ڈاکٹر جاوید عالم خان
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے برسراقتدار ہونے کے بعد عالمی سطح پر اقتصادی معاملات میں کافی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ پہلے سے ہی عالمی معیشت مندی کا شکار تھی جس کی اہم وجوہات میں کورونا وبا اور روس-یوکرین جنگ قابل ذکر ہیں۔
حالیہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتصادی نظام میں برابری لائیں گے، اسی کے مدنظر انہوں نے چین، ہندوستان اور دوسرے ممالک کے ساتھ درآمدات پر نافذ ہونے والے ٹیرف یا محصول کی شرح میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے دوسرے ممالک بھی جواب میں امریکہ سے ہونے والی برآمدات پر ٹیرف کی شرح میں اضافہ کررہے ہیں چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعے لیے گئے فیصلے کو ایک جمہوری فیصلہ بتایا جارہا ہے کیوں کہ انہوں نے انتخابات کے دوران عوام سے دوسرے ممالک سے ہونے والی درآمدات پر ٹیرف میں اضافے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کے اس فیصلے سے عالمی سطح پر معاشی معاملات میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔1970 کی دہائی میں تمام ممالک نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ عالمی تجارت کے میدان میں اصولی سطح پر برابری لائی جائے گی اور معاشی معاملات میں عالم گیریت (Globalisation)، نجکاری(Privatisation) اور اقتصادی معاملات میں آزادی (Liberalisatio) جیسے اصولوں کو پوری دنیا میں عام کیا جائے گا اور دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ اسے عمل میں لائیں گے۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعے لیے گئے حالیہ ٹیرف میں اضافے کے فیصلوں سے مذکورہ معاشی اصولوں کے نفاذ کو ایک بڑا دھکا لگا ہے اور عالمی تجارت میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
1970 اور2008کے دوران عالمی جی ڈی پی میں تجارت کا حصہ37فیصد سے بڑھ کر61فیصد ہوگیا تھا، 2008 کے بعد سے عالمی جی ڈی پی میں تجارت کی شرح بتدریج گرنے لگی تھی۔ جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے تو یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور بازار ہے جس کا حصہ عالمی معیشت میں25فیصد ہے اگر امریکہ نے سامان کی درآمدات پر ٹیرف نافذ کیا ہے تو دوسری بڑی معیشتوں نے بھی جوابی کارروائی کی ہے، اس سے تمام قومی سرحدوں پر اشیاء کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوں گی۔ چونکہ تجارت عالمی معیشت کیلئے ایک ریڑھ کی ہڈی ہے، اس لیے عالمی سطح پر عوام کی آمدنی میں گراوٹ کے آثار نظر آرہے ہیں اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ اصولاً جب ہم معاشی عالم گیریت کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اشیاء، لیبر اور سرمایہ کی تمام عالمی سرحدوں کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ حقیقت میں سرمایہ اور اشیاء کے مقابلے لیبر کی نقل وحرکت پر زیادہ پابندی نہیں لگائی گئی تھی جبکہ لیبر کے مقابلے سرمایہ اور اشیاء کی آزادانہ نقل وحرکت پر زیادہ پابندی تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے سے لیبر کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگائی گئی ہے اور امریکہ نے غیر قانونی تارکین وطن کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے اور کافی لوگوں کو ملک بدر بھی کر دیاگیا ہے اور اعلیٰ ٹیرف کے نفاذ سے اشیاء کی نقل وحرکت کو بھی روکنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن سرمایہ کی نقل وحرکت پر پابندی لگانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ منشا ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں سے سرمایہ کے آنے پر پابندی نہیں لگائی جائے گی لیکن امریکہ اپنے یہاں سے دوسرے ملکوں میں سرمایہ کی نقل وحرکت کو نہیں ہونے دے گا۔
اگر اقتصادی طور پر دیکھا جائے تو تجارت ایک طرح سے تقابلی فائدے(Comparative Advantage) کا نام ہے اور تمام ممالک ان ہی اصولوں کے نام پر باہمی تجارت کرتے ہیں، مثال کے طورپر ہر ایک ملک کے پاس اشیاء کی پیداوار کو لے کر خاص صلاحیت ہوتی ہے جیسے کہ امریکہ کے پاس جہاز اور دفاعی سازوسامان بنانے کی صلاحیت ہے، وہیں جاپان کے پاس کار، چین کے پاس ٹیکسٹائل اور چپلیں جبکہ ہندوستان کے پاس سافٹ ویئر بنانے کی منفرد صلاحیت ہے، ان پیداوار اور اشیاء کی برآمدات اور درآمدات کیلئے ایک برابری کی پالیسی وضع ہونی چاہیے جو تمام ممالک کیلئے مفید ثابت ہو۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں میں اقتصادی عالمگیریت کی وجہ سے معاشی نمو میں اضافہ ہواہے اور کئی کروڑ لوگوں کی غربت میں کمی آئی ہے اور روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہواہے۔اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں انڈونیشیا، ہندوستان اور چین جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کے درمیان کچھ حد تک آمدنی کے میدان میں غیر برابری میں کمی آئی ہے۔ ایشیا کے کچھ اور ممالک نے بھی کافی ترقی کی ہے۔ 1980کی دہائی میں عالمی معیشت میں ہندوستان اور چین کی پوزیشن پچاس اور اکیاون نمبر پر تھی لیکن ان کی موجودہ پوزیشن عالمی سطح پر دوسری اور پانچویں نمبر پر ہے۔
گزشتہ40سالوں میں اقتصادی ترقی کے باوجود ان ملکوں کے درمیان عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک اہم وجہ تجارت کے ذریعے آمدنی کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے اور یہ غیر برابری زیادہ تر گلوبل نارتھ کے ممالک میں زیادہ بڑھی ہے۔ وہ ممالک جہاں پر تعلیم اور اسکل ڈیولپمنٹ کی صلاحیتیں کم ہیں، ان ملکوں کو زیادہ نقصان ہوا ہے، وہیں پر وہ ممالک جہاں پر اعلیٰ تعلیم اور اسکل ڈیولپمنٹ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہواہے، ان ممالک کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ خاص طور سے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح37فیصد ہے اور زیادہ تر لوگ یا تو ہائی اسکول یا اس سے کم ڈگری والے ہیں اور ان کی صلاحیتیں صنعتی شعبوں میں کام کرنے کیلئے مناسب ہیں اور یہ لوگ امریکہ کے مشرقی اور مغربی ساحل پر ٹیکنالوجی اور اعلیٰ اسکل ڈیولپمنٹ والے شعبے میں کام کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ چونکہ ایشیاء میں اور خاص طور سے چین میں لیبر کی قیمتیں کم ہیں، اس لیے یہ علاقے دنیا کی صنعتوں کے بڑے مراکز بن گئے ہیں، جب سے صنعتی مراکز یوروپ اور امریکہ سے ایشیاء کی طرف منتقل ہوئے ہیں، عام طور سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ اشیاء کی قیمتیں سستی ہوئی ہیں جس کا فائدہ دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ نے بھی اٹھایا ہے۔ یہاں پر سستی اشیاء میں کپڑے، چپلیں، کاریں، کمپیوٹر اور واشنگ مشین جیسی اشیاء شامل ہیں۔ امریکہ میں یہ اشیاء برآمد کی جاتی ہیں اور اس کے صنعتی مراکز میں پیداوار اور روزگار کی شرح میں گراوٹ آرہی ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹیرف میں اضافے کے ذریعے درآمدات کو روکا جائے اور گھریلو صنعتوں کے ذریعے اشیاء کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے جو روزگار کو بڑھانے میں بھی مدد کرے گا اور امریکہ کے سماج میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات کو اس کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ چین کی درآمدات پر104فیصد ٹیرف اور ہندوستان کی درآمدات پر26فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد عالمی سطح پر اسٹاک مارکیٹ کافی متاثر ہوئی ہیں اور لوگوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اگرچہ چین کے خلاف ٹیرف میں اضافہ کردیا گیا ہے لیکن چین کی اشیاء امریکہ میں تیسرے ممالک جیسے کہ میکسیکو اور ویتنام کے ذریعے پہنچیں گی۔ موجودہ وقت میں امریکہ میں چین کے ساتھ582بلین ڈالر کی تجارت کی جاتی ہے، وہیں چین کو امریکہ143بلین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے، اس وقت چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ295بلین ڈالر ہے جوکہ مجموعی امریکی معیشت کا ایک فیصد ہے، اسی طرح سے ہندوستان بھی امریکہ کا اہم تجارتی پارٹنر ہے اور دونوں کے درمیان باہمی تجارت تقریباً190بلین ڈالر کی ہے۔ اس وقت ہندوستان کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ تقریباً 50بلین ڈالر ہے، اسی لیے ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ کوشش ہے کہ ہندوستان اور چین کے ساتھ تجارتی خسارے کو کم کیا جائے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ کوشش جلد بازی کا ایک عمل ہے اور عالمی سطح پر تمام تجارتی معاہدوں کو توڑنے والا ہے۔ اگر امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ بنیادی اشیاء کے صنعتی مراکز کو اپنے ملک میں مضبوط کرے تو اس کو جلد بازی میں اٹھائے گئے اس قدم کے بجائے ایک طویل مدتی منصوبہ بنانا چاہیے جس میں تمام ملکوں کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
[email protected]