خواجہ عبدالمنتقم
ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کا آئین حکومتی اور معاشرتی نظام کا مستند منشور ہوتا ہے اور وہ ارباب حکومت کے لیے طریقۂ حکومت کی سند کا جواز رکھتا ہے۔ اسی غرض سے آئین کی دفعہ(75(3) میں یہ توضیع کی گئی ہے کہ وزرا کی کونسل لوک سبھا کے روبرو اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوگی۔ وزرا کونسل، جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے، کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزرا کونسل، صدر جمہوریہ کی معاون و مشیر کے طور پر بھی کام کرتی ہے اور صدر جمہوریہ بھی اپنے کارہائے منصبی انجام دیتے وقت اس کے مشورے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ہر جمہوری نظام حکومت میں ارباب حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی اثر و رسوخ کے بغیر میلان طبع یا جانبدارانہ فکر و عمل سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی انتہائی ایمانداری، دیانتداری اور غیر جانبدارانہ طریقے سے انجام دے گی۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لیے ہر وزیر کو مندرجہ ذیل عبارت پر مشتمل حلف دلایا جاتا ہے۔
’میں الف ب۔ خدا کے نا م سے حلف اٹھاتا ہوں/ اقرار صالح کرتا ہوں کہ میں بھارت کے آئین پر جو قانون کے بموجب طے پایا ہے اعتقاد رکھوں گا اور اس کا وفادار رہوں گا، میں بھارت کے اقتدار اعلیٰ اور سالمیت کو برقرار رکھوں گا، میں یونین کے وزیر کی حیثیت سے اپنے فرائض وفاداری اور دیانت داری سے انجام دو ںگا اور میں ہر طرح کے لوگوں کے سا تھ آئین اور قانون کے بموجب بلا خوف یا رعایت،عناد یا شفقت انصاف کروں گا‘۔
ویسے بھی جب انسان کسی آئینی عہد ے کا حلف اٹھا لیتا ہے تو اس میں ایک نیا انسان جنم لیتا ہے اور اسے اپنے فرائض کی انجام دہی کے معاملے میں اپنے اس حلف کی پاسداری کرنی پڑتی ہے جو اس نے اپنا عہدہ سنبھالتے وقت لیا ہو۔ علاوہ ازیں وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے خیالات اور سوچ میں بھی فرق آتا ہے۔ سفر حیات میں انسان کی زندگی میں اور اس کے روبرو نئے نئے تجربات ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جب سماجی، سیاسی، معاشی، ثقافتی و فکری منظر نامہ بدلتا ہے تو اس کی سوچ میں تھوڑی بہت تبدیلی آنا لازمی ہے لیکن انسان اپنی اس سوچ میں تبدیلی آنے کے باوجود ایک مہذب شہری ہونے کے ناطے آئینی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اس کا اطلاق وزرا کونسل پر بھی ہوتا ہے اور اس سے بھی اپنے حلف کی پاسداری کے لیے یہ توقع کی جاتی ہے کووہ اپنی متذکرہ اجتماعی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نبھائے۔ اگر وہ یہ ذمہ داری نبھانے کے معاملے میں کوتاہی برتتی ہے تو حزب اختلاف ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ وہ حکومت وقت کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔ اس کی عقابی نظریں ہمہ وقت حکومت کی لغزش پر رہتی ہیں اور ان کا، خواہ وہ منی پور کا معاملہ ہویا دیگر کسی سیاسی، سماجی و معاشی نوعیت کا، پر پڑنا ایک عام سی بات ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ حزب اختلاف کی بات کو بھی دھیان سے سنے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کی ہر بات تنقید برائے تنقید ہو۔ اسے بھی ملک و قوم کا مفاد اتنا ہی عزیز ہوتا ہے جتنا حکومت وقت کو۔ آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومت کی اجتماعی ذمہ داری سے کیا مراد ہے؟
پارلیمانی نظام حکومت میں اجتماعی ذمہ داری کے اصول کو ایک بنیادی و کلیدی اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر قلمبند کیا وزرا کونسل آئین کی دفعہ 75(3) کے تحت لوک سبھا کے روبرو اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوگی یعنی پوری کی پوری وزرا کونسل اپنے ہر فعل یا ترک فعل یعنی کوئی کام کرنا بھول جانا یا جان کر نہ کرنا ،کی اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوگی۔
آئیے اب یہ جاننے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتمادسے کیا مراد ہے؟ وہ کب لائی جاسکتی ہے اور اس کی منظوری یا نامنظوری کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟
اگر وزرا کونسل اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتی ہے اوروہ اپنی اجتماعی ذمہ داری بخوبی نہیں نبھاتی تو حزب مخاف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوک سبھا کے طریقۂ کار اورکام کاج سے متعلق قواعد کے قاعدہ98 کے تحت صرف لوک سبھا میںتحریک عدم اعتماد لا سکے۔ ایسی تحریک لانے کے لیے پارلیمنٹ کے کم از کم 50 چنندہ ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ اگر پچاس فیصد سے زیادہ ارکان اسے منظوری دے دیتے ہیں تو وہ تحریک منظور ہو جاتی ہے۔ اگر بر سر اقتدار حکومت اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو تمام وزرا کو مع ان وزرا کے جو راجیہ سبھا کے رکن ہیں، مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ اجتماعی ذمہ داری کے اصول کے مطابق تمام وزرا کے لیے کابینہ کے ہر فیصلہ کی پابندی لازم ہے۔ اگر وہ اس سے متفق نہ ہوں تو انہیں مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ 1953 کی بات ہے جب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو ہندو کوڈ بل کی مخالفت کے سبب مستعفی ہونا پڑا تھا۔
آئیے اب سپریم کورٹ کے ان چند فیصلوں کی بات کرتے ہیں جن میں اجتماعی ذمہ داری زیر بحث آئی۔ کامن کاز بنام یونین آف انڈیا والے معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اس اصول کے دو پہلو ہیں- ایک تو یہ کہ حکومت کے تمام ارکان اس کی تمام پالیسیوں کی متفقہ طور پر حمایت کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اگر ہر کامیابی کا سہرا سب کے سر ہے تو تمام وزرا حکومت کی ہر ناکامی کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔
ایس-پی-آنند بنام ایچ-ڈی-دیوی گوڑا والے معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھاکہ اجتماعی ذمہ داری کا اصول ایک ایسا اصول ہے جس کی رو سے یہ قیاس کرنا لازمی ہے کہ حکومت نے تمام فیصلے متفقہ طور پر لیے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم کے ہاتھ میں یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ کابینہ میں اتحاد اور ڈسپلن قائم رکھ سکتے ہیں۔
اب رہی بات کہ حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کا ہی سہارا کیوں لیتی ہے جبکہ اس کے سامنے اور بہت سے متبادل بھی ہوتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ان کی بات حسب دلخواہ نہیں سنی جاتی اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ وزرا کونسل کے سربراہ یعنی وزیر اعظم خود ان کی بات سنیں، وہ وزیر اعظم کو اس صورت حال سے باور کرائیں جس کے سبب یہ تحریک لائی گئی ہے اور اس کے بعد وزیر اعظم تفصیلی جواب دیں جس سے حزب اختلاف کو تسلی بخش جواب مل سکے اور اور تحریک عدم اعتماد کا مثبت نتیجہ نکلے اور وہ با معنی ثابت ہو۔ایسی تحریک نیک نیتی سے لائی جانی چاہیے نہ کہ حکومت کے کام کاج میں دخل اندازی اور اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی نیت سے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ حزب اختلاف کی جائز بات سننے میں کوئی پس و پیش نہ کرے۔ آئین کا بنیادی مقصد بھی معاشرے کوامن وامان اور سکون کی دولت عطا کرنا اور ملک کے شہریوں اور دیگر لوگوں کو جن پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، جائزحدود میں رکھنا ہے۔ آئین کسی کو بھی اس سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہیں دیتا۔ بعض معاملات کا تصفیہ حکومت کے اختیار تمیزی یا صواب دید پر منحصر ہوتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ حکومت من مانے ڈھنگ سے اپنے اس اختیار تمیزی کا استعمال کرے اور جو چاہے فیصلہ دے دے یا حکم صادر کردے بلکہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد ہی، حسب صورت، کوئی فیصلہ دے یا حکم صادر کرے ، خواہ یہ معاملہ تحریک اعتماد کی اجازت دینے کی بات ہو یا کوئی دیگر معاملہ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو ہمیشہ اس بات کاخدشہ رہتا ہے کہ ایسا فیصلہ یا حکم عدالتی کارروائی کے بعد کالعدم نہ قرار دے دیا جائے۔ مختصر یہ کہ عام طور پر تحریک عدم اعتماد کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے، شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے اور حزب اختلاف کی بات بالکل نہ سنی جائے ۔
یاد رہے کہ ہمارا سپریم کورٹ کتنے ہی معاملوں میں بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ انسانی معاشرے میں بیک وقت قانون اور اخلاق کے دو معیاری نظام پائے جاتے ہیںاور یہ دونوں نظام بعض مقامات پر ایک دوسرے کے قریب ہوجاتے ہیں لیکن بعض مقامات پر ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔ اس کا فیصلہ ہر معاملے کے حقائق کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے نہ کہ محض قیاس آرائی کی بنیاد پر۔ جہاں تک منی پور کے معاملے کی بات ہے، اس میںبیک وقت قانون اور اخلاق کے دو معیاری نظام ہم آہنگ ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد گرنے اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کرنے کے باوجودحکومت وقت (مرکزی و ریاستی) دونوں کی یہ قانونی و اخلاقی ذمہ داری تھی اور ہے کہ وہاں جس درندگی کا ثبوت دیا گیا ہے اور کتنے ہی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، امن و امان قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کوشش میں فعالیت کی جھلک نظر آئے۔باقی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ سیاسی نقطۂ نظر سے اکثریت کا اقلیت پر غالب ہونا لازمی ہے۔ چونکہ بقول علامہ اقبال:ؔ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے