شاہد زبیری
اگست 2024میں جب پارلیمنٹ میں این ڈی اے کی مودی سرکار نے وقف ترمیمی بل پیش کیا تھا اسی وقت حکومت کی نیت پر سوال کھڑے ہوگئے تھے جو جائز تھے، اس سے متاثر ہو نے والی مسلم اقلیت نے وقف ترمیمی بل 2024کو وقف املاک کو حکومت کے ذریعہ ہڑپنے کا حربہ کہا تھا۔ ملّی تنظیموں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اس بل کو وقف املا ک کے حق میں انتہائی خطرناک اور وقف کو ختم کرنے والاقرار دیاتھا اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی پارلیمنٹ میں اس کی کھل کر مخالفت کی تھی اس کو لے کر این ڈی اے میں شامل نتیش کمار کی جے ڈی یو اور چندرا بابونائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی پر بھی انگلیاں اٹھی تھیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی کامیابی بہار اور تلنگانہ کے مسلمانوں کی مرہونِ منّت ہے۔ ان پارٹیوں نے اپنی چمڑی بچا نے کیلئے سرکار پر دبائو بنا یا اور اس وقف ترمیمی بل کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سپر کئے جا نے کا ڈرامہ رچا تھا ۔اس کمیٹی میں بی جے پی سمیت این ڈی اے کے 16پارلیمانی ارکان اور اپوزیشن کے0 1پارلیمانی ارکان شامل کئے گئے تھے جس میں رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی اور عمران مسعود سمیت کچھ مسلم ارکانِ پارلیمان بھی شامل تھے۔ بی جے پی کے جگدمبیکا پال کو کمیٹی کا چیئر مین بنا یا گیا تھا ۔
کمیٹی نے 13صوبوں کا دورہ کیا اور وقف ترمیمی بل پر مسلم جماعتوں اور افراد کے علاوہ دیگر لوگوں سے بھی آراء طلب کیں۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند،جما عت اسلامی اور ملّی کونسل سمیت دیگر صوبائی مسلم جماعتوں کے ذمّہ داران نے کمیٹی کے روبرو وقف ترمیمی بل پر اپنے اعتراضات پیش کئے اور اس کو آئین میں دئے گئے مسلمانوں کو مذہبی حقوق اور وقف کی شرعی حیثیت پر کاری ضرب بتا یا اور اس متنازع بل کی ایک ایک شق پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل پر ملک کے 5کروڑ مسلمانوں نے ای میل کے ذریعہ اپنے اعتراضات اور تجاویز جے پی سی کو ارسال کئے۔ بورڈ نے اس کیلئے ایک بارکوڈ بھی جاری کیا اب نہیں معلوم کہ بارکوڈ کی مدد سے اور ای میل کے ذریعہ بھیجی گئی ان 5کروڑ آراء اور تجاویزمیں سے کمیٹی کو کتنی تجاویز ملی ہیں۔بعض مسلم حلقوں کا خیال ہے کہ ایک کروڑ ای میل کمیٹی کو موصول ہوئے ہیں ۔
کمیٹی کے روبرو پیش کی گئی آراء اور تجاویز پر غور کرنے کیلئے کمیٹی کی جتنی میٹنگیں ہوئیں ان میں کمیٹی کے چیئر مین جگدمبیکا پال پر من مانی اور ہٹ دھرمی کے الزامات لگے اور جب کمیٹی کے ارکان نے غیر جمہوریہ رویہ پر انگلیاں اٹھائیں اور اعتراضات کئے تو ان کی ایک بھی نہ سنی گئی اور ہنگامہ کیا گیا جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپوزیشن کے ارکان کی میٹنگ میں شرکت پر پابندی کے احکامات صادر کردئے گئے اور 10کے 10 اپوزیشن ممبران کو ایک دن کے لئے سسپینڈ کر دیا اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کمیٹی کے چیئرمین نے آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ، ملّی تنظیموں اور عام مسلمانوں کی آراء اور تجاویز بلکہ اپوزیشن کی تمام 44تجاویز کو بھی ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور این ڈی اے کی 14تجاویز کو اپنی رپورٹ میں شامل کر لیا اور جس مقصد کے تحت وقف ترمیمی بل کیلئے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی وہ مقصد ہی فوت ہو گیا اور انجام کار کمیٹی کے چیئرمین نے اپنی حتمی پورٹ پارلیمنٹ کے اسپیکر کو سونپ دی۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو حکومت کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا دکھاوا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
اگر کمیٹی کو اپنے این ڈی اے کے ممبران کی اکثریت کے مطابق ہی فیصلہ لیناتھا تو یہ کام تو پہلے ہی بل لا کر حکومت کر چکی تھی اور اب اس سارے ڈرامہ کا اختتام اس متنازع وقف ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ مودی سرکار رواں پارلیمانی اجلاس میں کرنے والی ہے۔ جو ایشوز اور بل پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں پیش ہونے والے ہیں وہ وقف ترمیمی بل اس فہرست میں 7ویں نمبر پر ہے ۔ وقف ترمیمی بل پاس ہو نے کے بعدوقف بائی یوزر کا خاتمہ اور وقف سے متعلق تنازعات ڈی ایم کو تفویض کیا جانا،وقف کونسل اور بورڈوں میں غیر مسلم حضرات کی شمو لیت وغیرہ وغیرہ کام شامل ہوں گے۔ وقف ترمیمی بل کے پاس ہو جانے کی صورت میںوقف بائی یوزر کے خاتمہ کے بعد وقف کی زمینوں اور جائیدادوں پر سرکاری اور غیر سرکاری قبضوں کو قانونی قبضہ تسلیم کر لیا جائے گا ۔وقف قانون میں کی گئی اس تبدیلی کے مطابق صرف وہی جائیدادیں، املاک اور زمینیں جو رجسٹرڈ ہیں وقف کی مانی جائیں گی جو نہیں ہیں وہ سرکاری ہوجائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ املاک اور جائیدادوں اور زمینوں کے لین دین کا اور خرید فروخت کا رجسٹریشن ہندوستان میں انگریزی عہد میں 1908 میں شروع ہوا اس سے پہلے جن مسلم ز مینداروں ،جاگیر داروں اور مخیّر حضرات اور لاولد لوگوں نے مسلم سماج کی فلاح و بہبود کیلئے جو اپنی جائیدادیں، زمینیں یا دیگر املاک باغات وغیرہ اللہ کے نام پر وقف کی ہیں اور ان کی آمدنی مسلم معاشرہ کی فلاح و بہبود پر خرچ کیلئے ہیں جو شرعی اصطلاح میں وقف کہلاتی ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ وقف بورڈ کی تشکیل بھی1923 انگریزی عہد میں ہوئی تھی تاکہ وقف جائیدادوں اور املاک کا منظم طور پر بندوبست کیا جا سکے۔ آزادی کے بعد 1954اور اس کے بعد وقف قانون میں ترمیمات ضرور کی جا تی رہی ہیں، لیکن اس کی زد وقف املاک پر نہیں پڑی جو نئے وقف ترمیمی بل سے پڑنے والی ہیں جس کولے کر مسلمان اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ امید کی جارہی تھیں کہ شاید نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو اس پر کوئی اسٹینڈ لیں گے لیکن سرکار نے بجٹ میں بہار اور تلنگا نہ کو خصوصی توجہ دے کر دونوں وزرائے اعلیٰ کے منھ پرسیل لگا دی ہے۔ پارلیمنٹ کا روا ںاجلاس4فروری تک چلے گا۔
سرکار اس مدت میں مذکورہ وقف ترمیمی بل کو قانون کا درجہ دے سکتی ہے چونکہ 5فروری کو دہلی میں ووٹنگ ہے۔ شایدسرکار اس کافائدہ اٹھانا چاہے یہ بھی امکان ہے کہ وہ اس بل کو جولائی کے مانسون اجلاس تک ٹال دے اور رواں سال میں بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرے لیکن یہ تو طے ہے کہ وقف ترمیمی بل سرکار اپنی اکثریت کے بل پر پاس کرا لے گی اور این ڈی اے میں شامل نام نہادسیکولر جماعتیں اس میں بی جے پی کی شریک مانی جا ئیں گی اور انڈیا محاذ کی جماعتیں مودی حکومت کو ایسا کرنے سے باز نہیں رکھ سکیں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ملّی تنظیمیں اس وقف ترمیمی بل کے خلاف کیا قدم اٹھا تی ہیں اور اگر عدالت ِ عظمیٰ کے دروازہ پر دستک دیتی ہیں تو وہاں سے کیا راحت حاصل کرسکتی ہیں۔ اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے بعد ہریانہ، پنجاب کے اوقاف پر ناجائز قبضے کر لئے گئے تھے۔ پنجاب وقف بورڈ نے ان دونوں صوبوں میں سے بہت سی اوقاف کی جائیدادوں کو قانونی طور پر واگزار کرا یا ہے لیکن بورڈ کے ذمّہ داران پر وقف املاک کو خرد برد کرنے اور خرید وفروخت کئے جا نے کے بھی الزامات لگتے رہے ہیں۔
اب پنجاب وقف بورڈ سے ہریانہ وقف بورڈ کو علیحدہ کردیا گیا ہے۔ اس دوران خوش آئند بات یہ بھی رہی کہ پنجاب میں سکھ برداران نے بہت سی مساجد جو ان کے قبضہ میں تھیں پنجاب وقف بورڈ کو واپس لوٹا دی ہیں۔ ملک کے بڑے اوقاف میں سرِ فہرست اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ اور شیعہ وقف بورڈ کو مانا جا تا ہے۔ ان دونوں وقف بورڈوں اور متولیوںپر بھی پنجاب وقف بورڈ کی طرح وقف املاک کو خرد برد کئے جا نے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
یوپی کی 70فیصد سے زائد وقف جائیدادوں اور املاک پر یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سرکاری ہو نے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ لکھنؤ کے امام باڑو ں کی زمین کو بھی وہ سرکاری زمین بتا رہے رہیںوقف ترمیمی بل پاس ہو جا نے کے بعد وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا نے کیلئے ہر ممکن کارروائی کر سکتے ہیں ۔ یوپی کے وزیرِ اعلیٰ وقف بورڈ کو وقف لینڈمافیا تو گودی میڈیا وقف گینگ کا نام دے رہا ہے اور اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ جو زمین جا ئیداد وقف کی ہیں وہ وقف کی نہیں ہیں بلکہ مسلم حملہ آوروں نے اکثریتی طبقہ سے چھینی ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے دے دی گئی تھیں سرکار ان کو واپس لے رہی ہے یہ خطرناک کھیل ہے جو کھیلا گیا ہے یہ ہماری قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کی وراثت کو تبا ہ کر نے والا کھیل ہے جو نہ اس ملک کے حق میں ہے نہ یہاں باشندوں کے حق میں ہے ۔