آزادی اظہار پرحکومت کی یلغار

0

جمہوریت کا جوہر اس کی وسعت ظرفی، برداشت اور مکالمے کی روایت میں پنہاں ہوتا ہے۔ جہاں اختلاف کو دبایا جائے،وہاں جمہوریت کا نام لینا محض ایک دکھاوا رہ جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ممبئی میں پیش آنے والے واقعات،خاص طور پر کامیڈین کنال کامرا کے خلاف کی گئی کارروائی،اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ہندوستان میں حکومتیں اختلاف رائے کو دبانے کیلئے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہیں۔

کنال کامرا،جو اپنے طنز اور کاٹ دار جملوں سے سماجی اور سیاسی سچائیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مشہور ہیں،ایک بار پھر ریاستی جبر کا نشانہ بنے۔ ان کے کامیڈی شو کو سبوتاژ کیا گیا،ہنگامہ برپا کیا گیا اور اس کے فوراً بعد بی ایم سی کی مشینری حرکت میںآگئی،جس نے ان کے اسٹوڈیو پر بلڈوزر چلا دیا۔ یہ وہی بلڈوزر پالیسی ہے جس کے خلاف سپریم کورٹ نے سخت ہدایات دی ہیں،لیکن مہاراشٹر حکومت ان احکامات کو پیروں تلے روندتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس ساری کارروائی میں قانونی اور جمہوری اصولوں کو جس طرح پامال کیا گیا، وہ ہندوستان میں فسطائیت کے بڑھتے ہوئے سائے کی ایک اور جھلک ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ممبئی کے کھار علاقے میں ہیبی ٹیٹ کامیڈی کلب میں کنال کامرا نے اپنے شو کے دوران مہاراشٹر کی سیاسی صورتحال پر طنز کیا۔ شو کے دوران انہوں نے ایک گانے کے ذریعے موجودہ سیاستدانوں کی موقع پرستی کو ہدف تنقید بنایا۔ اس شو کے بعد شیو سینا(شندے گروپ)کے کارکنوں نے ہنگامہ کھڑا کیا،کلب میں توڑ پھوڑ کی اور کامرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ بعد ازاںبرہن ممبئی میونسپل کارپوریشن(بی ایم سی) کے حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسٹوڈیو پر غیر قانونی تعمیرات کا الزام لگا کر اسے جزوی طور پر منہدم کر دیا۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب کنال کامرا کو حکومت کے غصے کا سامنا کرنا پڑا ہو، وہ پہلے بھی مختلف تنازعات میں گھر چکے ہیں،جن میں 2020 میں ایک حکومتی حامی اینکر ارنب گوسوامی سے دوران پرواز سوالات پوچھنے پر ان پر کئی ایئر لائنز نے سفری پابندی لگا دی تھی۔وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسے گروہوں کے دباؤ کی وجہ سے ان کے کئی شوزبھی منسوخ کیے جا چکے ہیں۔

کیا حکومت اور اس کے حواری اتنے کمزور اور ناتواں ہوچکے ہیں کہ ایک کامیڈین کے طنز سے لرز اٹھتے ہیں؟ کیا جمہوری اقدار اتنی ناپید ہوچکی ہیں کہ ایک مزاحیہ گانے پر حکومت کا ڈھانچہ ہلنے لگتا ہے؟ کنال کامرا نے نہ تو کسی مخصوص شخصیت کا نام لیا،نہ ہی کسی پارٹی کو براہ راست نشانہ بنایا،لیکن پھر بھی انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک فرد کے طنز کا نہیں،بلکہ حکومت کی اس سوچ کا ہے جو کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔

کنال کامرا کے خلاف قانونی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں نشانہ بنانا اور پھر ان کے شو کی میزبانی کرنے والے کلب کو نشانہ بنانا،یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کی نشانیاں ہیں۔ حکومت اور اس کے وفادار کارندے ایک منظم حکمت عملی کے تحت آزادیٔ اظہار کے دروازے بند کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر لب پر تالے لگا دیے جائیں،ہر سوچ کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے اور ہر اختلافی آواز کو ریاستی جبر کے نیچے مسل دیا جائے۔

یہ وہی حکومت ہے جو اپنے مخالفین پر غیرمہذب حملے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی،لیکن جب خود پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو بلڈوزر، پولیس اور عدالتی شکنجے حرکت میں آ جاتے ہیں۔یہ وہی سیاست دان ہیں جو اپنے جلسوں میں زہر اگلنے سے باز نہیں آتے، لیکن جب کسی فنکار یا مزاح نگار کی زبان ان کی منافقت کو بے نقاب کرتی ہے تو وہ مشتعل ہو کر انتقامی کارروائی پر اتر آتے ہیں۔ یہ رویہ اس حکومت کی کمزوری اور اخلاقی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔

یہ معاملہ محض ایک مزاحیہ فنکار پر ہونے والے جبر کا نہیں،بلکہ یہ ہندوستان میں اظہاررائے کی آزادی پر حملے کی ایک اور کڑی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ عوام صرف وہی دیکھیں،سنیں اور بولیں جو اسے پسند ہو۔ جو اس کے بیانیے کے خلاف جائے، اسے یا تو قانونی شکنجے میں جکڑ دیا جائے یا پھر سماجی بائیکاٹ کا شکار بنا دیا جائے۔ لیکن کیا حکومت کو یاد نہیں کہ تاریخ کے صفحات ان حکمرانوں کے انجام سے بھرے پڑے ہیں جو عوام کی زبان بندی پر یقین رکھتے تھے؟ کیا وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جبر وقتی ہوتا ہے،لیکن آزادی کی خواہش دائمی؟

کنال کامرا کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے وہ بات کہی جو ہر ذی شعور ہندوستانی کے دل میں ہے۔ انہوں نے اقتدار کی چمک میں اندھے ہو جانے والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی اور یہی جرم اس حکومت کو سب سے زیادہ خوفزدہ کر گیا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران مذاق سے ڈرنے لگیں،جب وہ طنز کے سامنے کمزور پڑ جائیںاور جب وہ سچائی کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کریںتو ان کی جڑیں پہلے سے زیادہ کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔

جمہوریت میں طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے اور اگر عوام کی زبان بندی کی جاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہی عوام اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ سلسلہ اگر نہ رکا تو وہ وقت بھی آئے گا جب یہی بلڈوزر حکومتی ایوانوں کی بنیادیں ہلانے لگیں گے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS