غداری قانون پر نظر ثانی کیلئے حکومت تیار

0

اگر کوئی قانون بظاہر بہت اچھا لگے مگر اس کے غلط استعمال کا شبہ ظاہر کیا جانے لگے، اس کے خلاف لوگ عدالت عظمیٰ میں چلے جائیں تو اس پر نظرثانی اور اس کا تجزیہ کرنے میں حکومت کو تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود سیکشن 124 اے پر تجزیے کے لیے مرکزی حکومت تیار نہیں ہوئی تھی، البتہ اب وزارت داخلہ نے ملک سے غداری کے قانون پر تین صفحے کا حلف نامہ عدالت عظمیٰ میں دائر کر کے کہا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی اور اس کا تجزیہ کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے کہا ہے کہ ملک سے غداری کے قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر سنوائی کرنے سے پہلے وہ نظرثانی کے عمل کے شروع ہونے کا انتظار کرے۔ سیکشن 124 اے پر مرکزی حکومت کے موقف میں یہ بڑی تبدیلی ہے مگر مثبت تبدیلی ہے، اس لیے اس کی ستائش کی جانی چاہیے اور امید کی جانی چاہیے کہ سیکشن 124 اے پر نظر ثانی کے عمل میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی اور نظر ثانی کا عمل مکمل ہونے تک اس قانون کے تحت کوئی متنازع گرفتاری نہیں ہوگی۔
ملک سے غداری ایسی ہی ہے جیسے ماں سے غداری۔ ملک سے غداری کرنے والوں کو بخشا نہیں جانا چاہیے۔ ان سے سختی سے پیش آنا چاہیے مگر یہ الزام عائد کیا جانے لگے کہ ملک سے غداری کے قانون کا سہارا لے کر بے قصور لوگوں کو پھنسایا جا رہا ہے تو غداری کے قانون کی ضرورت پر غور کیا جانا چاہیے، اس پر نظر ثانی کر کے یہ دیکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ قانون شکنی کرنے والوں کے لیے اس میں کہیں کوئی گنجائش تو باقی نہیں رہ گئی ہے، اس قانون کے تحت درج کیے گئے معاملوں کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ قانون کا استعمال کیوں اور کس طرح کیا جا رہا ہے اور یہ بات کیوں کہی جا رہی ہے کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے لیکن عدالت عظمیٰ نے تعزیرات ہند کے سیکشن 124 اے پر سنوائی شروع کی تھی تو مرکزی حکومت کا یہ موقف تھا کہ یہ قانون ضروری ہے جبکہ کسی بھی قانون پر بات کرتے وقت یہی نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ وہ کتنا ضروری ہے، دیکھا یہ بھی جانا چاہیے کہ کیا اس سے ملتا جلتا کوئی قانون پہلے سے موجود ہے، کیا اس قانون کی عدم موجودگی میں ملزمین بچ جائیں گے مگر سب سے پہلے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ اس قانون کا مثبت استعمال زیادہ ہو رہا ہے یا غلط استعمال، کیونکہ وطن عزیز ہندوستان میں اس بات پر ہمیشہ سے زور دیا جاتا رہا ہے کہ کسی بے قصور کوسزا نہ ہو۔ ستمبر 2020 میں ایک مقدمے کی سنوائی کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہا تھا، 1000 مجرمین قانون کے شکنجے سے بھلے ہی بچ جائیں مگر کسی ایک بے قصور کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ کورٹ کا ایسا کہنا ناقابل فہم نہیں تھا، بے قصور لوگوں کو سزا دینے سے سماج تباہی کی طرف بڑھ جاتا ہے، بے قصور کی سزا مجرمین کو پیدا کرنے کے لیے محرک بن جاتی ہے۔ سیکشن 124 اے پر نظر ثانی کے لیے حکومت اگر پہلے ہی تیار ہو جاتی تو معاملہ سپریم کورٹ کے پاس نہ جاتا مگر صحافیوں، کارکنوں، این جی او اور سیاسی لیڈروں کو اس قانون کے غلط استعمال کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنی پڑی، کیونکہ وہ حالات سے آنکھیں نہیں موند سکتے تھے۔ ان کے لیے یہ بات باعث تشویش تھی کہ ملک سے غداری کے بے تحاشہ معاملے درج کیے جا رہے ہیں مگر ان معاملوں میں پولیس کتنی ’صحیح ‘ تھی، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 2016 سے 2019 کے درمیان سیکشن 124 اے کے تحت درج کیے جانے والے معاملوں میں 160 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ سزا صرف 3 فیصد معاملوں میں دی گئی۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہونا فطری تھا کہ سیکشن 124 اے کا غلط استعمال ہو رہا ہے لیکن یہ توقع رکھی جانی چاہیے کہ حالات بدلیں گے، سیکشن 124 اے پر نظر ثانی اور تجزیے کے لیے حکومت کا تیار ہوجانا نیک فال ہے۔ اسے حکومت کا ’یو ٹرن‘ کہنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ دیر سے ہی سہی حکومت نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ کسی قانون کے تئیں بے چینی اچھی نہیں، اس قانون پر نظر ثانی اور اس کا تجزیہ کرنے میں اس کی کوئی سبکی نہیں بلکہ اس کے اس قدم سے لوگوں میں یہ مثبت میسج جائے گا کہ وہ کسی قانون کے حوالے سے لوگوں کو بے چین رکھنا نہیں چاہتی۔ اسی لیے یہ توقع ہے کہ سیکشن 124 اے پر نظر ثانی اور تجزیے کا نتیجہ بہتر آئے گا، نتیجہ ایسا آئے گا کہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں عرضی دائر کرنے والوں کو مایوسی نہیں ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS