حکومت کا غربت کی شرح میں کمی کا دعویٰ : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

2015 میں اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDG) نے2030تک پوری دنیا میں غربت کے خاتمے کا عزم کیا تھا۔ملک میں حالیہ دنوں میں معاشی میدان میں دو اہم خبریں گردش کررہی ہیں پہلی خبر کا تعلق نیتی آیوگ کے اس دعوے سے ہے کہ ہندوستان اس وقت دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے اور دوسری اہم بڑی خبر عالمی بینک کی طرف سے ہے کہ ہندوستان میں غربت کی شرح میں کافی گراوٹ آئی ہے اور اس وقت اس کی کل آبادی کے تقریباً6فیصد عوام ہی خط افلاس(Poverty Line) سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں جن کی معاشی صورتحال بدتر ہے۔ مرکزی حکومت نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں171ملین عوام کو خط افلاس سے اوپر لایا گیا ہے۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ2011-12میں غریبی کا تناسب27فیصد تھا۔ جہاں تک عالمی بینک کے نئے تخمینے کا سوال ہے تو ہندوستان میں گزشتہ تخمینے میں بھی بہت زیادہ لوگ غریب نہیں تھے۔اعدادوشمار کے مطابق 1977-78میں غریبی کی سطح64فیصد کے بجائے صرف 47فیصد ہی تھی۔

دراصل غربت کے تناسب میں بدلاؤ کی سب سے اہم وجہ غریبی ماپنے کی لکیر کے موجودہ طریقہ کار میں تبدیلی ہے جیسے کہ عالمی بینک میں غربت کی نئی لکیر کیلئے روزانہ فی کس 3ڈالر کی آمدنی متعین کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہندوستانی روپیہ اور ڈالر کے زر مبادلہ کو مدنظر رکھا جائے تو ہندوستانی روپیہ کی قیمت فی ڈالر85روپے کے برابر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خط افلاس کو متعین کرنے کیلئے ایک دن میں کم سے کم آمدنی255روپے ہونی چاہیے حالانکہ اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے، وہ ملکوں کے درمیان مساوی قوت خرید(Purchasing Power Parity) ہے۔ یہ نظریہ1920میں ماہر معاشیات گستاف کیسل نے پیش کیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ دو ممالک میں ایک جیسی اشیاء ان ممالک کے کتنے روپے میں خریدی جاسکتی ہے مثلاً امریکہ میں ایک ڈالر میں جتنی اشیا خریدی جاسکتی ہیں، وہ کتنے ہندوستانی روپے میں خریدی جاسکتی ہیں۔ مساوی قوت خرید شرح تبادلہ کے بارے میں آسان لفظوں میں اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ہندوستانی روپے کی شرح تبادلہ ڈالر کے ساتھ85روپے فی ڈالر ہے مگر ہندوستان میں60روپے میں اتنی اشیاء خریدی جاسکتی ہیں جتنی ایک امریکی ڈالر میں، تو شرح تبادلہ60روپے کے حساب سے آمدنی کو ڈالر میں تبدیل کیا جائے گا ناکہ اصل شرح تبادلہ میں، اس سے عوام کی درست قوت خرید کا اندازہ ہوگا اور اسے مساوی قوت خرید تبادلہ کہا جاسکتا ہے۔

ملک میں گھریلو سطح پر خط افلاس کو متعین کرنے کیلئے 2009میں تندولکر کمیٹی سے پہلے خط افلاس کو طے کرنے کیلئے جو سفارشات پیش کی گئی تھیں، اس کے تحت روزانہ فی کس آمدنی شہروں میں15روپے اور دیہاتوں میں 12روپے متعین کی گئی تھی، بعد میں تندولکر کمیٹی نے اس کو شہروں کیلئے29روپے فی کس اور دیہی علاقوں کیلئے 22روپے فی کس متعین کیا تھا۔2011-12میں اس میں مزید اضافہ کیا گیا اور شہروں کیلئے36روپے اور دیہی علاقوں کیلئے30روپے متعین کیے گئے تھے۔ 2014 میں سی رنگا راجن کمیٹی نے خط افلاس میں مزید تبدیلی کی تھی اور اس کو فی کس47روپے شہری علاقوں اور33روپے دیہی علاقوں کیلئے متعین کیا تھا حالانکہ ان سفارشات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا تھا۔ اس سلسلے میں ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت کی شرح کا صحیح تخمینہ کبھی بھی صحیح طریقے سے نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بارے میں معلومات جمع کرنے کیلئے اعدادوشمار اور صحیح طریقہ کارکا نفاذ ابھی بھی نا کافی ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں غربت کے تناسب میں کافی اتار چڑھاؤ ہو سکتا ہے اور یہ تناسب کم سے کم 2 فیصد اور زیادہ سے زیادہ85فیصد بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کا انحصار خط افلاس اور اس سے منسلک طریقہ کار یا میتھاڈولوجی پر ہے۔ ہندوستان جیسے ملک جہاں پر آمدنی اور قوت صرف کی شرح میں کافی کمی اور عدم مساوات ہے، خط افلاس کو متعین کرنا ایک مشکل کام ہے اور اسی وجہ سے حکومتیں اس کو اپنے نظریے اور سیاسی فائدے کے حساب سے طے کرتی آرہی ہیں۔

یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی بینک کے حساب سے5.75فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے اپنی زندگی گزار رہی ہے، وہیں ایک تہائی آبادی قومی خوراک تحفظ ایکٹ کے ذریعے مفت راشن کی سہولیات لے رہی ہے جو کہ اپنے آپ میں موجودہ اعدادوشمار کو جھٹلانے کی کوشش ہے اور اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے بہتر طریقہ کار کو تلاش کیا جائے، اس وقت ملک میں83فیصد عوام173روپے فی کس آمدنی پر گزارہ کر رہے ہیں۔

موجودہ وقت میں سرکاری سطح پر اشیاء پر ہونے والے اخراجات کو غریبی کے اعدادوشمار کے تخمینے کو معلوم کرنے کیلئے کیا جاتا ہے، اس کے تحت زندہ رہنے اور کام کرنے کیلئے کم سے کم کیلوری انٹیک کو متعین کیا جاتا ہے، اس کے تحت کھانے پینے کے ذریعے جو توانائی ملتی ہے، اس کو اعدادوشمار میں شامل کیا جاتا ہے۔ انسان کے ذریعے خوراک کے استعمال کو غذائیت اور توانائی کی قدر کو اعدادوشمار کی شکل میں دیکھا جاتا ہے حالانکہ حالیہ دنوں میں کھانے کی تھالی کو بھی ایک معیار بنا کر غریبی کی سطح کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے تحت چاول، روٹی، دال، سبزیاں، دودھ، گوشت، مچھلی کو خوراک کی تھالی میں شامل کیا گیا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عام طور پر ایک فرد اس کو کیسے حاصل رکھتا ہے۔ ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق2023-24 میں ایک تھالی کی قیمت30روپے رکھی گئی ہے اور اس کے ذریعے ایک گھر کے اندر تیار کیے گئے کھانے کی قیمت کا تعین کیا گیا ہے۔2023-24میں ہندوستان کے دیہی علاقوں میں40فیصد آبادی روزانہ دو تھالی بھی حاصل نہیں کر پارہی ہے، اسی طرح سے شہری علاقوں میں10فیصد آبادی کو دو تھالی بھی دستیاب نہیں ہیں۔

یہ اعدادوشمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ زیادہ تر عوام کو دو تھالی بھی مہیا نہیں ہیں جبکہ ہم خوراک یا اشیا پر صرف کیے گئے اخراج کی بنیاد پر غریبی کا تخمینہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے5اور اہم چیزوں پر بھی اخراجات کیے جاتے ہیں جیسے کہ گھر، تعلیم، صحت، ٹیلیفون اور نقل و حرکت پر بھی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اخراجات ضروری ہیں جن کو عام طور پر غریبی کی سطح کو ماپنے کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا ہے جن کو شامل کرنا نہایت ضروری ہے۔ ماہرین معاشیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اشیا پر صرف کیے گئے اخراجات کے ذریعے غربت کی سطح کا اندازہ کرنا مشکل ہے، اس لیے حکومت کو آمدنی کا سروے کرنا چاہیے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے ایک ٹیکنیکل ایکسپرٹ گروپ کا قیام کیا ہے، یہ کمیٹی گھریلو آمدنی پر اعدادوشمار جمع کرنے کیلئے ایک میتھاڈولوجی تیار کرے گی جس سے یہ اندازہ کیا جائے گا کہ لوگوں کی حقیقی آمدنی کی سطح کیا ہے۔ یہ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے کام کرنے والے لوگوں کی اجرت پر اس کے کیا اثرات ہوئے ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بھی 1950 اور 1960 کی دہائی میں گھریلو آمدنی پر سروے کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے ذریعے یہ پایا گیا تھا کہ آمدنی کا تخمینہ بچت اور صرف کے تخمینے سے کم تھا۔

مرکزی حکومت کی وزارت برائے اسٹیٹسٹکس اور پروگراموں کے نفاذ کے ذریعے ہندوستان کے اقتصادی اشاریے پر اعدادوشمار جمع کیے جاتے ہیں جیسے کہ جی ڈی پی، کنزیومر پرائس انڈیکس، صنعتوں پر پیداوار کیلئے انڈیکس، لیبر فورس سروے، انڈسٹری کا سالانہ سروے، گھریلو صرف پر سروے وغیرہ وغیرہ۔ وزارت کے مطابق2024-25 میں موجودہ قیمتوں کے مطابق فی کس خام سالانہ قومی آمدنی 2.31لاکھ ہے، اس میں گزشتہ سال کے مقابلے8.7فیصد کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ حالانکہ یہ ملک کی مجموعی آبادی کا ایک اوسط آمدنی کا تخمینہ ہے جوکہ غریبی ماپنے کیلئے متعین کی گئی، آمدنی کا بالکل متضاد ہے۔

(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS