محمد حنیف خان
اقلیتوں کی تعلیم و ترقی ملک کی خوشحالی کا بہترین پیمانہ ہے،اگر اقلیتیں تعلیم یافتہ ہیں اور ترقی کے پائیدان پر قدم رکھ کر آگے بڑھ رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے لیکن اگر اقلیتوں کی تعلیمی سطح کمزور ہے اور ان کا سفر خوشحالی کے بجائے بدحالی کی جانب ہے تو یہ ملک و قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔فرد کی سطح پر کامیابی کوئی پیمانہ نہیں ہے،معاشرہ اور اجتماع ہی کسی پورے ایک طبقے کی کامیابی کا پیمانہ بن سکتا ہے جو حکومت کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ تعلیم کے میدان میں افرادی کوششوں کے ساتھ ہی حکومت کا تعاون بھی از حد ضروری ہے،اگر حکومت اس سے اعراض و انحراف کرلے تو بحیثیت قوم کوئی بھی ترقی نہیں کرسکتا ہے، کیونکہ حکومتی وسائل پورے طبقے کو متاثر کرتے ہیں۔اس ضمن میں اگر ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کی تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو شروع سے دونوں طرف سے مایوسی نظر آتی ہے۔سب سے بڑی اقلیت جہاں تعلیم کے معاملے میں افرادی سطح پر ناکام نظر آتی ہے، وہیں حکومتوں کا عمل بھی ایسا رہا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود نہیں چاہتی ہیں کہ یہ اقلیت تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے اور ترقی کرکے ملک کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنے اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی قسمت بدل چکی ہوتی۔ دستاویزی سطح پر حکومت اقلیتوں کی تعلیم کے لیے کم از کم 13اسکیمیں چلا رہی ہے جن سے استفادہ کر کے تعلیم کے میدان میں اقلیتیں قدم آگے بڑھا سکتی ہیں، لیکن کیا ان اسکیموں کا نفاذ ایسے طور پر ہوا ہے جس سے اقلیتی طلبا مستفید ہو سکیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔
سرکاری دستاویز سے زیادہ بہتر اور مصدقہ کوئی دستاویز نہیں،اس لیے اگر اسی کے تناظر میں ان اسکیموں کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔حکومت نے دستاویزی طور پر ہر سطح پر اسکالر شپ کا انتظام کیا ہے تاکہ اقلیتوں کو کسی بھی مقام پر دشواری کا سامنا نہ ہو،لیکن خود حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اقلیتوں کی صرف اعلیٰ تعلیم سے متعلق پروجیکٹ پر حکومت کے اخراجات میں گزشتہ پانچ برسوں میں اس درجہ تخفیف آئی ہے کہ جو خرچ پانچ برس قبل1127کروڑ روپے تھا وہ آج کم ہو کر 165کروڑ روپے پر پہنچ گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ہوشمند طلبا ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم اور اسکالرشپ سے متعلق نہ صرف بیدار ہوتے ہیں بلکہ در پیش دشواریوں کے خلاف وہ آواز بھی اٹھاتے ہیں جب اس میں حکومت کی جانب سے اس قدر تخفیف کردی گئی ہے تو میٹرک سے نیچے اور اس سطح پر دی جانے والی اسکالر شپ میں کس قدر کتر بیونت کی گئی ہوگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ان بچوں کو تو اس بارے میں معلومات بھی نہیں ہوتی ہے۔
وزیر مملکت برائے تعلیم سبھاش سرکار نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں جو اعداد و شمار سامنے رکھے ہیں وہ چونکانے والے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ ریاستی سطح کے اداروں کو مدد کرنے والی اسکیم پر 2016-17 میں 1393کروڑ روپے، 2017-18 میں 1245.97کروڑ،2018-19میں 1126.9کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش اعداد و شمار کے مطابق یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(یوجی سی)کی چھوٹی اور بڑی ریسرچ پروجیکٹ اسکیموں کے تحت مالی تعاون میں کمی آئی ہے۔ 2016-17 میں 42.7کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے جو بتدریج گھٹ کر 2020میں 38لاکھ روپے تک ہوگئے۔یوجی سی کی فیلوشپ اور اسکالر شپ اسکیموں میں فنڈنگ میں اس حد تک کمی آگئی ہے کہ جو تعداد سیکڑوں سے متجاوز تھی وہ دہائیوں میں آگئی،2017-18میں ایمرٹیس فیلوشپ کی تعداد 559تھی جو 2020-21میں 14تک سمٹ گئیں۔اسی دورانیہ میں ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ کو 434سے کم کرکے200تک پہنچا دیا گیا۔مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ برائے اقلیتی طلبا ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اقلیتی طلبا کے لیے ایک نعمت ہے جو طلبا جونیئر ریسرچ فیلو شپ (جے آر ایف ) سے محروم رہ جاتے ہیں ان کو یہ اسکالرشپ دی جاتی ہے جو اسی کے مساوی ہے،اس میں بھی حد درجہ کمی کردی گئی ہے۔2016-17میں ایم این ایف 4141اقلیتی طلبا کو ملی تھی اور اب 2020-21میں صرف 2348یعنی نصف طلبا کو ہی دی گئی ہے۔یہ حال اعلیٰ تعلیم میں حکومت کی جانب سی دی جانے والی اسکالرشپ کا ہے،حکومت نے نصف تک تخفیف کردی ہے،ایسے میں وہ طلبا جو ان اسکالرشپ کے لیے جی جان سے محنت کرتے ہیں اور آخر میں محروم رہ جاتے ہیں وہ ذہنی تناؤ کا شکارہو کر تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس لیے محروم نہیں ہوئے کہ حکومت نے ان اسکالر شپ کی تعداد پر قینچی چلا کر ان کے مستقبل کو تاریکیوں کی نذر کردیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں ہم تو اس لائق ہی نہیں کہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔
اقلیتی طبقہ کے لیے حکومت کے اعلیٰ تعلیمی فنڈ میں ہی صرف تخفیف نہیں کی گئی ہے بلکہ میٹرک کی سطح پر بھی یہی عمل دہرایا گیا ہے۔اس میں تخفیف کے ساتھ ہی رقم کو بھی خرچ نہیں کیا گیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق میرٹ کم مینس اسکالرشپ 2016-17میں 335 کروڑ میں سے 220.54کروڑ ہی خرچ کیے گئے، 2017-18میں 395کروڑ میں سے 388.79 کروڑ، 2018-19 میں 522کروڑ منظور ہوئے جس میں سے 402کروڑ جاری کیے گئے اور اس میں سے صرف261کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ 2019-20 میں 366کروڑ میں سے 285.63 کروڑ اور 2020-21میں 400کروڑ میں سے صرف105.47کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔پری میٹرک اسکالر شپ 2020-21میں 1330کروڑ میں سے 31دسمبر 2020تک 204.27کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔پوسٹ میٹرک اسکالر شپ میں بھی یہی ہوا کہ رقم تو مختص کی گئی مگر محکمہ نے خرچ ہی نہیں کیا۔ایک رپورٹ کے مطابق 2016-17میں 550کروڑ میں سے 287.11کروڑ، 2017-18 میں 561کروڑ میں سے 479.72 کروڑ، 2018-19 میں مختص 692 میں سے پانچ سو کروڑ جاری ہوئے جس میں سے صرف 354.89کروڑ ہی خرچ کیے گئے، 2019-20 میں 482 میں سے 428.77کروڑ اور 2020-21 میں 535کروڑ میں سے دسمبر 2020تک 172.02 کروڑ ہی خرچ ہوئے تھے۔
ان اسکیموں میں مختص اور خرچ ہونے والی رقم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری محکمے اقلیتی طبقہ کی تعلیمی مدد میں کس قدر تعاون کررہے ہیں،رقم خرچ کرنے والی ایجنسیوں اور اداروں سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بجٹ میں تخفیف،سیٹوں میں کٹوتی اور اسکالرشپ کی تعداد میں کمی پر سوال کرنے والا ہے۔حکومت اور اس کے اداروں کی اقلیتی طبقہ کی تعلیم سے متعلق اگر یہی روش رہی تو میٹرک اور اعلیٰ تعلیم دونوں سطحوں پر اقلیتی طلبا کیسے آگے بڑھیں گے ؟ اس بارے میں ’سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘ کا نعرہ لگانے والی پارٹی اور حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،اسی طرح اقلیتی طبقہ کو بھی بیدار ہو کر حکومت کی اسکیموں سے استفادہ کے لیے آگے بڑھنا ہوگا تو تعلیم کے میدان میں یہ طبقہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ رضاکار تنظیموں کو جہاں ان اسکیموں سے اقلیتی طبقہ کو مستفید ہونے میں بیداری اور تعاون کی ضرورت ہے، وہیں حکومت بھی اعلیٰ تعلیم میں اسکالرشپ، فیلوشپ اور ایمرٹیس کی سیٹوں میں تخفیف پر نظر ثانی اور اضافہ کرے۔ یہ قابل غور بات ہے کہ اقلیتوں کی اس کثیر آبادی میںاعلیٰ تعلیم کے لیے صرف 2348طلبا کو مولاناآزاد اسکالر شپ دی گئی ہے۔کیا یہ تعداد حکومت کی نظر میں کافی ہے؟اگر ایسا ہے تو اقلیتیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کبھی آگے نہیں جا سکتی ہیں اور اگر حکومت چاہتی ہے کہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تو تعلیمی سطح پر ان کو آگے بڑھانا ہوگا اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
[email protected]