یوگیندر یادو
پہلے اشارے نظر آئے، پھر اندازے آئے اور اب ثبوت بھی ملنے لگے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ کورونا کی دوسری لہر میں ملک میں ہوئی اموات گزشتہ 100برس میں کسی بھی ملک میں ہوا سب سے بڑا سانحہ بننے والی ہیں۔ سال پورا ہوتے ہوتے مہلوکین کی تعداد 25سے 50لاکھ تک کہیں بھی پہنچ سکتی ہے۔ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے شرمناک باب میں شامل ہونے جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتہ ’دینک بھاسکر‘ میں مدھیہ پردیش میں موت کے جو اعدادوشمار شائع ہوئے، وہ سب سے قابل اعتماد اور خوفناک اعدادوشمار ہیں۔ اس کے بعد اسی صحافی رکمینی ایس نے آندھراپردیش و تمل ناڈو کے اعدادوشمار عام کردیے ہیں۔ سب کو جوڑ کر پہلی مرتبہ پورے ملک میں دوسری لہر میں ہوئی اموات کے اعدادوشمار کا سرسری اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ دوچار شہروں کے اعدادوشمار پر مبنی اندازے نہیں ہیں۔ اب ہمیں مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش سے پوری ریاست کے ہر ضلع و تحصیل میں ہوئی اموات کے اعدادوشمار مل گئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار حکومت کے سول رجسٹریشن سسٹم پر مبنی ہیں جو حکومت ہند کی وزارت داخلہ کے ذریعہ چلایا جارہا ہے۔ اتفاق سے یہ دونوں ریاستیں کل ملاکر ملک کی اوسط تصویر پیش کرتی ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں نہ تو ملک کی وبا کی سب سے بری طرح شکا رریاستوں(جیسے مہاراشٹر یا دہلی) میں ہیں، اور نہ ہی سب سے بہترین مینجمنٹ(تمل ناڈو، کیرالہ) کا نمونہ ہیں۔ ان دونوں کے اوسط کی بنیاد پر پورے ملک میں ہوئی اموات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔صرف ایک ماہ کی کہانی سمجھ لیجیے۔ ’دینک بھاسکر‘ میں شائع اعدادوشمار کے مطابق مدھیہ پردیش میں گزشتہ سال مئی کے ماہ میں 34,320اموات ہوئی تھیں۔ اس سال مئی میں 1,64,838کی اموات کی خبریں آچکی ہیں۔ یعنی نارمل سے تقریباً پانچ گنا زیادہ اموات مئی میں ہوئیں۔ آندھرا پردیش کے اعداد و شمار کم و بیش یہی کہانی بتاتے ہیں۔ آندھراپردیش میں عام طور پر مئی ماہ 27,100اموات ہوتی ہیں، لیکن اس سال 1,39,273اموات ہوئیں، یعنی یہاں بھی 4.8گنا زیادہ۔
ملک کی سطح پر یہ ابھی بھی ایک اندازہ ہے، مستند ڈاٹا نہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ تعداد47لاکھ یا اس سے اوپر یا کچھ کم پر رکے گی یا 20سے 30لاکھ کے درمیان میں رک جائے گی۔ یہ اس پر انحصار کرے گا کہ باقی ریاستوں کے اعداد و شمار مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش سے بہتر ہوتے ہیں یا بدتر۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ موت کے سرکاری اعداد و شمار مضحکہ خیز ہیں۔ اب تک بین الاقوامی اداروں اور میڈیا کے اندازے بھی اس نسل کشی کو کم کرکے حساب لگاتے ہیں۔ ہمیں لاکھوں نہیں دسیوں لاکھ اموات کی بات کرنی چاہیے۔
اب ذرا دیکھئے، حکومت ہند کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال سے پورے ملک میں کورونا وبا میں 3لاکھ70ہزار لوگوں کی اموات ہوئی ہیں۔ جب کہ یہاں صرف دو ریاستوں میں صرف ایک ماہ میں 2لاکھ 60ہزار اضافی اموات ہونے کا اندازہ ہے۔ بیشک ساری اضافی اموات کورونا سے نہیں ہوئی ہوں گی۔ ان دنوں اسپتالوں پر بوجھ اور آکسیجن بحران کی وجہ سے دیگر بیماریوں کے مریضوں کی کچھ اموات بھی ہوئی ہیں۔ لیکن ان دنوں نارمل سے زیادہ اتنی زیادہ اموات ہونے کا اہم سبب کورونا ہی ہوسکتا ہے۔
اگر ہم مان لیں کہ مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش کا اوسط باقی ملک پر نافذ کیا جاسکتا ہے تو ہم پورے ملک میں گزشتہ ماہ میں ہوئی اضافی اموات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ گزشتہ سال پورے ملک میں ہر ماہ اوسطاً کوئی 6لاکھ اموات کے اعدادوشمار تھے۔ اگر مئی میں مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش کی طرح پورے ملک میں نارمل سے 4.8گنا زیادہ اموات ہوئیں تو پورے ملک میں تقریباً 29لاکھ اموات ہوئی ہوں گی، یعنی نارمل سے 23لاکھ زیادہ۔ اگر اس میں سول رجسٹریشن سسٹم میں درج کرنے کی دیری یا کمی کا اندازہ بھی جوڑ دیں تو ایک ماہ میں اموات کے اعدادوشمار تقریباً 27لاکھ ہوسکتے ہیں۔
اب ان اعدادوشمار میں باقی ماہ کا حساب بھی جوڑ دیجیے۔ مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش کے اعدادوشمار کے مطابق عروج تک پہنچنے سے پہلے جنوری، فروری، مارچ و اپریل کے 4ماہ میں اموات کی تعداد نارمل سے اوسطاً 1.4گنا زیادہ تھی۔ عروج سے اترنے کے چار ماہ، جون سے ستمبر تک بھی ایسی ہی صورت حال ہونے کا خدشہ ہے۔ ان چار ماہ میں بھی اموات نارمل سے 1.4گنا زیادہ ہوسکتی ہیں۔ اس حساب سے گراف کے چڑھنے اور اترنے کے ان آٹھ ماہ میں کل 20لاکھ کے قریب موت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں مئی کے ماہ کے اعدادوشمار بھی جوڑ دیں تو دوسری لہر میں کل اموات کی تعداد تقریباً 47لاکھ پہنچ سکتی ہے۔
ملک کی سطح پر یہ ابھی بھی ایک اندازہ ہے، مستند ڈاٹا نہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ تعداد47لاکھ یا اس سے اوپر یا کچھ کم پر رکے گی یا 20سے 30لاکھ کے درمیان میں رک جائے گی۔ یہ اس پر انحصار کرے گا کہ باقی ریاستوں کے اعداد و شمار مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش سے بہتر ہوتے ہیں یا بدتر۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ موت کے سرکاری اعدادوشمار مضحکہ خیز ہیں۔ اب تک بین الاقوامی اداروں اور میڈیا کے اندازے بھی اس نسل کشی کو کم کرکے حساب لگاتے ہیں۔ ہمیں لاکھوں نہیں دسیوں لاکھ اموات کی بات کرنی چاہیے۔
اس سلسلہ میں کم سے کم حکومت کی ایک ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پورے ملک میں موت کے اعدادوشمار کے سول رجسٹریشن کے اعدادوشمار عام کردے۔ ان اعدادوشمار کی جانچ کے لیے مرکزی حکومت فی ماہ سیمپل سروے بھی کرواتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ گزشتہ 5ماہ کے اس سروے کے اعدادوشمار بھی فوراً عام کیے جائیں۔
(مضمون نگار سیفولاجسٹ اور سوراج انڈیا کے صدر ہیں)