حزب اختلاف کی زبردست مزاحمت اور حامی جماعت تیلگو دیشم پارٹی کی جانب سے مشروط حمایت کے درمیان دوراہے پر کھڑی مودی حکومت نے بالآخر وقف ترمیمی بل2024کو جائز ہ کیلئے پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔ اس سے قبل آج لوک سبھا میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو نے یہ متنازع وقف ترمیمی بل پیش کیا تھا۔ وقف قانون میںترمیم کی ضرورت بتاتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ گزرتے وقت کے ساتھ موجودہ وقف قانون اپنی افادیت کھوتا جا رہاہے۔نظام میں شفافیت لانے کیلئے موجودہ وقف قانون میں ترمیم کی جانی ضروری ہے۔
ہندوستان میں شاید ہی کوئی ہو جو اس امر سے انکار کرے کہ ملک بھرمیں پھیلے وقف اثاثوںکی لوٹ مچی ہوئی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقف خالصتاً اللہ پاک کی ملکیت ہیں،ان میں کسی طرح کی خیانت اور بدعنوانی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کاموجب بنتی ہے۔ وقف علی اللہ ہو یا وقف علی الاولادسب پر مفادپرستوں کی گرسنہ نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ چند ایک استثنیٰ کے ساتھ جو جہاں ہے، وہیں سے لوٹ رہاہے۔ مغربی بنگال سے کیرالہ تک وقف املاک پر قبضہ کی مسلسل وارداتیں ہورہی ہیں۔ وقف کردہ جائیداد کے نفع کو ذاتی تصرف میں لانے کے بجائے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کیے جانے کا بنیادی مقصد فوت ہوچلا ہے۔وقف کی قیمتی املاک کومعمولی اور حقیر کرایہ یا لیز پر لے کر لوگ کروڑوں اور اربوں کا منافع سمیٹ رہے ہیں۔ان حالات میں ایک صاف شفاف نظام متعارف کرایا جانا ضروری ہے۔ اس کیلئے ممکن ہے قانون میںترمیم بھی مطلوب ہو،لیکن ایسی ترمیمات اور اصلاحات کا تقاضا ہے کہ متعلقین کو اعتماد میں لے کر کی جائیں۔ جانبین سے صلاح و مشورے، ماہرین کی رائے اور فریقین کے مفاد کے ساتھ وقف کے بنیادی مقصد کو پیش نظررکھاجائے۔ اس نہج سے ہٹ کر کی جانے والی کوئی بھی ترمیم اصلاح نہیں سمجھی جائے گی۔ حکومت کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرے، اس کی نیک نیتی پریقین نہیں جاسکتا ہے۔ یہی کچھ وقف ترمیمی بل کے مقدر میں بھی ہے۔کابینہ سے منظوری کے بعد جب اس بل کے خدوخال باہر آئے تو حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوگئی۔اصلاح کیلئے ترمیم کے نام پر حکومت نے جتنی تجاویز متعارف کرائی ہیں، ان سبھی کا واحد مقصد مسلمانوں کی وقف املاک ہڑپنا ہے۔ اس بل میں ترمیم کیلئے پیش کی گئی ہر تجویز بہ زبان خود بتارہی ہے کہ بی جے پی حکومت وقف املاک کو قومیانے کیلئے ان کا کنٹرول چاہتی ہے اور مسلمانوں سے ان کے اثاثوں کو لوٹنا چاہتی ہے۔
1995کے جس وقف ایکٹ میں حکومت اصلاح پر مصر ہے اس میں کم و بیش 40ترمیمات کی گئی ہیں، اس کے ساتھ ہی موجودہ قانون کی کئی شقوں کو منسوخ بھی کردیاگیا ہے۔ ترمیم کی نئی تجویز میں مرکزی پورٹل کے ذریعے جائیدادوں کا رجسٹریشن اور مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کی تقرری شامل ہے۔اس ترمیمی بل میں حکومت کی بدنیتی ظاہر کرنے والی انتہائی خطرناک تجویزضلع کلکٹر کویہ اختیار دینا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی جائیداد وقف کی ہے یا سرکاری جائیداد ہے۔آج ہندوستان بھر میں متعدد مسلم مقامات وارانسی کی مسجد، متھرا کی عیدگاہ، مدھیہ پردیش کی کمال مولا مسجد(بھوج شالہ) وغیرہ وقف املاک کے طور پر درج ہیں جنہیں حکومت چھو نہیں سکتی ہے لیکن اگر یہ ترمیم ہوجاتی ہے تو ضلع مجسٹریٹ یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہوجائے گا کہ یہ وقف املاک ہے یاسرکاری املاک۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ڈی ایم یا ضلع مجسٹریٹ،ضلع کلکٹر، کمشنرریاستی حکومت کے ذریعہ مقرر کیے جاتے ہیں، یہ تمام افسران حکومت کی ہدایات پر کام کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وقف املاک پر ان کے کیا فیصلے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بل آئین کے آرٹیکل 14، 15، 25اور30 کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ یادرہے کہ آئین کا آرٹیکل 30 اقلیتوںکو اپنے ادارے سنبھالنے کا حق دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام امن پسند ہندوستانیوں کو اس غیرآئینی وقف ترمیمی بل کی مخالفت پر مجبور کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف نے بجا طور پر اس بل کوتقسیم انگیز،مسلم مخالف اورغیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کامطالبہ کیا۔اور تو اورحکومت میں شامل تیلگو دیشم پارٹی نے بھی اس کی حمایت کیلئے ’مزید جانچ‘ کی شرط رکھتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جانے کی وکالت کی توحکومت کو مجبور ہونا پڑااور بل کو جائزہ اور جانچ کیلئے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجاگیا ہے۔
ویسے بھی جیسا کہ ان ہی سطور میں چند ہفتوں قبل لکھا جاچکا ہے کہ موجودہ اپوزیشن پہلے کی طرح کمزور نہیں بلکہ مستحکم، توانا اور جارح بن کر بہار اقتدار کے سینہ میں تیرنیم کش کی طرح پیوست ہے، اس کے مطالبہ کو ٹھکراتے ہوئے اب کوئی بھی من مانا، امتیازی اور تفرقہ انگیز قانون پاس کرنا حکومت کیلئے آسان نہیں رہاہے۔
[email protected]
وقف ترمیمی بل پر حکومت کی پسپائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS