عالمی حدت:دنیائے انسانیت کیلئے خطرے کی گھنٹی

0

محمد حنیف خان

اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی ’’انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج(آئی پی سی سی)کی حالیہ رپورٹ دنیائے انسانیت کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ وہ ترقی کے جلو میں انسانی وجود کا خاتمہ چاہتی ہے یا پھر عالمی تباہی سے بچنے کے لیے وہ کوئی لائحہ عمل تیار کرکے کسی ایسے اجتماعی فیصلے پر پہنچے گی جو دنیا کو جلد تباہی سے بچا سکے۔عالمی حدت، ماحولیاتی عدم توازن اور اس کی تبدیلی بیسویں اور اکیسویں صدی کا سب سے بڑا عالمی المیہ ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت کرۂ ارض کے درجہ حرارت اور آبی سطح میں اضافہ سے پریشان انسان ہی نہیں حیوانات یہاں تک کہ نباتات تک اس کی زد میں ہیں۔اس سے بھی سب بخوبی واقف ہیں کہ یہ سب انسانی ہاتھوں کی کرتوت کا نتیجہ ہے اس کے باوجود نشستن،برخاستن سے زیادہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی ہے۔فرد سے لے کر حکومت بلکہ دنیا کی حکومتیں اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ چونکہ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں جمہوری نظام حکومت ہے جس کی وجہ سے قوت مقتدرہ معینہ مدت کا بہانہ کرکے عملی اقدام سے خود کو بچا لیتی ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ طویل مدتی منصوبے بنا کر حکومتیں اس پر کام کرتیںاور دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرتیں۔اقوام متحدہ نے گلوبل وارمنگ /عالمی حدت میں اضافہ سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے اس کو دنیائے انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے،جس کے لیے انسانوں کے علاوہ کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے،کرۂ ارض کا اوسط درجہ حرارت سال 2030 تک 1.5ڈگری سیلسیس تک بڑھ جائے گا،درجہ حرارت میں یہ اضافہ اندازے سے ایک دہائی قبل ہی ہوجائے گا۔رپورٹ کے مطابق اس اضافے کی وجہ سے پوری دنیا میں موسم سے متعلق قدرتی آفات آئیں گی۔کرۂ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کا اخراج جس طرح تیزی سے جاری ہے اس کی وجہ سے صرف دو دہائی میں ہی درجہ حرارت کی سبھی حدیں ٹوٹ چکی ہیں۔اس صدی کے خاتمے تک سمندر کی آبی سطح میں دو میٹر کا اضافہ متوقع ہے لیکن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تخفیف کرکے اس درجہ حرارت کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘

ترقی کے نام پر پہاڑوں اور جنگلات کی کٹائی پر بھی روک لگنی چاہیے کیونکہ ایسی ترقی جو انسانوں کے ساتھ ہی حیوانات اور نباتات و جمادات تک کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے ترقی معکوس کہلاتی ہے۔ایسی ترقی سے بہتر ہے کہ انسان ترقی کے اس پائیدان پر ہی رک جائے جہاں سے تنزلی کی راہ شروع ہوتی ہو۔فلاحی ادارے،ماحولیات سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں اور دانش گاہوں میں ماحولیات سے متعلق تعلیم دینے والے دانشوروں کو اب سمینار اور سمپوزیم سے آگے بڑھ کر مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب نومبر 2021 میں گلاسگو میں پانی سے متعلق سی اوپی 26(کلائمیٹ چینج کانفرنس آف دی پارٹیز)اجلاس ہونے والا ہے،جس میں 196ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے اور یہ سب مل کر ایک بڑے ہدف کے حصول کی کوشش کریں گے۔اس رپورٹ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ 2013کے بعد اپنی طرح کی یہ پہلی رپورٹ ہے،جس میں کرۂ ارض کے درجہ حرارت اور آبی تبدیلی سے متعلق تفصیلی جائزہ پیش کرکے دنیا کو اس بڑے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئی پی سی سی کا قیام 1988میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد ہی صرف یہ تھا کہ آبی تبدیلی سے متعلق حقائق کا مشاہدہ و مطالعہ کرکے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کے تناظر میں آگے بڑھا جا سکے۔یہ حکومتوں کو اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے تاکہ اس کے تناظر میں پالیسیاں وضع کی جا سکیں۔ 1992 میں آبی تبدیلی سے متعلق اس کی پہلی رپورٹ آئی تھی جبکہ یہ اس کی چھٹی رپورٹ ہے۔2013میں اس کی آخری رپورٹ آئی تھی تب سے لے کر اب تک دنیا نے کئی مسائل کا سامنا کیا ہے۔ریکارڈ توڑ درجہ حرارت میں اضافہ،گرمی میں شدت،بارش میں عدم توازن،جنگلوں میں آگ سے لے کر سیلاب اور دوسری آفات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس رپورٹ کے تناظر میں اگر پوری دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ماحولیات کے عدم توازن نے ہر جگہ زندگی کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے،جس کے بداثرات صرف جانداروں پر ہی مرتب نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اس سے کھیتی بھی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ امریکہ سے لے کر عرب اور افریقہ کے صحارا تک اس کی زد میں آچکے ہیں۔اس کے باوجود کوئی سنجیدہ لائحہ عمل ابھی تک تیار نہیں ہوا ہے۔2013کی رپورٹ میں بھی اس کے لیے انسانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس رپورٹ میں بھی انسان اور اس کی خواہشات کو ہی سبب مانا گیا ہے۔لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں عام لوگوں کے بجائے سیاسی افراد(مقتدر)کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کیونکہ بڑے بڑے منصوبوں کے فیصلے ان ہی کے توسط سے ہوتے ہیں،اب اگر یہ کسی ایسے نکتے پر پہنچ جائیں جو درجہ حرارت میں کمی کا باعث ہو تو اس کی کامیابی کا سہرا بھی ان ہی کے سر بندھے گا۔اس رپورٹ کے تناظر میں اگر ہندوستان کو دیکھا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔میدانی علاقوں کو چھوڑ کر یہاں کے سبھی پہاڑی علاقے ہمیشہ قدرتی آفات کی زد میں رہتے ہیں۔جس میں اتراکھنڈ سرفہرست ہے۔جس کے کئی اسباب ہیں۔گلیشیروں کے پگھلنے سے ندیوں کی آبی سطح میں اضافہ کی وجہ سے سیلاب تباہی مچاتا ہے۔اس وقت اترپردیش کی گنگا اور اس کی ذیلی ندیوں جمنا، سندھو، مندا کنی وغیرہ میں طغیانی نے ایک خلقت کے سروں پر تلوار لٹکا رکھی ہے۔ بندیل کھنڈ اور سینٹرل یوپی میں تو فوج کی بھی مدد لینی پڑ رہی ہے۔ ہیلی کاپٹر سے راحت رسانی کی جا رہی ہے۔الٰہ آباد، بنارس،اوریا،جالون،باندا،فتح پور اور حمیر پور وغیرہ اس کی زد میں ہیں۔پہاڑی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پہاڑ کو کاٹا جا رہا ہے،ان کو ڈائنامائٹ سے اڑایا جا رہا ہے۔ طے معیار پر عدم عمل کی وجہ سے پہاڑ کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے زلزلے آرہے ہیں۔ ان پہاڑی علاقوں کو اگر سرکاریں قدرتی آفات سے بچانا چاہتی ہیں تو ان کو منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں کی سخت نگرانی کرنی ہوگی۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ لال فیتہ شاہی کی وجہ سے طے معیار پر کمپنیاں عمل نہیں کرتی ہیں کیونکہ کمپنی اور لال فیتہ شاہی دونوں مل کر اصل منصوبے عمل کے بجائے اپنے بینک بیلنس کے منصوبے پر زیادہ عمل کرتی ہیں،جب تک حکومت اس پر قدغن نہیں لگائے گی، اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔کوئی بھی ترقی کا مخالف نہیں ہوتا ہے، اگر پہاڑوں کو کاٹ کر سڑکوں کی تعمیر ہوگی تو اس سے جہاں آمد رفت میں آسانی ہوگی وہیں معیشت کی سطح پر بھی ملک مضبوط ہوگا اور علاقے کے عوام کو بھی اس کا فائدہ ملے گالیکن معیار سے سمجھوتہ انسانی زندگی کے لیے تازیانہ ہوجاتا ہے،بد قسمتی سے ہندوستان کو یہ گھن بہت پہلے سے لگا ہے۔حکومتیں وعدے تو کرتی ہیں کہ وہ اس گھن کا خاتمہ کردیں گی مگر مرکزی اور ریاستی کوئی بھی حکومت حقیقت میں اس پر عمل نہیں کرتی ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ سیاسی افراد کی خواہشات ہیں کیونکہ وہ بھی بہت جلد دولت مند بننا چاہتے ہیں۔
جھارکھنڈ،چھتیس گڑھ،مدھیہ پردیش اور گجرات سمیت ملک کی دوسری جنگلات علاقہ والی ریاستوں میں جنگلات کی کٹائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔اس سے جہاں ایک طرف آدی واسیوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں،ان کی تہذیب و ثقافت پر منفی اثرات پڑتے ہیں، وہیں اس سے ماحولیات کا توازن بھی بگڑتا ہے۔اس کے علاوہ بھی انتظامی سطح پر متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقیات کے نام پر جنگلات کو صنعت کاروں کے حوالے نہ کریں بلکہ ایسے متبادل منصوبے تیار کیے جائیں جس سے آدی واسیوں کی زندگی اور ان کی تہذیب و ثقافت پر منفی اثرات بھی نہ پڑیں اور وہ ترقی کی مین اسٹریم سے جڑ بھی جائیں۔اس سے ماحولیات میں عدم توازن کا بھی مسئلہ ختم ہوگا۔
آئی سی سی کی رپورٹ عالمی تناظر میں ہمیں آگاہ کرتی ہے لیکن ہر حکومت کو اپنی سطح پر ہی پہلے کام کرنا ہوگا تبھی کامیابی مل سکتی ہے۔اس لیے ہندوستان کی حکومت کو گرین ہاؤس گیسوں میں تخفیف کے ساتھ ہی ’نمامی گنگے‘‘ جیسے پروگرام کو صرف کاغذات تک محدود رکھنے کے بجائے زمینی سطح پر نافذ کرنا چاہیے۔ اسی طرح سے ترقی کے نام پر پہاڑوں اور جنگلات کی کٹائی پر بھی روک لگنی چاہیے کیونکہ ایسی ترقی جو انسانوں کے ساتھ ہی حیوانات اور نباتات و جمادات تک کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے ترقی معکوس کہلاتی ہے۔ایسی ترقی سے بہتر ہے کہ انسان ترقی کے اس پائیدان پر ہی رک جائے جہاں سے تنزلی کی راہ شروع ہوتی ہو۔فلاحی ادارے،ماحولیات سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں اور دانش گاہوں میں ماحولیات سے متعلق تعلیم دینے والے دانشوروں کو اب سمینار اور سمپوزیم سے آگے بڑھ کر مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے کہ ترقی معکوس کے بجائے حقیقی ترقی کے منصوبے تیار کر کے اس کو نافذ کریں جس میں ماحولیات کو بچانے پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہو اور اس کو بھی یقینی بنایا جائے کہ لال فیتہ شاہی اس منصوبے کو گھن کی طرح نہیں کھائے گی بلکہ ترجیحی بنیاد پر اس پر کام ہوگا تبھی ہندوستان اپنے حصے کا حق ادا کر سکے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS