پروفیسر اسلم جمشید پوری
جاٹ زیادہ تر کسان ہیں اور ملک کے کئی صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔شمالی ہندوستان خاص کر اترپردیش، ہریانہ، دلّی،ہماچل پردیش، پنجاب، راجستھان اور عمومی طور پر یہ برادری پورے ہندوستان اور پاکستان میں پائی جاتی ہے، اس برادری نے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد اس برادری نے ملک کو بہت کچھ دیا ہے۔وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، نائب صدر جمہوریہ سے لے کر ملک اور ریاستوں کے اعلیٰ عہدوں پرجاٹ برادری کے لوگوں نے بے مثل کارنامے انجام دیے ہیں۔اس کے زیادہ تر افراد زمین اور کھیتی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ویسے جاٹوں کا قدیمی تعلق اور ان کا آبائی علاقہ سندھ ندی کے آس پاس کا علاقہ ہے۔صدیوں تک یہ لوگ سندھ میں آباد تھے۔وہاں سے ہجرت کرکے یہ لوگ دنیا بھر میں پھیل گئے۔لیفٹیننٹ رام سوروپ جون کے مطابق،جنہوں نے معروف تاریخی کتا ب’’History of Jats ‘‘ 1938 میں لکھی، جاٹ طبقے کے لوگ اسپین، پرتگال، یونان،اسکینڈنیویااور تر کی میں پائے جاتے ہیں۔یہ کتاب ہندی میں لکھی گئی تھی،جسے رام سوروپ کے بیٹے کرنل دال سنگھ نے 1967میں انگریزی میں ترجمہ کیا۔سندھ کے علاقے سے بہت سے لوگ پنجاب آئے اور پھر شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔اس کے لوگ مختلف مذاہب کو مانتے آئے ہیں۔خاص کر ہندو،سکھ اور اسلام مذہب میں اس برادری کے لوگ ملتے ہیں۔اس کے لوگ زیادہ تر سنگھ اور چودھری لگاتے ہیں۔کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ دیگر القاب بھی لگاتے ہیں۔
اس طبقے کے بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کافی نام کمایا۔چند مشہور نام یوں ہیں۔بابا بدھا بھائی بالا،بھگت سنگھ،مہا راجہ سورج مل،چودھری چرن سنگھ، سر چھوٹو رام، دھرم سنگھ، چودھری دیوی لال، ستیہ پال ملک، جگدیپ دھن کھڑ،اجیت سنگھ،مہاراجہ رنجیت سنگھ،بدری رام جاکھڑ، بلدیو سنگھ، بلرام جاکھڑ، بنسی لال، چودھری مہندر سنگھ ٹکیت، بینت سنگھ، بھگوت مان، چودھری بھرت سنگھ، بھوپیندر سنگھ ہڈا، دربارا سنگھ، دولت رام سرن،دیوی لال،فتح سنگھ،گیان سنگھ رائے والا،گجرال سنگھ ڈھلوں،گر نام سنگھ، ہنومان بینی وال، ہر چند سنگھ لونگوال، ہر چرن سنگھ برار، ہر کشن سنگھ سرجیت، ہر لال سنگھ، حکم سنگھ، جگدیو سنگھ تلوندی، جگجیت سنگھ لالپوری،کملا بینی وال،لچھمن سنگھ گل،ناتھو رام مردھا، نٹور سنگھ، اوم پرکاش چوٹالہ، پرکاش سنگھ بادل، پرتاپ سنگھ کیرون،پرویش ورما،راجہ مان سنگھ،رام نواس مردھا،رنویر سنگھ ہڈا،صاحب سنگھ ورما،سیس رام اولا،سکھ بیر سنگھ بادل،جینت سنگھ،سنجیو بالیان، راکیش ٹکیت،فیروز خان نون،چودھری شجاعت،،سعداللہ خان،چیتو خان، علی محمد خان، لیاقت علی، ممتاز جزّا، محمد رفیق تارڑ، شہباز گل، چودھری پرویز الٰہی، سکندر حیات خان، محمد ظفراللہ خان، چودھری ظہور الٰہی،شجاعت حسین،سردار محمد عارف نکائی،حنا ربانی وغیرہ۔ کھیل کی دنیا میں نام کمانے والے ارشد ندیم، بجرنگ پونیا، شکھر دھون، ویریندر سہواگ، یو راج سنگھ، اونیت سدھو، ببیتا کمار پھوگاٹ، بلوندر سندھو، چندرو تومر، دیپا ملک، کرشنا پونیا، نو جوت سنگھ سدھو،پروین کمار،وجیندر سنگھ، نغمہ سرائی میں محمد رفیع، سدھو موسے والا، دلجیت دوسانجہ، فلمی دنیا میں دارا سنگھ، درشن کمار، دھرمیندر، سنی دیول، ماہی گل، ملکا شیراوت، رندیپ ہڈا، سشانت سنگھ، ادبی دنیا میںقلم کار فیض احمد فیض، قادر یار، راجندر سنگھ بیدی، جسونت سنگھ کانوال، دلجیت ناگرا، کرتار سنگھ دگل، جسونت سنگھ، رتن سنگھ، مہر سنگھ، امریتا پریتم، گربچن سنگھ وغیرہ چند مشہور و معروف نام ہیں۔ان کے علاوہ جاٹ طبقے کے لوگ ہر میدان میں چھائے ہوئے ہیں۔ان کی دین کو ہم نظر انداز نہیںسکتے۔خاص کر ہندوستان کی بات کریں تو یہاں بیشتر ہندو اور سکھ طبقے کے لوگ جاٹ ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کسان ہیں۔کسی زمانے میں چودھری چرن سنگھ کسانوں کے مسیحا کہلاتے تھے۔ان کے بعد چودھری اجیت سنگھ،مہندر سنگھ ٹکیت وغیرہ کو کسانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا رہاہے۔اب سب کی نظریں جینت چودھری،راکیش ٹکیت،جگجیت سنگھ ڈالیوال،گرنام سنگھ چورانی، یدھویر سنگھ، نریش ٹکیت اور ویوو کرشنن پر ٹکی ہیں۔
موجودہ سر کار آئے دن جاٹوں کی بے عزتی انجام دیتی رہی ہے۔تازہ ترین معاملہ نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھن کھڑ سے جڑا ہے۔21 جولائی کو اچانک خراب صحت کا حوالہ دیتے ہوئے جگدیپ دھن کھڑ نے صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مر مو کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا جیسے منٹو کا کوئی افسانچہ ہو۔ دھن کھڑ کے استعفیٰ نے سب کو حیران کر دیا خاص کر حزبِ اختلاف تو سوچتا ہی رہا۔استعفیٰ کی وجہ صحت کی خرابی نہیں ہوسکتی۔ان کی صحت تو ٹھیک ہے۔کچھ تو ہے؟ دال میں کالا نظر آرہا ہے۔دھن کھڑ کی خاموشی نے اس راز کو اور گہرا دیا ہے۔ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ دھن کھڑ کو فوری بنگلہ خالی کرنے کا حکم نامہ آگیا۔راز پر سے پردہ سرکنے لگا اور پتہ چلا کہ جسٹس ورما کے خلاف راجیہ سبھا میں مہا ابھیوگ پیش ہونا تھا۔جس میں حکومت اور حزبِ اختلاف ساتھ تھے۔ دھن کھڑ نے پہلے حزب اختلاف کااحتجاج درج کر لیا۔اسی بات پر بی جے پی صدر جے پی نڈا ناراض ہو گئے۔بی جے پی دھن کھڑ کے خلاف ہوگئی۔بات اتنی بڑھی کہ دھن کھڑ کو استعفیٰ دینا پڑا۔نہ صرف استعفیٰ منظور ہوا،بلکہ نئے نائب صدر جمہوریہ کے لیے انتخاب کا عمل بھی شروع ہوگیا۔یہ معاملہ ابھی سرخیوں میںبنا ہوا ہے۔
اس سے قبل ستیہ پال ملک کے ساتھ کیا ہوا؟ انہیں جموں و کشمیر کا گورنر بنا یا گیا۔انہوں نے اگست 2018سے اکتوبر2019تک جموں و کشمیر کے دسویں اور اب تک کے آخری راجیہ پال کا منصب سنبھا لا۔ان کے ہی دور میں جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کادرجہ ختم کیا گیا۔یہاں سے وہ گوا اور پھرمیگھالیہ کے گورنر بنے اور اکتوبر 2022تک رہے۔ستیہ پال ملک نے پلوامہ دہشت گردانہ حملے کی حقیقت کو طشت ازبام کیا،بس پھر کیا تھا۔ پوری بی جے پی ان کی دشمن بن گئی۔ان کے خلاف کیس کیے گئے۔سی بی آئی کے چھا پے مارے گئے۔
اجیت سنگھ کے ساتھ کیا ہوا۔ان کو جو بنگلہ ملا ہوا تھا، اسے خالی کرایا گیا۔اجیت سنگھ اسے یادگار بنانے کی مانگ کرتے رہے۔جینت سنگھ کو لبھانے کے لیے، آنجہانی چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن خطاب سے نوازا گیا۔ دراصل یہ دانہ تھا۔جینت اس کے چکر میں آگئے۔راشٹریہ لوک دل نے انڈیا سے پلّہ جھاڑ کر این ڈی اے کا دامن تھام لیا۔انہیں وزارت بھی ملی۔
مرکزی حکومت نے ہمیشہ جاٹوں کی بے عزتی کی۔ کسانوں کی تحریک کئی بار چلی۔جس میں اکثر لوگ جاٹ تھے۔ تحریک چلتی رہی،نئے نئے مسائل اُٹھتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔لیکن ایسا ہمیشہ نہیں چلے گا۔ دھن کھڑ کااستعفیٰ ضرور رنگ لائے گا۔ دھن کھڑ کا تعلق راجستھان سے ہے۔راجستھان میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔جاٹ اگر اپنی پر آگئے تو پھر کیا ہوگا۔کوئی بھی شخص اپنی بے عزتی بر داشت نہیں کرتا۔دھن کھڑ کو بے عزت کرکے پارٹی سے الگ تھلگ کرنا،کہیں بی جے پی کے حلق کی ہڈی نہ بن جائے؟
aslamjamshedpuri@gmail.com