد سے ہندوستان میں مسلسل افغانستان خبروں میں چھایا ہوا ہے۔ بات بھی بڑی ہے،مگر اس دوران ایک اور پڑوسی ملک میں ایک ٹائم بم پھٹا ہے، جس پر شاید ہی کسی کی توجہ گئی ہو۔ یہ ٹائم بم ہے سری لنکا میں فوڈ ایمرجنسی، یعنی غذائی اشیاکی قلت کا اعلان۔ سری لنکا حکومت نے کھانے پینے کے سامان کی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ صرف کھانے کا بحران نہیں ہے، بلکہ سری لنکا کی معیشت کے لیے بھی بڑی مصیبت کا اشارہ ہے اور یہ اصل میں معاشی ایمرجنسی کا اعلان ہے۔
سچ کہیں تو یہ کورونا کے انتباہ کو ہلکے میں لے رہے لوگوں کے لیے خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہے۔ کورونا کے دور میں سری لنکا کی سیاحتی صنعت تقریباً ٹھپ ہوگئی ہے اور وہ جن چیزوں کی برآمد پر منحصر تھا، اس میں بھی بہت کمی آئی۔ غیرملکی سرمایہ کاری نہ صرف کم ہوئی بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں نے شیئر بازار سے بھی بڑی مقدار میں پیسہ نکالا ہے۔ ان دونوں کا اثر تھا کہ فارن ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلہ سری لنکائی روپے کی قیمت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ اس سال ابھی تک سری لنکا میں امریکی ڈالر 7.5فیصد سے زیادہ مہنگا ہوچکا ہے۔ ادھر صرف اگست کے ماہ میں ہی سری لنکا میں افراط زر کی شرح میں6فیصد کا اچھال آیا ہے۔
بازار میں قیمت کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک ہندوستانی روپے میں 2.75سری لنکائی روپے آتے ہیں اور ایک ڈالر کی قیمت سری لنکا میں 200روپے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ کولمبو کی ایک ویب سائٹ نے مہنگائی کی صورت حال کو دکھانے کے لیے کچھ چیزوں کی اگست 2020اور اگست 2021کی قیمتیں بتائی ہیں۔ وہاں ایک کلو ہری مونگ 341روپے سے 828روپے پر پہنچ گئی ہے، جب کہ پیاز 219 سے 322 روپے، ملکا کی دال167سے 250روپے، چینی 135سے 220روپے، کابلی چنے 240 سے314 روپے اور سوکھی مچھلی 688روپے سے 926روپے پر پہنچ چکی ہیں۔ ظاہر ہے، زیادہ تر چیزوں کی قیمتیں 30 سے 200 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔
بحران صرف اتنا نہیں ہے کہ سری لنکا پر قرض کا بھاری بوجھ بھی ہے اور موڈیز کی طرف سے اس پر نظر رکھی جارہی ہے۔ موڈیز کا اندازہ ہے کہ اگلے چار پانچ سال تک صرف قرض اور سود ادا کرنے کے لیے ہی سری لنکا کو ہر سال چار سے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی اور اسے اندیشہ ہے کہ اس سے کہیں وہ محروم بھی رہ سکتا ہے۔۔۔۔سری لنکا گہری مصیبت میں ہے اور کسی بھی اچھے پڑوسی کی طرح ہندوستان کو اس وقت اس کی مدد کرنی ہی چاہیے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہندوستان کی طرف سے حیل حجت ہوئی تو چین موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ جلد ہی افغانستان اور پاکستان سے بھی اسی طرح کے فوڈ کے بحران کی خبریں آسکتی ہیں۔ تب کیا کرنا ہوگا، اس کی تیاری وقت رہتے کی جائے تو بہتر رہے گا۔
قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی چیزوں کی قلت بھی ہونے لگی ہے اور بین الاقوامی میڈیا نے خبریں دی ہیں کہ دکانوں کے باہر لمبی لائنیں نظر آرہی ہیں۔ قلت کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ سری لنکا اپنی ضرورت کا زیادہ تر سامان درآمد کرتا ہے اور اس وقت اس کے پاس درآمد کے لیے غیرملکی کرنسی کافی کم ہوتی جارہی ہے۔ نومبر2019میں جب راج پکشے حکومت بنی تھی، تب ملک کے پاس تقریباً7.5ارب ڈالر کا زدمبادلہ کا ذخیرہ تھا، اس سال جولائی کے آخر تک یہ کم ہوکر صرف2.8ارب ڈالر رہ گیا اور اس کے بعد بھی ملک سے پیسہ نکلنے کا سلسلہ جاری ہی ہے۔ اس حکومت کے دوران سری لنکا کی کرنسی کی قیمت تقریباً 20فیصد گرچکی ہے۔ کوڑھ میں کھجلی یہ ہے کہ پوری دنیا کے بازاروں میں کموڈٹی کی قیمتیں اُچھال پر ہیں۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے پرائیویٹ بینکوں نے کہہ دیا کہ درآمدکنندگان کو دینے کے لیے اب ان کے پاس ڈالر نہیں بچے ہیں۔ اور اب گزشتہ دو ہفتوں سے تو سرکاری افسر اناج اور چینی کے گوداموں پر چھاپے مارکر ان کے اسٹاک بھی ضبط کرنے لگے ہیں۔ خبر ہے کہ اب تک ہزار سے زیادہ چھاپے مارے جاچکے ہیں۔ ساتھ ہی راشن کی قیمتیں بھی طے کی جارہی ہیں اور منگل کے روز تو صدر راج پکشے نے باقاعدہ ضروری اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کا حکم جاری کردیا۔
یہ بحران کورونا کے ساتھ ہی آیا تھا۔ اب بھی 2.1کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں ہر روز تقریباً 200کورونا کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔ ابھی ملک میں 16دن کا کورونا کرفیو لگا ہوا ہے جو آج ہی ختم ہونا تھا۔ کورونا کے دور میں ہی ملک سے برآمد پر بھی بہت برا اثر پڑا۔ حالاں کہ جولائی کے ماہ میں ملک سے برآمد کورونا سے پہلے کی حالت میں پہنچ چکا تھا، لیکن کرنسی کی کم ہوتی قیمت کی وجہ سے اس کا بھی پورا فائدہ نہیں مل سکتا۔ دوسری طرف غیرممالک سے آرہے سامان کا بل کی ادائیگی بھی بڑی مشکل ہے۔ اسی لیے کورونا کا بحران شروع ہونے کے ساتھ ہی زیادہ تر غیرضروری چیزوں اور کچھ کھانے پینے کی چیزوں کی بھی درآمد پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ حال ہی میں حکومت کے ایک وزیر نے اپیل کی ہے کہ لوگ تیل بچانے کے لیے گاڑیاں کم چلائیں۔
بحران صرف اتنا نہیں ہے کہ سری لنکا پر قرض کا بھاری بوجھ بھی ہے اور موڈیز کی طرف سے اس پر نظر رکھی جارہی ہے۔ موڈیز کا اندازہ ہے کہ اگلے چار پانچ سال تک صرف قرض اور سود ادا کرنے کے لیے ہی سری لنکا کو ہر سال چار سے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی اور اسے اندیشہ ہے کہ اس سے کہیں وہ محروم بھی رہ سکتا ہے۔
ایسی حالت میں پڑوسی ممالک سے سری لنکا کو کافی راحت ملی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ بنگلہ دیش نے سری لنکا کی معاشی مدد کی ہے، اپنے زرمبادلہ کے ذخیرہ سے اسے کرنسی دے کر۔ اس سے پہلے جنوبی کوریا اور چین سے سری لنکا 50-50کروڑ ڈالر کا قرض لے چکا ہے۔ اور چین کے سینٹرل بینک نے اس کے ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر کا ویسا ہی کرنسی سوئپ معاہدہ کیا ہوا ہے، جیسا بنگلہ دیش نے کیا ۔سری لنکا نے جون میں ہندوستان سے بھی 10کروڑ ڈالر قرض لیا اور ساتھ ہی اگست میں اسے ہندوستانی ریزروبینک سے ملنے والے 40کروڑ ڈالر کے کرنسی سوئپ کے ساتھ ہی اس نے ہندوستان سے اسی طرح ایک ارب ڈالر اور دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
سری لنکا گہری مصیبت میں ہے اور کسی بھی اچھے پڑوسی کی طرح ہندوستان کو اسوقت اس کی مدد کرنی ہی چاہیے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہندوستان کی طرف سے حیل حجت ہوئی تو چین موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ جلد ہی افغانستان اور پاکستان سے بھی اسی طرح کے فوڈ کے بحران کی خبریں آسکتی ہیں۔ تب کیا کرنا ہوگا، اس کی تیاری وقت رہتے کی جائے تو بہتر رہے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)