عالیہ خان
آسمان اپنی تاروں سے مزین چادر لپیٹ چکا تھا، کائنات کا چراغ دھیرے دھیرے روشنی کے ساتھ اپنے نور سے اس فانی دنیا کو منور کررہا تھا۔ھدیٰ گھر کے صحن میں بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی ،ہلکی ہلکی چلتی ہوائیں، صحن میں لگی ہریالی پیڑ پودے اور گلاب کے پھول اسے مسرور کررہے تھے ، اس کے صحن میں آم کا ایک درخت تھا وہ غور سے اسے دیکھنے لگی اسے کچھ سرسراہٹ محسوس ہوئ ۔ اسے کچھ نظر آیا تھا، وہ خوف زدہ ہوگئی ۔۔۔کہیں سانپ۔۔۔! اس نے لمحے بھر کو سوچا پھر آگے بڑھی ۔آہ۔۔۔ یہ تو ایک ننھی چڑیا ہے۔ وہ خوشی سے انھیں دیکھنے لگی ۔۔ ایک چڑیا اپنے تین بچوں کے ساتھ گھونسلے میں بیٹھی انھیں کچھ کھلارہی تھی جو وہ اپنے بچوں کے لیے باہر سے لائ تھی ۔۔ھدیٰ کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔ اس کے نرم رخساروں پر اشکوں کا چشمہ بہنے لگا ۔ اسے کچھ یاد آیا تھا۔
کیا تمہیں واقعی نہیں پتہ؟ ارے یار۔۔ سب لوگ جان چکے ہیں افئیر چل رہا ہے دونوں کا۔ ادینہ کے گھر والوں کو معلوم بھی ہوچکا۔۔۔ ھدیٰ نے اپنا بیگ اتارتے ہوئے کہا وہ زبور کے گھر پڑھنے آئی تھی زبور کے گھر کے آنگن میں نیم کے درخت کے نیچے دونوں ایک ساتھ اسٹڈی کیا کرتے تھے دنوں میں بہت گہری دوستی تھی۔
“یا خدا ! یہ تو بہت برا ہوا ۔زبور نے بڑے افسوس سے کہا ۔ ارے یار کیا برا ہوا ۔بہت اچھا ہوا بہت غرور تھا اسے اب جھیلے بدنامی اس اسمتھ کے ساتھ ۔ کیا ؟کیا؟؟ واقعی لڑکا غیر مسلم تھا ؟ ہاں اور وہ دونوں بھاگنے والے تھے مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔ اتنا سب کچھ ہوگیا اور تمہیں خبر تک نہیں ۔؟ مجھے تو بالکل علم نہیں تھا یا اللہ خیر کرے ہماری مسلم لڑکیوں پر ۔ اس کے والدین کا کیا حال ہوگا۔ ہمیں ادینہ سے بات کرنی چاہیے۔ ہاں ہاں بس بس اب تم اپنا لیکچر مت شروع کردینا وہ جانے ہمیں اس سے کیا۔ برائیوں سے روکنا ہمارا کام ہے ھدیٰ۔ اوہ پلیز اب تم پھر مت شروع ہوجانا ۔ ھدیٰ نے بہت بیزاری سے کہا۔ زبور ادینہ کے مزاج سے واقف تھی وہ خاموش ہوگئ ۔ زبور ایک مذہبی لڑکی تھی ، وہ انبیائ مشن کو لے کر اٹھی تھی اور کسی تنظیم سے وابستہ ہوکر اقامت دین کا فریضہ انجام دے رہی تھی ۔ انتہائ خوش اخلاق چنچل مزاج اور اپنے باتوں سے لوگوں کو موہ لینا اس کی سرشت میں تھا بھلا کیوں نہ ہوتا جو کلامِ خدا کو عام کرنے اٹھا ہو خدا اس کی زبان میں تاثیر پیدا کر ہی دیتا ہے ۔
“تم بیٹھو میں چائے لے کر آتی ہوں ، زبور نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ہاں بھئ ضرور۔ بس اچھی چائے بنانا اور سنو گیس چالو کرنا مت بھولنا ۔ ھدیٰ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔ زبور بھی ہنس کر چلی گئ۔
آج بابا نے مجھے سونے کی بالیاں بنوائ ہے دیکھو۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے ھدیٰ نے کہا ۔ اوہ ماشااللہ بہت پیاری ہے۔ تمھارے لیے بھی بنوالو ۔ نہیں مجھے سونا چاندی پسند نہیں ۔ زبور نے بیزاری سے کہا۔ لیکن کیوں ؟ ھدیٰ نے حیرانی سے پوچھا۔کیونکہ میرے نبیؐ نے اپنی بیٹی کے لیے اسے پسند نہیں کیا تھا اور قرآن میں جب بھی اس کا ذکر آیا تو اللہ نے عذاب کا ذکر ساتھ ہی کیا ۔ اور مجھے عذاب سے ڈر لگتا ہے ۔ اوہ بس بھی کرو ۔ یہ سب اللہ نے اپنے بندوں کی زینت کے لیے ہی پیدا کیا زبور۔ تم بھی نا۔ کچھ بھی سوچتی ہو۔ ہاں ھدیٰ بس اپنی اپنی سوچ ہی ہے اللہ دنیا کی ظاہری چمک دمک سے بچائے ۔
ویسے میں نے خواب دیکھا تھا میں دلہن بنی ہوئ ہوں۔زبور نے کچھ شرماتے ہوئے کہا ۔ او ہو میڈم جی کی ڈولی اٹھے گی پھر تو میں تمھیں تمھاری شادی پر ہاتھی دانت کے کنگن بناکر دونگی۔ ھدیٰ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ارے وہ بھی تو مہنگے ہونگے پھر سنو مرغی کے پروں کا ہار بناکر دونگی ۔ ھدیٰ زور زور سے ہنسنے لگی تھی تھی زبور بھی ھدیٰ کے ساتھ کھکھلانے لگی ۔
ویسے زبور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جب اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہم اس کی عبادت بھی کرتے ہیں تم بھی اور میں بھی پھر تم میں اور مجھ میں اتنا فرق کیوں ؟ تم اتنی شدت پسند کیوں ہو؟میں بھی تو نماز پڑھتی ہوں بس کبھی کبھی فجر و عشاء چھوٹ جاتی ہے اور جمعہ تو بہت پابندی سے پڑھتی ہوں ۔ پھر تم اتنی بے چین کیوں رہتی ہو! اسلام کو لے کر کون برا کرتا ہے کون اچھا کرتا ہے یہ اللہ کو سب اپنا اپنا حساب دینگے تم سب کا حساب نہیں دوگی۔ ھدیٰ نے یہ سوال تین سال میں دوسری بار دہرایا تھا ۔
“اللہ نے ہمیں پیدا ضرور کیا لیکن ایک مقصد کے لیے ۔اور وہ رضائے الٰہی ہے –
ہاں میں جانتی ہوں ھدیٰ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا اور رضائے الٰہی تو ہم بھی کرتے ہیں نماز قرآن زکوۃ سب تو فر ائض انجام دیتے ہیں۔ اب تھوڑا بہت دنیا کا مزہ لے لیں تو یہ کوئ گناہ نہیں نا زبور !
ہمم بے شک گناہ نہیں لیکن رضائے الٰہی کے لیے مشن الٰہی پر کام کرنا ہوگا تو رضائے الٰہی حاصل ہوگا نا ؟
مشن الہی کیا مطلب؟
وہی جو قرآن کہتا ہے ۔( تم وہ بہترین امت ہو جو نکالی گئ ہو لوگوں کے لیے تم بھلائ کا حکم دیتی ہو اور برائ سے روکتی ہو ) کہہ کر اپنا مقصد وجود یاد دلاتا ہے تو کبھی امت وسط کہہ کر ہمیں ہمارا کرادرا بلند و وسیع کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔نیک عمل کرنا اور اپنی جگہ خاموش رہنا برائ دیکھنا اور خاموش رہنا یہ بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی طرح ہے جو بندر بنادیے گئے تھے. صرف وہ لوگ بچ گئے تھے جنھوں نے حکم مانا بھی اور برائ سے روکا بھی –
ھدیٰ بڑی غور سے سننے لگی تھی اسے آیتیں مسحور کرہی تھیں۔اچھا یہ بتاؤ ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق ہے۔
ظاہر سی بات ہے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ھدیٰ نے بڑی طمانیت سے کہا۔
ہمم کچھ حد تک صحیح کہا۔ لیکن یہ صلاحیتیں ان میں بھی ہوتی ہیں بس یہ لوگ احکام الٰہی کے پابند ہوتے ہیں اور انسان اور جن اپنے عمل میں آزاد ہوتے ہیں کچھ صبر شکر کرنے والے ہوتے ہیں تو کچھ نافرمان !
اچھا وہ دیکھو۔ نیم کے درخت پر اشارہ کرتے ہوئے زبور نے کہا۔ وہ چڑیا دیکھ رہی ہو، وہ اپنے بچوں کو کھلارہی ہے ہمارے ماں باپ نے بھی ہمیں کھلایا پلایا یہ بھی زندگی گزارنے کے لیے غذا پر انحصار کرتی ہے اور ہم بھی، پھر ہم میں اور ان چرند پرند جانوروں میں کیا فرق رہ گیا؟ یہ بھی کھاتے پیتے ہیں، رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اور انسان بھی۔ فرق بس اتنا ہے کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں اور خدا کے زمین پر خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اٹھے ہیں ۔ ھدیٰ ٹکٹکی باندھے اس چڑیا کو دیکھ رہی تھی وہ اب اپنے بچوں کو پروں میں سمیٹ رہی تھی ۔
ہاں زبور ۔ لیکن یہ کام آسان بھی تو نہیں ہے لوگ ویسے ہی بدنام کرتے ہیں، بہتان لگاتے ہیں طعنے دیتے ہیں اور پھر خوبیوں پر پردہ ڈال کر بے وجہ عیب تلاش کرتے ہیں ۔ بہت برے ہوتے ہیں لوگ۔ ھدیٰ نے بہت اداسی سے کہا۔
عزت و ذلت کا مالک اللہ ہے۔ لوگ کچھ نہیں کرسکتے اللہ نے اپنے حبیب سے کہا تھا ۔
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ سورہ مائدہ)
دیکھو تاریخ گواہ ہے ، بہتان لگانے ، دعوت الی اللہ میں رکاوٹ بننے والے، گھر بیٹھے رہنے والے تماشائیوں میں تماشائی بننے والوں کا آج نام و نشان بھی نہی ہے جبکہ اللہ کی راہ میں کام کرنے والوں کو اللہ نے ہمیشہ دنیا و آخرت میں عزت بخشی ان کا ذکر بلند کیا اور ان کی تائید کی ۔جو لوگوں سے ڈر گیا وہ کبھی فی سبیل اللہ کام نہیں کرسکتا۔ویسے بھی ہمارے نبیؐ اور ہمارے تمام انبیا کا یہی مشن رہا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ رب ذالجلال کی زمین پر کفر دندناتا پھر رہا ہو ، برائیاں رقص کررہی ہوں ، اللہ کے بندوں پر ظلم کیا جارہا ہو ، مسجدیں مسمار کی جارہی ہوں، ہماری قوم کی لڑکیوں کو فریب دے کر مرتد کیا جارہا ہو اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنے رہیں؟ بنی اسرائیل کی طرح ؟
خدا محشر میں پوچھے گا تو ہم کیا جواب دینگے ؟ بھرے محشر میں ایک آواز آئیگی۔ ہرگز نہی انسان نے پورا ہی نہیں کیا جو اسے حکم دیا گیا تھا۔( القران ) وہی کام اقامت دین ، انبیائ مشن۔ سوچو اس گروہ میں ہم شامل ہوجائیں تو کیا ہوگا؟
ھدیـ کے آنسو بہنے لگے تھے ۔چڑیا اپنے بچوں کو چھوڑ کر پھر اڑان بھر کر رزق کی تلاش میں نکل پڑی تھی۔ ھدیٰ اسے آخر تک دیکھتی رہی وہ زبور کی باتوں سے مرعوب ہونے لگی تھی اسے اپنا وجود جانوروں کی طرح لگنے لگا تھا۔میں بھی تمھارےساتھ یہ کام کرونگی۔ اس کی آنکھیں آیت الٰہی کے اثرسے بہنے لگی تھیں ۔ مجھے بھی اپنے رسول ؐ سے محبت ہے اور میں زبانی دعوے سے نہیں عمل سے ثابت کرونگی پورے جذبے کے ساتھ ھدیٰ نے کہا ۔اسے ہدایت مل چکی تھی ۔’اس نے تمہیں چن لیا ‘۔ زبور نے بڑی مسرت سے کہا۔بچپن سے میں تمھارے ساتھ ہوں لیکن آج عمر کے پچیسویں سال مجھے اپنے مقصد وجود کا صحیح ادراک ہوا ۔ میں کتنی غافل تھی زبور ۔ وہ اب رورہی تھی ۔۔۔۔
ہیلو السلام علیکم !کیسی ہو محترمہ؟ چلو آج گشت کے لیے جانا ہے وطنی بہنوں کو دعوت اسلام پیش کرنے ۔
وعلیکم السلام ، ہاں ہاں بھئی سانس تو لے لو اتنی کیا جلدی ہے سبقت لے جانے کی ۔۔ آرہی ہوں جسٹ ۔
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ گشت کے لیے نکلے تھے، ایک نئ امید ایک جوش ایک ولولے کے ساتھ ۔ سڑک پار کرکے دونوں کو اس پار جانا تھا ،لیکن وقت نے مہلت نہ دی ۔ھدیٰ آگے کو ہوئ تو ایک کارنے زبور کو زور دار ٹکر ماردی ۔
زبوررر۔۔ ھدیٰ زور سے چیخی تھی۔۔۔ شور۔۔۔ لوگوں کا مجمع ۔۔۔ خون بہتا خون ۔۔۔وہ شہید ہوچکی تھی ۔ اس کا خواب سچ ہوا لیکن اس کی ڈولی نہی ڈولا اٹھا تھا ۔ ایک خوبصورت طمانیت تھی اس کے چہرے پر! وہ مطمئن بخش اپنے رب کے پاس لوٹی تھی نفس مطمئنہ بن کر ۔ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھی ۔ تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔( قران) اسے اب سمجھ آیا کہ مسلم کیا ہوتا ہے۔ اس کے جنازے میں آ ئ خواتین کی آ نکھوں سے آنسو جاری تھے اور ہر ایک کی زبان پر اس کا ذکر خیر تھا۔وہ صبح کے ستارے کی طرح زندگی گزار گئ تھی ،مختصر لیکن با مقصد زندگی!
وہ چڑیا کے بچوں کو ہاتھوں میں لے کر سہلانے لگی ، اسے زبور یاد آئ تھی جس نے اسے زند گی کا مقصد دیا ۔ آج ھدیٰ کے ہاتھ کئ لوگ مسلمان ہوچکے تھے ۔وہ اصلاح معاشرہ کا کام انجام دے رہی تھی زبور تو وفات پا چکی تھی مگر اپنی دوست کو ایک بامقصد زندگی دے گئ ۔’خدا محشر میں پوچھے گا ۔۔۔‘ زبور کے یہ الفاظ ھدیٰ کو ہمیشہ جمود کا شکار ہونے سے بچاتے تھے ۔ بے شک اللہ جس سے چاہتا ہے اپنا کام لے کے رہتا ہے ۔ اسے منزل نہیں منزل تک پہنچے کی جدوجہد مطلوب ہے۔_ جن لوگوں کو زبور اسلام کی دعوت دینا چاہتی تھی وہ ھدیٰ کے ہاتھ مسلم ہوچکے تھے۔واللہ یھدی من یشاء۔
خدا محشر میں پوچھے گا….
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS