عبد السلام عاصم
دھوئیں اور دیگر ماحولیاتی آلودگی آمیز دھند اور موسمی کہرے کی خطرناک آمیزش نے دنیا کے ایک بڑے حصے میں سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ اس خطرے سے کوئی خطہ محفوظ نہیں۔ شمالی ہند کے وسیع علاقے خاص طور پر قومی راجدھانی دہلی میں ہر سال دیوالی کے وقت یعنی اکتوبر اور نومبر میں فضائی آلودگی ایکدم سے بے قابو ہو جاتی ہے۔ حکومت اور کسان، صنعت کار اور سائنس داں سمیت سبھی ذمہ داران اسباب سے باخبر ہیں۔ ایک طرف جہاں سائنسی ترقی میں قدرتی اور میکانکی وسائل کے بڑے پیمانے پر استعمال نے امکانات کے رخ پر اندیشوں کے بھی در وا کیے ہیں، وہیں دوسری جانب سب کو پتہ ہے کہ کسان خریف کی فصل کی کٹائی کے بعد ربیع کی فصل بہ سرعت بونا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے فصلوں کی بقایا جات جلانے کا ان کا عمل کوئی نیا نہیں لیکن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں شدت آنے کے بعد کسانوں کا صدیوں سے جاری یہ عمل سنگین مسئلے میں تبدیل ہو گیا ہے۔
کائنات کی تسخیر کے رخ پر جاری وسائل کے ارتقا کے سفر میں فضائی آلودگی کا باعث بننے والی اہم آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ ہے۔ خاص طور پر نائٹروجن آکسائیڈ اور نائٹرک آکسائیڈ، جو کوئلے کے پاور پلانٹوں، کارخانوں اور پٹرول اور ڈیزل والی کاروں کے اخراج کا اہم حصہ ہیں، فضا کو بری طرح آلودہ کرتی ہیں لیکن ماحولیاتی خسارے کے محاذ پر انسان کو ہی ہمیشہ مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ فضائی آلودگی میں دوسری وجوہات کا عمل دخل ہے۔ ان میں ایک اہم وجہ کے محرک تسخیر پسند انسان نہیں بلکہ ایک سے زیادہ قدرتی عوامل ہیں۔ آتش فشاں کے پھٹنے کے علاوہ زلزلے، گردابی طوفان اور سیلاب کا بھی خطرناک فضائی آلودگی میں زبردست حصہ ہے۔ آتش فشاں کا پھٹنا جہاں راکھ، دھواں اور گیس کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کو فضا میں خارج کرتا ہے وہیں دھول کے طوفان اور دیگر سماوی تغیرات بھی فضائی آلودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار صرف فطری طور پرتسخیر پسند انسان ہی نہیں قدرت بھی ہے، البتہ قدرت کی طرف سے راست اور قدرتی وسائل کے استعمال میں ہماری طرف سے عدم احتیاط یا کسی بھی طرح کی بالواسطہ غفلت دونوں سے جو نقصاندہ مادے براہ راست ماحول میں خارج ہو جاتے ہیں، وہ آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔
سائنس دانوں کو فضائی آلودگی میں ماقبل انسانی خلل آ تش فشاں کے پھٹنے، زلزلہ آنے، گردابی اور باد و باراں والے طوفان اورتباہ کن سیلاب کا دخل کا ٹھوس اندازہ لگانے کے بعد اب اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے پہلے سے موجود اسباب کی شدت کم کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کا رخ تباہی اور تاراجی سے تعمیر و تشکیل کی طرف کیسے موڑ سکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلے تو انہیں قدرتی، تکنیکی اور میکانکی وسائل کے بے ہنگم استعمال کے حوالے سے اپنے ترقی و تسخیر رخی اعمال درست کرنے چاہئیں اور اسی کے ساتھ توانائی کے محاذ پر کوئلے، پٹرول، گیس کی جگہ جو قدرتی توانائیاں بروئے کار لانے کی کوشش کی جارہی ہیں، انہیں کسی اور رخ پر روایتی فطری طریقے سے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے سے بھی روکا جائے۔ ظاہر ہے، کوئی بھی تحقیقی عمل دہائیوں میں کسی نتیجے کا حامل بن پاتا ہے، اس لیے اس وقت عالمی برادری کے ذمہ داران آب و ہوا میں خطرناک تبدیلی کی دھار کند کرنے کے جو اقدامات کر رہے ہیں، ان کے ساتھ کامل اشتراک کرنے کی ضرورت ہے۔
صنعتی ترقی کے تیز رفتار سفر میں شریک آلودہ ملکوں میں ہندوستان کی سوچ نے جب کروٹ لی تو حکومت ہند نے حالات کی شدت کا حسب استطاعت نوٹس لیتے ہوئے طے کر لیا ہے کہ اس محاذ پر عالمی ماحولیاتی توازن برقراررکھنے کے لیے وہ اپنا سرگرم کردار ادا کرے گی اور ہندوستان کو 2070 تک ’نیٹ زیرو‘ کا ہدف حاصل کرلینے کا متحمل بنایا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر ملک میں مرحلہ وار تمام گرین ہاؤس گیسز ختم کر دی جائیں گی۔ امریکہ اور برطانیہ نے جن کے وسائل ہندوستان سے زیادہ ہیں، 2050 تک اس مرحلے سے گزرنا طے کیا ہے۔ باوجودیکہ ہندوستان کے عملی جذبے کونوع انسانی کے حق میں دنیا کو محفوظ بنانے کے رخ پر ایک انقلاب آفریں قدم کے طور پر دیکھاجارہا ہے، ابھی حال ہی میں حالات کی شدت کے پیش نظر بجلی کی مرکزی وزارت نے کھیتوں میں فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے اور حرارتی بجلی کی تیاری کے دوران کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کے مقصد سے کوئلے پر مبنی حرارتی بجلی گھروں میں بائیوماس کے استعمال کے بارے میں ایک ’قومی مشن‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ملک میں توانائی کی ترسیل میں مزید مدد ملے گی اور صاف ستھری اور آلودگی سے پاک توانائی کے وسائل کی جانب پیش قدمی کرنے سے متعلق قومی اہداف حاصل کرنے میں تیزی آئے گی۔
دنیا میں گرین ہاؤس گیسز خارج کرنے والا سب بڑا ملک ہمسایہ چین، جو عالمی معیشت کی قیادت کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے، دنیا کے سب سے آلودہ ممالک کی فہرست میں بھی سرفہرست ہے اور دنیا میں آلودگی پھیلانے والے زیادہ ترشہر چین میں ہی واقع ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب چین نے بھی ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اقدامات اور آگاہی کی نئی پالیسیوں کا آغاز کیا ہے۔ بڑے شہروں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں ہوا کی آلودگی کی ایک پرت اتنی گھنی ہوتی ہے کہ لوگ سورج کو بمشکل ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ایسے شہر ترقیاتی وسائل سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو دوگنا کرتے رہتے ہیں۔
بنگلہ دیش بھی اب دنیا کے انتہائی آلودہ ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔ وہاں آلودگی کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ حالیہ دہائیوں میں بنگلہ دیش کے صنعتی شعبے کی تیزتر ترقی کا سبب بننے والے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے لا تعداد کارخانے گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے سب سے فوری نتیجے میں وہاں سانس کی تکلیف اور قلبی امراض میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ ملک اگرچہ اقتصادی طور پر ترقی کر رہا ہے لیکن لوگوں کی صحت سخت خطرے میں ہے جسے دور کرنے کے رخ پر ایک طویل مدتی بصیرت کی ضرورت ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی معیشت بھی انسانی زندگی کے لیے انتہائی درکار صحتمند آب و ہوا کو مضر صحت بنانے میں پیش پیش ہے، جس کی معیشت کا اصل وسیلہ تیل ہے۔ قومی معیشت کی بقا اور فروغ ایک بہت اہم ذریعہ اب اس کی بدترین پریشانیوں کا ایک بڑا سبب بن گیا ہے۔ تیل نکال کر بیچنے سے ابھی کل تک اسے جہاں بے پناہ معاشی فائدہ ہوتا تھا، اب وہیں یہ ذریعہ معاش بڑی مقدار میں آلودگی سے بھری گیسوں کے اخراج کا ذریعہ بن گیا ہے۔ حیاتیاتی ایندھن سے خارج ہونے والی آلودگی زیادہ زہریلی ہوتی ہے اور صحت کے لیے انتہائی نقصاندہ ہے۔
دوسری طرف یوروپین ماحولیاتی ایجنسی (ای ای اے) نے حال ہی میں کہا ہے کہ یوروپ بھر میں اگرچہ فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت اموات میں 10 فیصد کمی آگئی ہے لیکن یہ پوشیدہ قاتل اب بھی تین لاکھ سات ہزار قبل از وقت اموات کا سبب بنتا ہے۔ فضائی آلودگی یوروپ میں انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے۔ دل کی بیماری اور فالج کی وجہ سے زیادہ تر قبل از وقت اموات کا ذمہ دار فضائی آلودگی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھیپھڑوں کی بیماریاں اور کینسرکے عارضے بھی تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ بچوں میں ماحولیاتی آلودگی نہ صرف پھیپھڑوں کو متاثرکر سکتی ہے بلکہ سانس کے انفیکشن کا سبب بن سکتی ہے اور دمہ کو بڑھا سکتی ہے۔ ایسے میں ماحولیاتی تبدیلی پر حال ہی میں ختم ہونے والی دو ہفتے کی طویل اور مشکل گلاسگو عالمی کانفرنس میں دو سو سے زائد ممالک نے دنیا کو درپیش خطرناک وآزمائش سے نمٹنے کے لیے معاہدے پر بظاہر اتفاق تو کر لیاہے لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں عالمی درجۂ حرارت میں خطرناک اضافے کو روکنے کے لیے طے شدہ اہداف اب بھی ناکافی ہیں۔tlq
[email protected]