ڈاکٹر جاوید عالم خان
ہندوستان کی پائیدار ترقی کے لیے ریسرچ کے میدان میں سرکاری اخراجات میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک ریسرچ سے متعلق سرکاری اخراجات کے معاملے میں دنیا کے اہم ملکوں جیسے امریکہ، برطانیہ، جاپان، چین اور ساؤتھ کوریا سے کافی پیچھے ہے، اس وجہ سے اچھے ریسرچ اداروں اور ریسرچر، پیٹنٹ اور ریسرچ سے متعلق اشاعت کے میدان میں مذکورہ ممالک سے پچھڑتا جا رہا ہے۔ اگر ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر سرکاری اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان کل جی ڈی پی کا6.0فیصد خرچ کر رہا ہے، اس میں41فیصد سرکار کا حصہ ہے باقی پرائیویٹ سیکٹر سے آتا ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ریسرچ پر ہمارے ملک کے ذریعہ سرکاری سرمایہ کاری ترقی یافتہ ممالک اور نئی ابھرتی ہوئی معیشتوں والے مشرقی ایشیا کے ممالک سے کافی کم ہے، یہ ممالک جی ڈی پی کی شرح میں2فیصد سے زیادہ اخراجات ریسرچ پر کرتے ہیں۔
گزشتہ سال مرکزی حکومت نے ایک ریسرچ ادارہ کے قیام کا فیصلہ لیا ہے جس کا نام نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن(این آر ایف)ہے۔ اس کے قیام کے لیے مرکزی کابینہ نے اس ادارہ کے ڈرافٹ بل کو منظور کر د یا تھا۔ پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد یہ بل قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) کی سفارشات کے مطابق ملک میں سائنسی تحقیق کی اعلیٰ سطحی حکمت عملی کی سمت فراہم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ تحقیقی ادارہ این آر ایف کی شکل میں قائم کررہا ہے۔ جس کی کل تخمینہ لاگت پانچ سالوں(2023-28) کے دوران50,000کروڑ روپے ہوگی۔50,000کروڑ روپے کے کل فنڈ میں سے مرکزی حکومت16,000کروڑ روپے فراہم کرے گی اور باقی رقم پرائیویٹ سیکٹر سے جمع کی جائے گی۔ این آر ایف کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد تعلیمی اداروں خاص طور پر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جہاں تحقیقی صلاحیت اس وقت ابتدائی مرحلے میں ہے، اضافہ اور تحقیق کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارہ خاص طور سے بڑے پیمانے پر صنعت کے سیکٹر، متعلقہ وزارتوں، محکموں اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے اعلیٰ اثرات والے کثیرتحقیقاتی، ادارہ جاتی اور بعض صورتوں میں بین الضا بطہ یا کثیر القومی منصوبوں کے لیے فنڈ اور معاونت بھی کرے گا۔
اس ادارہ کے قیام کا مقصد ہندوستان کے قومی ترقیاتی ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں ریسرچ کی جائے گی جو تمام میدان میں ملک کی ضرورت کے مطابق نئی تحقیق کے ذریعے علم کا اضافہ کرے گا جس سے سماجی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی کو بڑھایا جا سکے گا۔ این آر ایف اب سائنس اینڈ ریسرچ بورڈ آف انڈیاکی جگہ لے گا جو 2009میں قائم کیا گیا تھا۔ ملک کے وزیراعظم این آر ایف بورڈ کی صدارت کریں گے۔ مرکزی وزیر تعلیم اور وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نائب صدر کے طور پر کام کریں گے۔ این آر ایف بورڈ کو ایک سوسائٹی کے تحت رجسٹر کیا جائے گا جس میں18ممبران شامل کیے جائیں گے، ان ممبران کا تعلق ملک اور بیرون ملک سے ہوگا۔ این آر ایف بورڈ کے ممبران میں معروف سائنس داں، مشہور صنعت کار اور سینئر سرکاری عہدیدار شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ دس بڑے ڈائریکٹوریٹ پر مشتمل ہو گا اور مختلف موضوعات جیسے نیچرل،طبعی، سائنس، ریاضیات، انجینئرنگ، ماحولیات اور زمین سے متعلق سائنس، سماجی سائنس، آرٹس اینڈ ہیومنٹیز، ہندوستانی زبان اور نالج سسٹم، صحت، زراعت، اختراع اور انٹرپرینیورشپ۔ این آر ایف بورڈ ان تمام ڈائریکٹوریٹ کے کام کی نگرانی کرے گا۔ ہر ایک ڈائریکٹوریٹ کے لیے ایک صدر، نائب صدر اورسکریٹری کی تقرری کی جائے گی۔ این آر ایف کے مقاصد کے مطابق زیادہ تر توجہ سائنٹفک ریسرچ پر دی جائے گی لیکن ساتھ میں سوشل سائنس ریسرچ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگر ریسرچ کے میدان میں سرکاری اخراجات کی بات کی جائے تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر مختلف وزارتیں اور شعبے اپنے مقاصد کے حساب سے ریسرچ کے لیے فنڈ مختص کرتے ہیں،اس کے علاوہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ(NCERT)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(یو جی سی)، سائنٹفک ریسرچ اور سوشل سائنس ریسرچ کے لیے مخصوص اداروں کو بھی چلایا جا رہا ہے جیسے کہ سوشل سائنس ریسرچ کے لیے انڈین کونسل فار سوشل سائنس ریسرچ (ICSSR) ملک بھرمیں28ادارے مختلف صوبوں میں چلا رہا ہے۔ اسی طرح سے سائنس کے میدان میں کاؤنسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ(سی ایس آئی آر)کی کئی شاخیں مختلف صوبوں میں کام کر رہی ہیں، اس کے علاوہ الگ الگ موضوعات پر جیسے زراعت، ثقافت، تاریخ، عالمی امور، اقتصادیات، سیاسیات، سماجیات اور دیگر موضوعات پر صوبائی اور مرکزی سطح پر ریسرچ ادارے کام کر رہے ہیں۔
اس وقت ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے لیے حکومت ہند دو طرح کی گرانٹس مہیا کراتی ہے، پہلی بنیادی گرانٹس (Core Grants)ہے اور دوسری غیرمعمولی گرانٹس(Extramural Grants) ہے۔ زیادہ تر اخراجات بنیادی گرانٹس کے ذریعہ ہی کیے جاتے ہیں۔2019-20 میں شعبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ تیار کی گئی رپورٹ( ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر اعداد و شمار) کے مطابق 2016 تا 2017 میں حکومت نے 42ہزار کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ تین اہم اداروں جیسے کہ ڈیفنس ریسرچ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن(31.8 فیصد)، ڈپارٹمنٹ آف اسپیس(19فیصد) اور ڈپارٹمنٹ آف ایٹامک انرجی نے اپنی زیادہ تر ریسرچ بنیادی گرانٹس کے ذریعہ کی، اس کے علاوہ اوپر ذکر کیے گئے سرکاری اخراجات کا فائدہ جن ریسرچ اداروں نے اٹھایا، ان میں آئی سی اے آر(10.4فیصد)، سی ایس آئی آر(5.9فیصد)، ڈی ایس ٹی( 8.4فیصد)، ڈی بی ٹی( 3.4فیصد) اور آئی سی ایم آر (5.2 فیصد) شامل ہیں۔ یہ سارے ادارے ملک کے مختلف صوبوں میں اپنی ریسرچ شاخیں بھی چلاتے ہیں، جیسے کہ آئی سی اے آر، سی ایس آئی آر، ڈی ایس ٹی اور ڈی بی ٹی بالترتیب 102 ،38 ، 20 اور 15 ادارے چلا رہے ہیں اور ان کے سارے ریسرچ اخراجات بنیادی گرانٹس پر مشتمل ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے اور سماجی علوم پر کم توجہ دی گئی ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان تمام ریسرچ اداروں کی موجودگی میں ایک نئے ادارے کے قیام کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیا یہ موجودہ ادارے ملک میں ریسرچ کی ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں؟ اگر نہیں کر پا رہے ہیں تو اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ گزشتہ کئی سالوں سے حکومت نے ریسرچ کے میدان میں پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے ریسرچ ادارے چلانے کی اجازت دی ہے اور ملک اور بیرون ملک کی ریسرچ کنسلٹنسی فرم حکومت کے زیادہ تر ریسرچ سے متعلق کام کر رہی ہیں، اس میں بڑی عالمی مشاورتی فرمیں، پیشہ ورانہ خدمات کی فرمیں اور قومی ہندنژاد کمپنیاں جیسے میک کینس اینڈ کمپنی، بوسٹن کنسلٹنگ گروپ، ڈیلوٹ، ای وائی، کے پی ایم جی اور پی ڈبلیو سی شامل ہیں۔ وہیں غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ چلائے جا رہے ریسرچ اداروں پر حکومت کی زیادہ توجہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایف سی آر اے ایکٹ(FCRA)کے ذریعہ حاصل کیے جانے والے فنڈ کو حکومت نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے جس کا سیدھا اثر یہ ہوا ہے کہ بیرون ملک کے ذریعہ آنے والا ریسرچ فنڈ یا تو بند ہوگیا ہے یا کافی حد تک محدود ہوگیا ہے۔کئی عالمی این جی اوز اور تھنک ٹینک نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ وہ اپنے دفاتر ہندوستان میں نہیں چلائیں گے۔ ایف سی آر اے ایکٹ کے ذریعہ کئی ساری یونیورسٹیاں بھی بیرون ممالک سے ریسرچ فنڈ حاصل کرتی رہی ہیں لیکن حکومت نے ایکٹ میں تبدیلی کے بعد کئی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینک اداروں کے لائسنس منسوخ کر دیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے آکسفیم انڈیا، سینٹر فار پالیسی ریسرچ اور سینٹر فار اکوٹی اسٹڈیز کے ایف سی آر اے لائسنس کو منسوخ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ بیرون ممالک سے ریسرچ سے متعلق فنڈ حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر حکومت کے ذریعہ این آر ایف کے قیام اور اس کے مقاصد پر غور کیا جائے تو حکومت کی یہ کوشش اس کے دوہرے رویے کو دکھاتی ہے ایک طرف حکومت این آر ایف کے لیے پرائیویٹ سیکٹر اور بیرون ممالک سے سرمایہ کاری چاہتی ہے، وہیں نئے ایف سی آر اے قوانین کے ذریعہ غیرسرکاری تنظیموں سے متعلق ریسرچ اداروں کے فنڈز کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ اگر حکومت ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کو فروغ دینے کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو وہ سرکاری اخراجات کو بڑھائے اور ساتھ ہی کمیونٹی ڈیولپمنٹ سے متعلق سوشل سائنس ریسرچ کو بھی بڑھاوا دے تاکہ زمینی سطح پر غریب عوام جن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کا حل نکالا جا سکے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]