گجرات کے موربی میں مچھو ندی پر انگریزوں کے بنائے گئے کیبل پل حادثہ میںمہلوکین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کل تک ہلاکتوںکی تعداد150بتائی جارہی تھی لیکن ندی میں بہہ بہہ کر دور تک پہنچنے والی لاشیں جیسے جیسے باہر آرہی ہیں، یہ تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ لاپتہ اور گم شدہ افراد کی تلاش میں کئی مہمات ترتیب دی گئی ہیں جو ندی کے مختلف حصوں میں لاشوں کی تلاش کا کام کررہی ہیں۔یہ تلاش کب تک جاری رہے گی کچھ کہا نہیںجاسکتا ہے۔لیکن حادثہ کی اصل وجہ کو پوشیدہ رکھنے اورحادثہ کے گنہگاروں کو بچانے کی بھر پور کوشش ہورہی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے حادثہ کی جانچ کیلئے بنائی گئی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم(ایس آئی ٹی) نے 72 گھنٹے بعد بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے نہ تو یہ پتہ لگایا جاسکا ہے کہ یہ حادثہ کیوں ہوا؟ نہ پل کی مرمت اور اس کی دیکھ بھال کے حوالے سے ہی کوئی رپورٹ جمع کی گئی ہے۔ نہ یہ بتایا جارہاہے کہ پل کی دیکھ بھال اوراس کی صحت جانچ سے متعلق فٹنس کی رپورٹ کس نے دی تھی اور اگر رپورٹ نہیں دی گئی تھی تو پھر پل کا افتتاح کیسے کردیا گیا؟ افسوس ناک بات تو یہ بھی ہے کہ جس کمپنی کو اس کا م کا ٹھیکہ دیاگیا تھا، اس کمپنی کے مالک جے سکھ پٹیل کا نام بھی ایف آئی آر میں درج نہیں کیاگیا ہے۔
اس درمیان کمپنی کے ایک منیجر دیپک پاریکھ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ’ بھگوان کی مرضی تھی ‘ کہ یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ کو ٹالا نہیں جاسکتاتھا یہ ہونی تھی جو ہوکر رہی۔ دیپک پاریکھ اورائیوا کمپنی کے ان 9 لوگوں میں شامل ہے جنہیں اس پل کے گرنے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ پاریکھ نے یہ دعویٰ مقامی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سینئر سول جج ایم جے خان کی عدالت میں کیا۔اس نے عدالت میں کہا کہ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر سے لے کر نچلے درجے کے ملازمین تک سبھی نے سخت محنت کی، لیکن بھگوان کی مرضی تھی کہ ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔بھگوان کی مرضی کے آگے ہم سب بے بس ہیں۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پل کی مرمت ہی نہیں کی گئی تھی۔اسی عدالت کو پولیس نے بتایا کہ پل کا کیبل زنگ خوردہ ہوکر کمزور ہوگیاتھا، اگر کیبل کی مرمت کی جاتی ہے یا اسے بدل دیاجاتا تو یہ حادثہ ہی نہ ہوتا۔
یہ حقائق بھی سامنے آچکے ہیں کہ پل کی مرمت کیلئے 15سال کا ٹھیکہ لینے والی اورائیواکمپنی کے مالک پی ایم او تک رسائی رکھنے والے تاجرجے سکھ پٹیل نے جن سے پل کی مرمت کاکام لیا وہ نہ اس کا تجربہ رکھتے تھے اورنہ وہ اس قابل ہی تھے کہ وہ یہ کام کرسکتے۔ مرمت کے نام پر صرف پل کے فرش کو ٹھیک ٹھاک کیاگیا تھا۔ 100آدمی کی گنجائش کے ساتھ یہ پل جن کیبلز کے ساتھ تنا ہواکھڑا تھا وہ زنگ آلود ہوکر کمزور پڑچکے تھے لیکن پیسہ کے لالچ میں اس پل پر سوار ہونے کیلئے675افراد کو ٹکٹ بیچ دیے گئے۔ ایسا بھی نہیں ہے اس کی جانکاری مقامی انتظامیہ کو نہیں تھی جو یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے پل کافٹنس سرٹیفکیٹ نہیں دیا تھا۔پل کا افتتاح 26اکتوبر کو ہوا اور 4دنوں تک بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے اورائیواکمپنی اس پل کاٹکٹ بیچتی رہی اور مقامی بلدیہ، ریاستی حکومت کے محکمہ تعمیرات کے افسران اور اعلیٰ حکام خاموش تماشائی بنے رہے۔ جب پل کا کیبل ٹوٹ گیا تو انتہائی معصومیت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے تو فٹنس سرٹیفکیٹ ہی نہیں دیاتھا۔
طرفہ تماشا تو یہ بھی ہے کہ پولیس نے حادثہ کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے تو اورائیواکمپنی کے میڈیا منیجرکو جو گرافک ڈیزائننگ کا کام کرتا تھا جب کہ پل کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی کے مالک ’چھوٹاکچھ آف رن‘ کے سب سے بڑے تاجر جے سکھ پٹیل کی طرف انتظامیہ کی توجہ ہی نہیں جارہی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس عدم توجہی یا تساہلی کی وجہ جے سکھ پٹیل کی پی ایم اوتک رسائی ہے۔
حقیقت کیا ہے یہ تو آنے والے وقتوں میں سامنے آہی جائے گی لیکن 150سے زائد اموات کا سبب بننے والے بھیانک حادثہ پر بھری عدالت میں اس سنگین بے حسی کا اظہار آج کے ہی ہندوستان میں ممکن ہے۔آج کا ہندوستان ایسا ہندوستان بن گیا ہے جہاں اپنی ہر کمی، خامی، کمزوری، غلطی حتیٰ کہ جرم تک کو ’ بھگوان کی مرضی‘ کہہ کر اپنا دامن صاف بچالیا جاتا ہے۔ وزیرخزانہ تک معاش و معیشت کی بدحالی کے داغ کو ’ایکٹ آف گاڈ‘ کے صابن سے دھو کر سرخ روٹھہرتی ہیں۔ موربی کا حادثہ نہ اتفاق ہے اور نہ بھگوان کی مرضی ہے، یہ جان بوجھ کر کیاگیا دھوکہ، فریب اور بدعنوانی ہے اور اس کی ذمہ دار منافع کی ہوس کا شکار ٹھیکہ دار،بدعنوان مقامی افسران اور بدعنوان سیاست دانوں کی ناپاک تثلیث ہے۔
[email protected]
بھگوان کی مرضی!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS