طلبا کے عالمی مظاہرے : صہیونیت مخالف ہیں نہ کہ یہودی مخالف: اسد مرزا

0

اسد مرزا

’ہندوستان سمیت امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک پوری دنیا میں طلباء فلسطین کے حامی مظاہروں کی قیادت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ امریکی کیمپس میں ہورہے احتجاج نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرلی ہے اور یہی وجہ ہے کہ طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں نے اب دیگر ممالک میںبھی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔‘ تاریخی طور پر، تعلیمی ادارے کئی دہائیوں سے مظاہروں کے مرکز رہے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کے محاصرے کے خلاف جو ہلچل امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں نظر آرہی ہے وہ طالب علموں کی قیادت میں سرگرم سیاسی عمل کی روایت کی تازہ ترین مثال ہے۔یہ مظاہرے اب دنیا بھر کے تعلیمی اداروں تک پھیل چکے ہیں، برطانیہ سے آسٹریلیا اور یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی اس تحریک کو تقویت حاصل ہورہی ہے۔ 18 اپریل سے، ان مظاہروں کے سلسلے میں امریکہ بھر میں تقریباً 2,000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی سمیت کئی یونیورسٹیوں میں پولیس کو مظاہروں کو ختم کرانے کے لیے طلب کیا گیا، مگر وہ کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ مختلف ملکوں میں طلباء کا احتجاج کس طرح پھیل رہا ہے۔

امریکہ:امریکہ کی مختلف ریاستوں میں موجود مختلف یونیورسٹیوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میںکولمبیا، ییل، براؤن، پرنسٹن، یو سی ایل اے اور دیگریونیورسٹیاں شامل ہیں۔

آسٹریلیا:امریکہ میں ہونے والے ان مظاہروں سے متاثر ہو کر سیکڑوں افراد نے آسٹریلیا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے یونیورسٹی آف سڈنی میں جمع ہوکر مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات رکھنے والی کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کرلے۔ اسی طرح کے مظاہرے میلبورن، کینبرا اور آسٹریلیا کے دیگر شہروں کی یونیورسٹیوں میں بھی جاری ہیں۔

برطانیہ:برطانیہ کی مانچسٹر، شیفیلڈ، برسٹل، واروک اور نیو کیسل کی یونیورسٹیوں میں بھی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ طلباء اپنی انفرادی یونیورسٹیوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان فرموں سے علیحدگی اختیار کرے جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتی ہیں اور بعض صورتوں میں اسرائیل کی یونیورسٹیوں سے موجودہ روابط منقطع کردے۔ جب کہ حالیہ مہینوں میں برطانیہ میں احتجاجی تحریک کا مرکز لندن اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر مارچوں اور احتجاجوں کو دیکھا گیا، طلبا نے یونیورسٹی کی عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور مظاہرے کیے، جو چھوٹے پیمانے پر ہوئے اور اس کی جانب کم توجہ مبذول ہوئی۔

فرانس:فرانس میں پولیس نے گزشتہ ہفتے مظاہرین کو زبردستی باہر نکالا، پیرس میں سائنسز پو ،جو ملک کے اعلیٰ سیاسیات کی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، وہاں سے طلباء کے مظاہرے شروع ہوئے۔ رائٹرز کے مطابق حکام نے بتایا کہ 70 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ فرانسیسی صدرمیکرون نے گو کہ ان مظاہروں کو ایک طریقے سے درست ٹھہرایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کو احتجاج کا مرکز نہیں بنانا چاہیے۔

کینیڈا:پچھلے ہفتے کے دوران، کینیڈا کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں، جیسے کہ ٹورنٹو یونیورسٹی، یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا اور اوٹاوا یونیورسٹی میں جنگ مخالف کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں، جو اسرائیلی تعلقات کے حامل گروپوں سے علیحدگی کے مطالبے کی بازگشت کرتے ہیں۔

میکسیکو:یہ مظاہرے امریکی سرحد کے دوسری طرف بھی پہنچ چکے ہیں، میکسیکو سٹی میں یونیورسٹی آف میکسیکو کے ہیڈ آفس (UNAM) کے سامنے خیمے لگائے گئے ہیں، فرانس24 کی خبر کے مطابق، جہاں طلباء نے ملک کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردے ۔

ہندوستان:ہندوستان میں امریکی سفیر، ایرک گارسیٹی کا دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کا دورہ کیمپس طلبا یونین کی طرف سے فلسطین کے حامی مظاہرے کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’آزاد فلسطین‘، نیتن یاہو کے لیے مزید رقم نہیں‘، اور ’نسل کشی ابھی بند کرو‘۔

لبنان:خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق گزشتہ ہفتے لبنان کی مختلف جامعات میں بھی سیکڑوں طلبا جمع ہوئے تھے، جنہوں نے فلسطینی پرچم لہرائے اور اپنی یونیورسٹیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل میں کاروبار کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے طلباء کو بھی پولیس نے گیٹ کے باہر جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پکڑ لیا۔

کویت: واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق کویت یونیورسٹی میں بھی ایک یکجہتی ریلی نکالی گئی، جہاں ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا، ’’کویت یونیورسٹی کے طلباء سے لے کر کولمبیا یونیورسٹی کے طلباء تک: ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘

مجموعی طور پر اگر ہم یہ تجزیہ کریں کہ اسرائیل مخالف مظاہرے مختلف یونیورسٹیوں کے کیمپس سے کیوں شروع ہوئے ہیں تو ہم یہ پائیں گے کہ تاریخی طور پر دنیا بھر میں جب بھی کہیں کسی خاص مسئلے پر ہماری نوجوان نسل اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے یا تبدیلی کے لیے کوشاں ہوتی ہے تو دونوں صورت حال میں ہمارے تعلیمی مرکز ہی ان کی کاوشوں کا مرکز بنتے ہیں۔کیونکہ جو طاقت نوجوان طلباء کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے وہ بالعموم آخر کار سماج میں بھی مقبول ہوجاتی ہے۔اور بالآخر اس کی تعبیر ایک نئی صبح و ایک نئے جذبے یا ایک نئے سیاسی و سماجی ڈھانچے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔

موجودہ مظاہروں سے بھی یہی امید کی جاسکتی ہے کہ طلباء کی طاقت کے آگے مختلف ممالک اپنی اسرائیل حمایتی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں اور جیسا کہ ایک طالب علم نے Politico میگزین کو بتایا کہ یہ مظاہرے اس بات کو تسلیم کروانے میں بھی کامیاب رہے ہیں، کہ یہودیت اور صہیونیت میں کیا فرق ہے۔ اور ان مظاہروں میں جو یہودی طلباء شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ یہودی تعلیمات کی بنا پر جو کہ آپسی میل جول کو اور دیگر مذاہب کے ساتھ روابط کو زیادہ اہمیت دیتی ہے، اس کی بنا پر وہ فلسطین حامی ان مظاہروں میں شامل ہیں۔کیونکہ وہ اسرائیل کی صہیونی حکومت کے جنگی اور وحشی منصوبوں سے متفق نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل یہودی تعلیمات کی بنیاد پر کیا جائے۔

ان مظاہروں سے جو پیغام پوری دنیا میں پھیل رہا ہے وہ یہی ہے کہ اب جبر و طاقت کا دور اور دوغلی پالیسیاں اپنانے کا دور ختم ہونے کا وقت آچکا ہے، کیونکہ مختلف ممالک کے عوام بالخصوص نوجوان نسل ہماری ان تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو کہ دنیا میں سامراجی طاقتوں کے خاتمے کے بعد گزشتہ صدی کی چالیسویں دہائی سے شروع ہوا تھا اور جس کے تحت ایسی بہت سی سیاسی اور قومی غلطیاں ہم نے کی تھیں جن کا منفی اثر آج تک ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں اور اب وقت آچکا ہے کہ ان غلطیوں کو درست کیا جائے کیونکہ اب ہماری نوجوان نسل بھی اس بیانیے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جو کہ سامراجی طاقتوں نے مختلف حربوں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا رکھے تھے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS